Khabar Mantra
محاسبہ

بات نکلے گی تو دُور تلک جائے گی….

محاسبہ...........................سید فیصل علی

’می ٹو‘ مہم ایک طوفان بن کر دنیا کے 85 ملکوں کو اپنی زد میں لے چکی ہے۔ اس طوفان نے بڑے بڑے سیاست دانوں، قلم کاروں، فلمی اداکاروں، نامی گرامی مصوروں و فنکاروں کے ظرف و کردار کے پرخچے اڑانے شروع کر دیئے ہیں۔ ’می ٹو‘ مہم کا طوفان اب ہندوستان میں بھی در آیا ہے۔ فیس بُک ہو یا ٹوئٹر، اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن، سب پر وہ مظلوم عورتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں، جن کاماضی میں استحصال ہوا ہے۔ یہ مظلوم عورتیں بڑی بے باکی سے ماضی کے قصے بیان کر رہی ہیں۔ بڑی جرأت کے ساتھ اپنے جنسی استحصال کو عیاں کر رہی ہیں اور سر بازار ان بڑے ناموں کو رسوا کر رہی ہیں اور ان کی پول کھول رہی ہیں، جو اپنے اپنے میدان کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں۔ رسوائی کا طوق نانا پاٹیکر، آلوک ناتھ، کیلاش کھیر، وکاس بہل، رجت کپور، زلفی سید، گلوکار ابھجیت بھٹا چاریہ، تمل رائٹر ویرو متھائی سے لے کر مودی حکومت کے وزیر اور صحافت کے بادشاہ ایم جے اکبر تک کے گلے میں پڑ چکا ہے۔ می ٹو کی مہم سے فلمی دنیا سے لے کر ذرائع ابلاغ اورایوان سیاست سب ہل رہے ہیں۔ اب ہر سمت یہی انتظار ہے کہ طوق رسوائی اب کس بڑی شخصیت کے گلے میں پڑنے والا ہے؟ اب تو کارپوریٹ سیکٹر میں بھی ایک ہلچل مچی ہوئی ہے کہ ’می ٹو‘ مہم کی آنچ ان تک نہ پہنچ جائے۔ کوئی مظلوم عورت ’می ٹو‘ مہم کا حصہ نہ بن جائے۔ تادم تحریرایک خاتون صحافی نے بی سی سی آئی کے سی ای او راہل جوہری پر جنسی ہراسانی کا سنگین الزام لگایاہے، اس الزام کے بعد کرکٹ جگت میں بھی ہلچل ہے، ارجن راناتنگا اور لست ملنگا کے بعد راہل جوہری کا واقعہ سامنے آیا ہے، انگریزی، ہندی صحافت کی خاتون کارکنان نے اپنی آ ٓواز تو بلند کر دی ہے۔ اب یہ بھی خد شہ ہے کہ کہیں اردو صحافت کے ایوان میں بھی کوئی آواز نسواں نہ گونج اٹھے، اردو کے کسی مدیرپرانگلی نہ اٹھ جائے۔

میں، ’می ٹو‘ کو پول کھول مہم سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس مہم کا آغاز ہندوستان میں اداکارا تنو شری دتا نے کیا، جس سے تحریک پاکر اداکارہ ٹسکاشکلا، ملکہ ریما، رچا چڈا، اداکارہ سندھیا مردل، خاتون ادیبہ ونیتا نندا نے جس طرح ماضی میں ہوئے اپنے جنسی استحصال کا درد بیان کیا ہے، اسے سن کر سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ مردوں کی اجارہ داری والے سماج میں عورت کی بے بسی اور مظلومیت دل کو ایک ٹیس پہنچاتی ہے اور سوال بھی کرتی ہے کہ ایک انتہائی مہذب معاشرے کا مہذب ترین انسان کے اندر کا انسان اتنا غلیظ بھی ہو سکتا ہے، جو مجبوری کا فائدہ اٹھا کر جنسی استحصال کرتا ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مہم کی مخالفت کی جائے یا حمایت کی جائے ، کیونکہ فلم نگری ہو یا ذرائع ابلاغ کی بستی، یہاں کے لوگ اتنے تو مہذب ہوتے ہی ہوں گے کہ زور زبردستی پر نہیں اترتے ہوں گے، لیکن ضرورت کیا نہیں کراتی ہے، مجبوری اور حالات کے پیش نظر خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور وہ چپ رہ جاتی ہیں، لیکن دیر سے ہی صحیح، جب اس کے اندر کی عورت جاگتی ہے، صدائے احتجاج بلندکرتی ہے تو وہ آواز مردوں کے گلے میں رسوائی کا طوق ضرور ڈال دیتی ہے۔ دیر سے ہی سہی ’می ٹو‘ کے تحت مظلوم خواتین کا احتجاج قابل ستائش ہے۔

