Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

‘موتی’ سے منسوب مساجد

دین کے فروغ میں مسجدوں کا سب سے اہم رول ہے۔ مسجدیں کبھی اسلامی سلطنت وسیاست کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ مسجدیں خدا کی عبادیت کرنے کے لئے ہی مخصوس نہیں تھیں بلکہ اشاعت دین کی راہیں بھی انہی مسجدوں سے نکلتی تھیں۔ ملت میں کس طرح اسلامی تشخص برقرار رہے اس کی کامرانی کا جلوہ دنیا میں پھیلتا رہے، مسجدوں نے یہ منظر بھی دیکھا ہے۔ آج کی مسجدیں صرف نمازوں تک محدود ہو گئی ہیں ملت کو نئی سمت دینے اور صحیح راہ دکھانے کی کوشش اب ممبروں سے نہیں ہوتی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان صرف ایک دائرے میں بندھ گیا ہے لیکن قبل کا زمانہ بھی کیا خوب تھا جہاں مسلمان مسجدیں تعمیر کرتے تھے تو وہاں سے علم ودین کی روشنی بھی پھیلاتے تھے۔ مسلمان جہاں جہاں گئے انہوںے مسجدیں بنائیں جو اس ملک کی تہذیب و تاریخ کی چاشنی میں اسلامی طرز و تعمیر کا مرقع ہوتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے دور میں مساجد کی تعمیر میں جو دلچسپی لی گئی وہ اب صرف تاریخ کا حصہ ہے۔ آج کی مسجدیں کسی پروجیکٹ کے تحت نہیں بنتیں۔ اس دور کی مسجدیں قومی خدمت کے منصوبوں کا حصہ تھیں۔ شاہ جہاں کا دور مسجدوں کی تعمیر کا شاہ کار دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں لوگ مسجد کو سب سے قیمتی چیز سے منسوب کرتے تھے۔ موتی مسجد ،انسان کو قدرت کا عظیم عطیہ ہے۔ اس نام سے منسوب کئی مسجدوں میں اپنے دور کی مشہور مسجدیں کہلاتی ہیں۔ موتی مسجد کی تعمیر کے بعد اس کی خوبصورتی سے لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ اس کے طرز تعمیر پر دنیا کے بیشتر حصوں میں مسجدیں قائم ہوئیں۔ موتی مسجد کے نام پر ہندوستان، پاکستان میں کئی مسجدیں بنائی گئیں۔ یہ وہ مسجدیں ہیں جن کی طرز وتعمیر اور خوب صورتی پر دنیا کے بڑے بڑے آرکیٹیکٹ حیران رہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون ہند ۔پاک میں موجود موتی مسجد کے نام سے منسوب کئی مسجدوں کے ذکر کا احاطہ کرتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ اگر جذبہ ایمانی میں اخلاص حوصلہ ہو تو اللہ کا گھر بھی حسین تر ہو جاتا ہے، بلکہ آرکیٹیکٹ کی دنیا میں بھی اپنی الگ شناخت پیش کرتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان میں ایسی بہت سی مسجدیں ہیں جن کو موتی مسجد کہا جاتاہے۔ پاکستان کے لاہورمیں مغل دور کی موتی مسجد ایک معروف ترین مسجد ہے، یہ مسجد مغرب کی جانب لاہور قلعہ کے صدر دروازہ کے نزدیک واقع ہے۔یہ لاہور قلعہ کی دیگر شاندار عمارتوں جیسے کہ شیش محل اور نولکھا پولیئن کے بہت نزدیک ہے۔ انگریزی کے لفظ Pearl کا مطلب موتی ہوتا ہے۔ مغلوں کے دوراقتدار میں یہ روایت رہی تھی کہ مسجدوں کے نام عمومی طورپر قیمتی جواہرات سے منسوب کئے جاتے تھے۔ اسی طرح کی دیگر مثالیں مینامسجد اورنگینہ مسجد کی ہیں جوکہ آگرہ کے قلعہ میں واقع ہیں۔ یہ مسجد شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دوراقتدار میں تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس کا ثبوت فارسی زبان کے اس کتبہ سے ملتا ہے جو کہ محراب داردروازہ پرکنندہے، جہاں سے باہری صحن کیلئے راستہ جاتاہے۔

