Khabar Mantra
محاسبہ

شرط لوگوں نے ہواؤں سے لگا رکھی ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

کانگریس مکت بھارت‘ کی آواز اٹھانے والوں کے چہروں پر ایک حریص مسکراہٹ کی چمک دکھائی دے رہی ہے۔ راہل گاندھی کے آل انڈیا کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد فسطائی قوتوں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو ’رن چھوڑ‘ سپاہی قرار دیا جا رہا ہے۔ نہرو پریوار اور راہل گاندھی پرطنز وتنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو جتنی خوشی پارلیمانی الیکشن کی جیت سے ہوئی اس سے کہیں زیادہ راہل گاندھی کے استعفیٰ اور کانگریس کے اندورنی خلفشار پر ہو رہی ہے۔ بی جے پی کو گمان ہے کہ اب ملک میں کانگریس کی کشتی منجھ دھار میں ہے۔ بھارت کانگریس سے جلد مکت ہو جائے گا۔ کانگریس کی مکتی سے ہندوتو کی راہ میں حائل تمام اڑچنیں ختم ہوجائیں گی اور بھارت پر ایک چھتر ایک پارٹی کا راج ہوگا۔ ملک میں ایک پارٹی کے تحت کام کاج ہوگا، حالانکہ یہ سپنا مونگیری لال کے سپنے سے کم حسین نہیں ہے، کیونکہ راہل گاندھی اپنے استعفیٰ کے بعد بھی کانگریس سے الگ نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے بیان میں کانگریس مکت بھارت کا سپنا دیکھنے والوں کو کرارا جھٹکا دیا ہے اور کہا ہے کہ بی جے پی سے میری وچار دھارا کی لڑائی ہے اور یہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک زندگی باقی ہے، بلکہ یہ لڑائی پہلے کے مقابلے دس گنی طاقت سے لڑی جائے گی۔ مجھ پر استعفیٰ کے بعد مخالفین کا جس طرح وار ہو رہا ہے، اس میں مجھے بے حد مزہ آ رہا ہے۔

بلاشبہ راہل گاندھی کا یہ حوصلہ اور اعتماد ایک ایسے لیڈر کی شناخت ہے، جو اقتدار کے حصول اور مفاد پرست سیاست سے بے نیاز ملک کی خدمت اور پارٹی کو طاقت پہنچانے کے لئے سرگرم رہتا ہے، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ راہل گاندھی نے کبھی بھی اقتدار کو اہمیت نہیں دی، اگر وہ چاہتے تو کب کے وزیراعظم بن چکے ہوتے، کئی مرتبہ ایسے مواقع بھی آئے، مگر 10 جن پتھ نئی دہلی کا کوئی فرد خواہ سونیا گاندھی ہوں یا راہل گاندھی کسی نے اقتدار کا تاج اپنے سر پر رکھنا گوارہ نہیں کیا۔ انہوں نے کانگریس صدر کے لئے بھی برسوں انتظار کرایا اور وقت کی اشدضرورت کے تحت صدرکانگریس بنے اور یہ بڑے اعلیٰ ظرف کی بات ہے کہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کی ہار کی پوری ذمہ داری لیتے ہوئے انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

حالانکہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں راہل گاندھی کی بے پناہ محنت، تابڑ توڑ ریلیاں، روڈ شو، دھواں دھار انتخابی جلسے وغیرہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ کانگریس کی بقا اور ملک کی خدمت کے لئے دوسروں سے کہیں زیادہ اعتماد، حوصلہ اور قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ آنجہانی اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کی شہادت اور سونیا گاندھی کے تیاگ سے لے کر راہل گاندھی کی کانگریس کی قیادت تک ایک طویل اور روشن تاریخ ہے، جو آج بھی ملک اور کانگریس کی رگوں میں امید کی لہریں دوڑاتی ہے۔ دلتوں، پسماندوں، اقلیتوں پر مشتمل مظلوم طبقہ کی امید بھری نظریں کانگریس کی طرف بہرحال اٹھتی رہی ہیں، یہ اور بات ہے کہ ’منتھن‘ در ’منتھن‘ کی روایتی سیاست اور تاخیر سے فیصلہ لینے کی روایت نے کانگریس کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ راہل گاندھی اسی روایت اور سیاست کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ نوجوان قیادت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ عام ورکر سے لے کر اعلیٰ کمان تک ایک تال میل چاہتے ہیں۔ گویا زمینی سطح تک کانگریس کو مظبوط دیکھنا چاہتے ہیں، مگر المیہ یہ بھی ہے کہ کانگریس کی اندورنی سیاست اور معمر گرو گھنٹالوں کی منافقت زمینی سطح پر کانگریس کی جڑیں کھوکھلا کرتی رہی ہے۔ راہل گاندھی کی تمام تر محنت ایک گناہ بے لذت بنتی رہی ہے، مگر کانگریس کی ہار کے باجود دنیا نے تسلیم کرلیا کہ مودی کے مقابلے اپوزیشن کے تمام لیڈر بونے ثابت ہوئے، صرف راہل گاندھی ہی ان کے مقابلے میں ٹھہر سکے۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ چوطرفہ حملوں کے باجود تن تنہا راہل نے بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا۔