ہندوستان میں ’می ٹو‘ کی مہم تتلی طوفان بن کر یہاں کے مہذب معاشرے کی غلاظت کو عیاں کرتا جا رہا ہے۔ ہر سمت خواتین کی مظلومیت اور ان مردوں کی خباثت کے چرچے ہیں، جہاں ہر شخص اپنی دنیا میں ایک اہمیت رکھتا ہے۔ ’می ٹو‘ مہم کی زد پر درجنوں سلیبریٹیز ہیں اور جانے کتنے مزید آنے والے ہیں، لیکن جس طرح قلم کے بادشاہ اور مرکزی وزیر ایم جے اکبر کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ افسوس ناک بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ ایم جے اکبر ایک عام صحافی کے لئے آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی صحافتی خدمات ملک و بیرون ملک کی میڈیا کے لئے ایک مشعل راہ ہے، لیکن اس قد آور شخصیت پر پریا رمانی، شوما راہا، غزالہ وہاب، کنیکا گہلوت، سپرنا سین، پریرنا سنگھ، بندرا شہ پال سے لے کر صبا نقوی تک نو خاتون صحافیوں نے جنسی ہراسانی کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، اس سے آئیڈیلزم کا بت پاش پاش ہو جاتا ہے۔ صبا نقوی اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ وہ جس ایڈیٹرکی جنسی استحصال کا شکار ہوئیں، اس کا نام ایک مغل بادشاہ کے نام پر ہے۔

مجھے ان قلم کار خواتین اور می ٹو مہم سے جڑنے والی عورتوں کی ہمت پر رشک آتا ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں، جنہیں بیس سال تک اپنے درد کو نہاں رکھنے میں کتنے کرب سے گزرنا پڑا ہو گا اور آج بھی جب یہ زبا ن کھول رہی ہیں تو اپنے بچوں، خاندان والوں کے غصہ کا بھی شکار ہو نا پڑ رہا ہوگا۔ ستم تو یہ ہے کہ اپنے قلم سے لوگوں کی بولتی بند کرنے والے ایم جے اکبر اب بالکل چپ ہیں، حالانکہ ان کی خاموشی پر مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، مینکا گاندھی، ریتا بہو گنا جیسی بی جے پی کی وزیر بھی تنقید کر رہی ہیں۔ مرکزی وزیراٹھائو لے نے ایم جے اکبر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے کہا ہے کہ اب ہر کوئی خواتین کے ساتھ احترام سے پیش آنا سیکھ لے۔ بے شک می ٹو مہم نے مردوں کی بے جا بالا دستی کے خلاف ایک ماحول ضرور استوار کر دیا ہے۔ اپوزیشن کے سخت تیور اور اپنی ہی پارٹی کے وزراء کے دباؤ کا نتیجہ ہے کہ حکومت بھی ‘می ٹو’ مہم معاملہ میں سنجیدہ ہے۔ خواتین کے الزامات کی جانچ کے لئے کمیٹی تشکیل کئے جانے کی بات ہو رہی ہے، لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا جانچ کمیٹی بن جانے سے مظلوم خواتین کو انصاف مل پائے گا۔

میں مانتا ہوں کی ایک مہذب انسان کے کردار و ظرف کا آئینہ شفاف ہونا چاہیے، لیکن گلیمر کی دنیا میں کام کرنے والے لوگ ہوں، اقتدار وسیاست کے مکین ہوں، یہ لوگ معمولی نہیں ہوتے ہیں، اس دنیا میں منزل پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے، مجبوریاں جانے کیسے کیسے سودے کراتی ہیں اور بعد میں جب معاملات بگڑ جاتے ہیں، تو یہ مجبوری جرم بن جاتی ہے۔ یا پھر ایک ٹیس بن کر برسوں تکلیف پہنچاتی رہتی ہے۔ جن خواتین نے اپنے جنسی استحصال کا جو درد رقم کیا ہے، وہ ان کے ضمیر اور دل کی آواز ہے۔ حالانکہ استحصال کی شکار خواتین نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جانچ کے دوران ماضی کے قصوں کی اکھاڑ پکھاڑ کی چنگاری ان کے دامن کو بھی جھلسا سکتی ہے، لیکن وہ جرأت کے ساتھ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو اس مرد کی اجارا داری والے سماج کو آئینہ دکھا رہی ہیں، میں اس جرأت کو سلام کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ان با حوصلہ خواتین کو ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے انصاف ملنے میں دشواری پیش آسکتی ہے، لیکن انہوں نے جو شروعات کی ہے، اس سے ان بے بس خواتین کو بھی تقویت ملے گی، جو حالات سے سمجھوتہ کرکے چپ رہ جاتی ہیں اور اس معاشرہ کو بھی جھٹکا لگے گا، جو حالات اور مجبوری کے جال میں ایک کمزور عورت کا شکار کرتے ہیں۔ ‘می ٹو’ مہم نے جو طوفان کھڑے کئے ہیں، وہ نہ جانے کتنے کے چہروں سے نقاب ہٹا دے گی، اب ہر کوئی اسی کا منتظر ہے، کیونکہ بقول کفیل آزر:
بات نکلے گی تو دُور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close