12 ویںسال کی عالیشان حکمرانی کے ظل الٰہی، سلیمان کی مانند پروقار، تیموری طمطراق، جنگ میدان میں سکندر کی مانند فاتح اورعقیدہ کے محافظ سہنشاہ نورالدین جہانگیر مرتدین کے فاتح جلا ل الدین محمد اکبر کے فرزند ارجمند کی یہ عمارت ان کے ایک وفادار اورجانثار شاہی خادم معمورخان نے 1007 ہجری (1599) مکمل کرائی تھی۔ شاہی حرم کے افراد اس مسجد میں نماز اداکیاکرتے تھے۔ اس مسجد میں نمازیوں کیلئے جگہ کا رقبہ شمال سے جنوب کی جانب 50فٹ اورمشرق سے مغرب کی جانب 33 فٹ ہے۔ یہ مسجد سادگی اورپاکیزگی کے ساتھ ساتھ شاہی شان وشوکت کی علامت ہے، اس مسجد کاسامنے والا حصہ چھوٹے ستونوں کی سپورٹ سے ابھری ہوئی محرابوں سے آراستہ کیاگیاہے۔اس کے ساتھ ہی اس مسجد میں ابھر ے ہوئے تین شاندار گنبد،پانچ گزرگاہوں والے دوحصے اورمعمولی طورپر اٹھا ہوا ایک مستطیل دروازہ ہے۔ چھت کوچھوڑ کر مسجد کا اندرونی حصہ نہایت سادہ ہے۔ اس کی چھت کی تزئین کاری چارمختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ جن میں سے2 تزئین کاری خم دار ہیں اور2کڑیوں کے طرز پر ہیں۔ اس مسجد کا فرش موتی کی چمک سے مشابہت رکھتا ہے۔

18 ویں صدی میں جب مغل سلطنت زوال پذیرہوئی توغیرملکی حملہ آوروں جیسے نادرشاہ اور احمدشاہ ابدالی جلد جلد پنجاب پرحملہ کرنے لگے تھے اورانہوںنے مقامی حکومت کوپشت کردیا تھا۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں سکھ اقتدار پرقابض ہوگئے تھے۔ سکھوں کے دوراقتدار(1716-1799 ) میں اس مسجد کو گردوارہ میں تبدیل کردیا گیا تھا اور محرابوں سے قیمتی جواہرات نکال لئے گئے تھے۔اس کے بعد جب اقتدار مہاراجہ رنجیت سنگھ (1799-1889)کے ہاتھوں میں آیا تواس کو سرکاری خزانہ کی عمارت کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ جب 1848 میں انگریزوں نے پنجاب پرقبضہ کرلیا توانہوںنے دیکھا کہ پوری مسجد میں ہیرے جواہرات اوردیگر قیمتی پتھر نہ صرف مسجد میں بکھرے ہوئے تھے بلکہ ان میں سے جواہرات کے ٹکڑے ریشمی تھیلیوں میں بھی بھرے ہوئے تھے۔ انگریزوں نے بھی سرکاری خزانہ کی عمارت کے طورپر اس مسجد کااستعمال کیاتھا۔ کچھ دنوں کے بعد انگریزوں نے اس کی بازیابی کردی تھی اوراس عمارت کودوبارہ مسجد ہونے کاشرف حاصل ہوگیا تھا۔