راہل گاندھی کے استعفیٰ پر طنز وتنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کے سنیئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے انہیں ’رن چھوڑ‘ سپاہی قرار دیا ہے۔ کوئی لیڈر انہیں کسی دیگر الفاظ سے مخاطب کر رہا ہے۔ حالانکہ راہل نے دوٹوک کہا ہے کہ اب وہ دس گنی طاقت سے بی جے پی سے لڑیں گے۔ انہوں نے 4 صفحاتی استعفیٰ میں پوری وضاحت کر دی ہے کہ ملک کس صورتحال سے دوچار ہے۔ ملک کے آئینی ادارے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں، ریزروبینک کو یرغمال بنا لیا گیا ہے اور ملک میں لاقانونیت حاوی ہے۔ چنانچہ انہوں نے استعفیٰ دے کر اب پارٹی کو مستحکم کرنے اور مظلوموں کی طاقت بننے کے لئے دائرہ وسیع کرلیا ہے۔

عروج وزوال ہرذی نفس کا مقدر ہے اور اہل سیاست کی قسمت تو پل پل بدلتی ہے۔ کانگریس کے دور میں بھی کئی مرتبہ عروج و زوال آیا۔ کانگریس تو 134 سالہ پرانی پارٹی ہے۔ 1885 سے لیکر تاحال کانگریس نے نہ جانے کتنے عروج و زوال دیکھے ہیں۔ 1929 میں لاہور اجلاس میں پنڈت جواہر لال نہرو محض 40 سال کی عمر میں کانگریس کے صدر بنا دیئے گئے تھے۔ کانگریس کے قیام سے لیکر 1947 تک 58 مرتبہ کانگریس کے صدر بدلے گئے اور کانگریس میں صدر کا آنا جانا لگا رہا، مگر اب راہل گاندھی کے بعد کانگریس کے زوال کو لے کر جس طرح ہوا دی جارہی ہے، وہ بھی فسطائی سیاست کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ ایک پارٹی ایک راج کا سپنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ راہل کی قیادت میں کانگریس کی ہار ہوئی، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ واجپئی اور اڈوانی کی رہنمائی میں بھی بی جے پی لگاتار چناؤ ہارتی رہی ہے۔ ہار جیت سے کسی پارٹی یا کسی لیڈر کی اہمیت، اہلیت یا قوت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

آج اہم بات تو یہ ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے استعفیٰ میں جو سوالات اٹھائے ہیں، ان سوالوں کا جواب ملک کی بقا، سیکولرزم، جمہوریت، عدل وقانون کے لئے بے حد ضروری ہے۔ راہل گاندھی کا استعفیٰ ایک غیور، باحوصلہ، پر اعتماد راج نیتا کی فکروعمل کا آئینہ ہے، جس میں راہل گاندھی نے بی جے پی کی فکروعمل سے لڑنے کے لئے اپنا دائرہ نہ صرف وسیع کیا ہے، بلکہ دس گنی طاقت سے لڑنے کا عزم بھی کیا ہے۔ انہوں نے پٹنہ میں کہا ہے کہ آج ملک کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ آرایس ایس اور مودی کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو عدالت میں گھسیٹا جاتا ہے، میری لڑائی آئین کو بچانے کے لئے ہے۔ راہل گاندھی کے استعفیٰ کی پرینکا گاندھی نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے اندر جو حوصلہ ہے، وہ چند ہی لوگوں میں ہوتا ہے، یہ حوصلہ ملک کی پرانی تہذیب کو حوصلہ دینے کا بھی سبب بنے گا۔ راہل گاندھی کا حوصلہ ملک کے مظلوم طبقوں، بالخصوص پچھڑوں، دلتوں اور اقلتیوں کے لئے حوصلہ بنے گا، یہ حوصلہ ہندوتو کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوگا۔ راہل گاندھی کا حوصلہ کانگریس مکت بھارت کے سپنے کو چکنا چور کر دے گا، بقول شاعر:

ہم نے یک شام چراغوں سے سجا رکھی ہے
شرط لوگوں نے ہواؤں سے لگا رکھی ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close