Khabar Mantra
بہار- جھارکھنڈ

کھاد کی قلت سے کسانوں کے چہروں پر مایوسی

(پی این این )

رکسول:ان دنوں اگرچہ ہند ونیپال سرحدی تنازع کو لے کر آمنے سامنے ہیں اور ان دونوں کے بیچ کئی مسائل کو لے کر تناو کی صورت حال بنی ہوئی ہے مگر ہند نیپال کی سرحد پر واقع آداپور سے جڑا پورا سرحدی خطہ جرائم پیشہ لوگوں کے لئے اپنے شوق کی تکمیل کا مرکز بن گیا ہے۔

اطلاع کے مطابق آداپور کے قرب وجوار سے جو راستے نیپال کی سرحد میں داخل ہوتے ہیں ان کے ذریعہ سائیکل موٹر سائیکل اور کرایہ کے مزدوروں کے سہارے گانجہ شراب اور افیم سے لے کر بکری خصّی،کالی مرچ، پان مسالہ، کھانے پینے کے سامان، دوائیاں، معصوم بچے اور جوان لڑکیوں کے بعد اس وقت کھاد کی اسمگلنگ کا کھیل بڑے پیمانے پر جاری ہے اور جرائم پیشہ لوگوں کی ٹیم موٹی کمائی سے جیب بھرنے کے لئے اس پورے معاملے کو رات کی تاریکی میں بڑی چالاکی سے انجام دینے میں مصروف ہے،کہنے کو تو سرحدی علاقوں پر سخت چوکسی برتی جاتی ہے اور حفاظتی دستے اسمگلروں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے ہمیشہ تعینات رہتے ہیں لیکن یہ جان کر بھی آپ کو حیرت ہوگی کہ اسمگلنگ کا یہ منصوبہ بند کھیل مقامی انتظامیہ کی آنکھ کے نیچے اس ڈھٹائی سے کھیلا جارہا ہے کہ گویا ان کے اندر خوف نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو اور یہ سچ بھی ہے کیونکہ رپورٹ کے مطابق اس گھناونے کھیل کی بندر بانٹ میں کھاد ڈیلروں اور دکانداروں کے علاوہ انتظامیہ کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے جس نے اسمگلروں کو بے خوف بنایا ہوا ہے اور وہ کسی مزاحمت کے خوف سے بے نیاز کھاد کی بوریاں نیپال تک پہونچانے میں لگے ہوئے ہیں۔

 ادھر اس صورت حال کی وجہ سے پورے علاقے کے کسانوں میں ہاہا کار مچا ہوا ہے کیونکہ انہیں مناسب قیمت پر کھاد نہ مل پانے کے سبب فصل کے خراب ہونے کا خطرہ ہے،خبر یہ بھی ہے کہ دکاندار مقامی لوگوں کے ہاتھوں طے شدہ قیمت سے زیادہ ریٹ لگا کر کھاد بیچنے کے عادی ہو چکے ہیں اس کے باوجود انہیں ضرورت کے مطابق کھاد فرخت کرنے کے لئے بہانہ بازی کی جاتی ہے تاکہ کھاد کی اسمگلنگ کرکے راتوں رات لاکھوں روپے کما سکیں۔

اب ایسی صورت حال میں کسان کیسے اپنی فصل اگانے میں کیمیاب ہوں گے یہ تو سوال ہے ہی لیکن اسی کے ساتھ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ آخر سرحدی علاقے بنیادی مسائل میں ہمیشہ کیوں گھرے رہتے ہیں ۔

کہ یہاں کی نئی نسل کو اپنی خوشحال زندگی کی تلاش کے لئے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے آخر حکومت ان علاقوں میں آباد لوگوں کی بنیادی ضروریات کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتی تاکہ بہار کو جرائم سے پاک کرنے کی راہ آسان ہو سکے کہنے کو تو آج سے برسوں پہلے خوشحال بہار،بدعنوانی کے خاتمہ،جرائم،رشوت خوری،چور بازاری کی روک تھام کے نام پر جے ڈی یو نے حکومت کا باگ ڈور سنبھالا تھا اور اس موقع پر غریبوں کو روزگار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو سرکاری نوکری کے علاوہ بڑے بڑے سپنے دکھائے گئے تھے مگر ان سب کے باوجود سرحدی خطے میں جرائم کے دائرے جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور راتوں رات دولتمند بننے کی خواہش میں نوجوانوں پر اسمگلنگ کا جو بھیانک بھوت سوار ہے اس نے پورے علاقے کے ماحول کو بھیانک بنادیا ہے،اب سوال یہ ہے کہ کیا اسمگلنگ کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا یا مقامی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لئے آگے آئے گی،ظاہر ہے کہ اس سوال کا مقامی انتظامیہ کے پاس سردست کوئی جواب نہیں ہے لیکن دھیرے دھیرے یہاں جس طرح کی تصویر بنتی جارہی ہے اگر اس کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور بندر بانٹ کے چکر میں سماج کی نوجوان نسل کو اس کالے دھندے سے دور رکھنے کی ایماندارانہ فکر اختیار نہ کی گئی تو دیکھتے دیکھتے سرحدی علاقہ اسمگلروں کی نئی دنیا بن جائے گا جس کی وجہ سے نہ صرف علاقے میں غیر یقینی حالات کی دستک شروع ہوگی بلکہ کھاد کی قلت سے سرحدی کسان بھی کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوں گے۔

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close