اس سے متعلق ترقیاتی پروجیکٹوں کے سنگ بنیاد بھی رکھتے گئے تھے۔ مرحوم شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود نے مانسہرہ شہر میں اس کے ترقیاتی منصوبہ کاآغاز کیاتھا۔ خادم حرمین شریفین شافہد بن عبدالعزیز السعود نے پاکستان کے مظفرآباد میں اس منصوبہ کاجون 2009 میں سنگ بنیاد رکھاتھا۔اسلام آباد میں سعودی سفارت خانہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں کئی سعودی عرب کے حکام اورپاکستانی افسروں نے شرکت کی تھی۔

ہندوستان کے معروف شہر آگرہ میں بھی ایک موتی مسجد ہے جوکہ مغل شہنشاہ اور عمارتیں تعمیر کرانے کے شوقین شاہجہاں نے اپنی حکمرانی کے دور(1648-1540) میںتعمیر کرائی تھی۔ مغل شہنشاہ شاہجہاںنے بہت سی شاندار عمارتیں تعمیر کرائی تھیں جنہیں دیکھ کرآج بھی ہماری آنکھیں ایک مسرت آمیزراحت کااحساس کرتی ہیں۔

موتی مسجد ایک ایسی جگہ پرواقع ہے، جس کی اراضی مشرق سے مغرب کی جانب ڈھلوا ہے، اس کے شمال میں دیوان عام ہے۔ یہ مسجد اسلئے بھی اپنی آب وتاب کیلئے معروف ہے کیونکہ اس کا اندرونی حصہ چمک دار موتی کی مانند سفید ماربل سے آراستہ ہے۔ایساخیال کیاجاتاہے کہ شاہجہاں نے یہ مسجد اپنے شاہی دربار کے ممبران کیلئے تعمیر کرائی تھی۔

ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس مسجد کا باہری حصہ اینٹوں سے تعمیر کرایاگیاتھا جب یہ عالیشان مسجد تعمیر کرائی گئی تھی، اس وقت ا سکی تعمیر پرتقریباً 3,00000 روپے خرچ ہوئے تھے۔ قابل ذکر ایک بات یہ بھی ہے ہے کہ اس مسجد کے صحن کافرش بھی ماربل پتھر سے آراستہ کیاگیاہے اور صحن کے درمیان میں ہی ماربل پتھر کاایک حوض ہے۔ اس مسجد کے ایک کونے میں ماربل کاایک ہشت پہلو ستون ہے، جس کے اوپر ایک دھوپ گھڑی بنائی گئی تھی۔ صحن کے اطراف میں شمال، مشرق اورجنوب کی جانب محراب دار ہجرے ہیں، جن میں 12 ستون اورابھری ہوئی قدرے نوکیلی محرابیں ہیں۔مغرب کی جانب نماز اداکرنے کاچیمبر ہے۔ اس مسجد کا صدر دروازہ مشرق کی جانب ہے اس لئے یہ جنوب اورشمالی دروازوں کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ بڑا اورخوبصورت ہے بلکہ وہ محرابوں اورتین مربع چھتریوں سے آراستہ ہے۔ صدر دروازوں تک 2 سیڑھیوں کے توسط سے رسائی ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک کاباہری حصہ لال پتھر کاہے جبکہ اندرونی حصہ ماربل کا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت خانہ کے آرکیڈ میں سات محرابیں ہیں 21 گلیاروں میں سے صرف سات میں گنبد دارچھتیں ہیں۔
اس مسجد کی مغربی دیواروں میں دلکش نقاشی کرکے نہ صرف محراب بنائی گئی ہیں بلکہ محرابوں کی مطابقت سے چھ طاق بھی بنائے گئے ہیں۔عام طورپر منبر کی تین سیڑھیاں بنائی جاتی ہیں لیکن یہاں پر منبر کی چار سیڑھیاں تعمیر کرائی گئی ہیں، جن کوماربل کے آرائشی جالی دار پردے سے مرکزی عبادت خانہ سے الگ کردیاگیاہے۔ یہاں پرتین ابھرے ہوئے گنبدوں نے اس چیمبر کی خوبصورتی کودوبالا کردیاہے۔ منڈیرکے اوپر سات مربع دار چتھریا نصب کی گئی ہیں جن کی وجہ سے وہاں سایہ رہتاہے۔ اس مسجد کے ہرکونے میں ماربل کے گنبد کے ساتھ ہشت پہلو ٹاور بھی ہیں۔ آگرہ میں بہت سے قابل ذکر مقامات ہیں لیکن موتی مسجد کوایک خصوصی اورانفرادی حیثیت حاصل ہے۔

ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کی شہر بھوپال میں واقع موتی مسجد بھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے جسے قدسیہ بیگم کی دختر اوربیگم آف بھوپال سکندرجہاں بیگم نے 1860 میں تعمیرکرائی تھی۔ سکندر بیگم نے صرف ایک جوشیلی اصلاح کارتھیں بلکہ وہ جدید نظریات کی حامل بھی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف غلامی کے نظام کاخاتمہ کیاتھابلکہ سڑکیں، پل اور موتی مسجد جیسی گایک خوبصورت عمارت کی تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد کاسامنے والا حصہ سفید ماربل سے تیارکیاگیا ہے اور اس پرچھوٹے چھوٹے 2 گنبد تعمیر کرائے گئے ہیں۔ اس مسجد کے دونوں اطراف میں دوبڑی کالی میناریں ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہیکہ انہوںنے فریضئہ حج اداکیاتھا اورا سکی رپورٹ اردومیں تحریر کی تھی جس سے ہمیں اس بات کی جانکاری ملتی ہے کہ وہ 1863 کے آخرمیں فریضئہ حج اداکرنے کیلئے بحری راستہ سے عرب کیئے روانہ ہوئی تھیں اورتحائف سے بھرے ہوئے بحری جہاز سے 23 جنوری 1864 میں جدہ پہنچی تھیں۔

جس وقت وہ حج کے سفرپر روانہ ہوئی تھیں اس وقت وہ 900 مربع میں رقبہ والی ریاست پر حکمرانی کرری تھیں جس کی آبادی ایک ملین تھی جوکہ اس وقت اینگلو انڈین ریاستوں میں سے دوسری سب سے بڑی ریاست تھی جس وقت وہ حج کیلئے روانہ ہوئی تھیں اس وقت ان کی والدہ نواب قدسیہ بیگم، چچانواب میاں فوجدار،محمدخان اوربھوپال کی سیاسی ایجنسی کے سرجن چارلس تھامسن جنہیں جدہ تک بیگم کے ساتھ رہنے کیلئے حکومت ہند نے مامور کیاتھا۔ا ن کے ساتھ تھے۔

ان کی رپورٹ حجاز میں عازمین کے روٹ،ان کی تعداد، عمومی حالات وغیرہ پرروشنی ڈالتی ہے۔انہوںنے انی رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ عازمین کوکوئی کنٹرول کرتاہے اور دوران سفر انہیں کن خطرات کاسامنا کرناپڑتاہے انہوںنے اپنی رپورٹ میں مکہ کے صاحب ثروت اور وہاں پرشادی کے موقع پرجن رواجوپرعمل کیاجاتا تھا ان کے بارے میں بھی ذکر کیاہے۔

آگر ہ کے قلعہ میں بیٹھنے پرجہاں سے جمناندی کاپس منظر دکھائی دیتا ہے پوری دنیاد سے آنے والے سیاحوں کواس مسجد کوضرور دیکھنا چاہئے۔مقامی لوگوں کیلئے بھی یہ قابل دید منظر نامہ پیش کرتی ہے۔اس مسجد کے چمک درا گنبد سفید ماربل سے تیارکئے گئے ہیں، جن سے مخملی نظارہ کااحساس ہوتاہے اورآنکھوں کوراحت ملتی ہے۔ لال پتھروں سے تعمیر کی گئی اس مسجدو کی دیواریوںپر ماربل کے تین گنبد بھی بنے ہوئے ہیں ۔اس مسجد کے شاندار متوازی ڈیزائن کودیکھ کرلوگ اس کی ساخت سے محو حیرت رہ جاتے ہیں۔دہلی کے لال قلعہ میں واقع موتی مسجد ورلڈ ہیری ٹیج سائٹ کے زمرہ میں شامل ہے ۔یہ چھوٹی سی مسجد مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے نماز اداکرنے کیلئے اپنے واسطے تعمیر کرائی تھی۔مسجد کے عباد خانہ میں مصلے کی نشان دہی کالے ماربل کی پٹیوں سے کردی گئی ہے اورنماز پڑھنے کی جگہ اس مسجد کے صحن سے نسبتاً اونچی ہے۔ اس مسجد کے باہر ابھاردارتین گنبد ہیں بنیادی طورپر جن پر تانبے کی پرت چڑھائی گئی تھی جوکہ گنبد کے نچلے حصہ تک چڑھی ہوئی ہے ۔اس مسجد میں حرم کی بیگمات بھی نماز اداکیا کرتی تھیں۔

ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کی شہر بھوپال میں واقع موتی مسجد بھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے، جسے قدسیہ بیگم کی دختر اوربیگم آف بھوپال سکندرجہاں بیگم نے 1860 میں تعمیرکرائی تھی۔ سکندر بیگم نہ صرف ایک جوشیلی اصلاح کارتھیں بلکہ وہ جدید نظریات کی حامل بھی تھیں۔انہوںنے نہ صرف غلامی کے نظام کاخاتمہ کیاتھابلکہ سڑکیں ،پل اور موتی مسجد جیسی ایک خوبصورت عمارت کی تعمیر کرائی تھی۔اس مسجد کاسامنے والا حصہ سفید ماربل سے تیارکیاگیا ہے اور اس پرچھوٹے چھوٹے 2 گنبد تعمیر کرائے گئے ہیں۔ اس مسجد کے دونوں اطراف میں دوبڑی کالی میناریں ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے فریضئہ حج اداکیاتھا اورا سکی رپورٹ اردومیں تحریر کی تھی، جس سے ہمیں اس بات کی جانکاری ملتی ہے کہ وہ 1863 کے آخرمیں فریضئہ حج اداکرنے کیلئے بحری راستہ سے عرب کیلئے روانہ ہوئی تھیں اورتحائف سے بھرے ہوئے بحری جہاز سے 23 جنوری 1864 میں جدہ پہنچی تھیں۔

جس وقت وہ حج کے سفرپر روانہ ہوئی تھیں اس وقت وہ 900 مربع ملی رقبہ والی ریاست پر حکمرانی کرری تھیں، جس کی آبادی ایک ملین تھی جوکہ اس وقت اینگلو انڈین ریاستوں میں سے دوسری سب سے بڑی ریاست تھی ۔جس وقت وہ حج کیلئے روانہ ہوئی تھیں اس وقت ان کی والدہ نواب قدسیہ بیگم ،چچانواب میاں فوجدارمحمدخان اوربھوپال کی سیاسی ایجنسی کے سرجن چارلس تھامسن جنہیں جدہ تک بیگم کے ساتھ رہنے کیلئے حکومت ہند نے مامور کیاتھا،ا ن کے ساتھ تھے۔

ان کی رپورٹ حجاز میں عازمین کے روٹ،ان کی تعداد، عمومی حالات وغیرہ پرروشنی ڈالتی ہے۔انہوںنے اپنی رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ عازمین کوکون کنٹرول کرتاہے اور دوران سفر انہیں کن خطرات کاسامنا کرناپڑتاہے۔ انہوںنے اپنی رپورٹ میں مکہ کے صاحب ثروت اور وہاں پرشادی کے موقع پرجن رواجوںپرعمل کیاجاتاتھا ان کے بارے میں بھی ذکر کیاہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close