Khabar Mantra
محاسبہ

مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

محاسبہ...........................سید فیصل علی

جب ملک میں یوم آزادی کی تقریبات کے شادیانے بج رہے تھے، لال قلعہ کی فصیلوں کو سجایا سنوارا جا رہا تھا، ہر سمت 73 ویں جشن آزادی کی دھوم دھام تھی، اس سے ایک دن قبل 14 اگست کو پہلوخان ماب لنچنگ معاملے میں جو عدالتی فیصلہ آیا، وہ اتنا حیران کن اور چونکانے والا ہے کہ ہر ذی شعور ششدر ہے اور ہر انصاف پسند کی آنکھوں میں آنسو ہیں کہ دن دہاڑے پہلوخان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے قاتل عدل وقانون کے شکنجے سے آزاد کیسے ہو گئے؟ الور میں گؤرکشکوں کے ذریعہ سرعام پہلوخان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کئے جانے کا دلسوز ویڈیو دنیا نے دیکھا تھا اور آج بھی انسانیت کو شرمسار کرنے والا وہ ویڈیو کسی نہ کسی سائٹ پر موجود ہے، مگر اس زندہ ثبوت کے باوجود پہلوخان کے قاتل عدالت سے باعزت کیسے بری ہو گئے؟ عدل وقانون وانتظامیہ کے اس دہرے رول پر دنیا حیران ہے۔

پہلوخان ماب لنچنگ معاملے میں مبینہ 6 ملزمین کو راجستھان کی نچلی عدالت نے شک کا فائدہ (Doubt of benifit) دیتے ہوئے بری کر دیا۔ عدالت نے ماب لنچنگ ویڈیو بھی ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ عینی شاہدین کے موبائل کے ذریعہ لنچنگ کے وقت قاتلوں کی وحشیانہ گفتگو کی ریکارڈنگ کو بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا گیا، حتیٰ کے مرنے سے قبل اسپتال میں دیئے گئے بیان میں پہلوخان نے 6 لوگوں کے نام لئے تھے، وہ بھی تسلیم نہیں کئے گئے اور قاتل آزاد ہو گئے۔ پہلو خان ماب لنچنگ معاملے کو قانون کے محافظوں سے لے کر عدلیہ کی دہلیز تک جس طرح کمزور کیا گیا، اس میں قانونی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں، اس کے کردار وعمل پر نہ صرف ماہرین قانون وانصاف حیران ہیں، بلکہ اب ہر سیکولر ذہن کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ عوام انگریزوں کے تسلط سے آزاد ضرور ہو گئے ہیں، مگر ملک آج بھی فکری غلامی کا شکار ہے۔ 72 برسوں کی آزادی کے بعد بھی ملک آزاد نہیں ہے۔ کل ہندوستان پر سامراجی قوت کا تسلط تھا اور آج ایک خاص ذہنیت کی حکمرانی ہے، جس کا خوف و دبدبہ ہر شئے پر طاری ہے، جس کے اشارے کی تعمیل اور خوشنودی کا حصول آج کے ہندوستان کا المناک منظرنامہ ہے۔ پہلوخان کے قاتلوں کا بری ہو جانا بلاشبہ جانچ کا موضوع ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بریت ہر ذی شعور کو بھی تشویش میں مبتلا کر رہی ہے کہ کیا تمام سرکاری وآئینی ادارے حتیٰ کے عدالتیں بھی قابل اعتماد نہیں رہیں؟ پہلو خان قتل معاملے میں آئے فیصلے نے عوام کے اعتماد اور جمہوری افکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

55 سالہ پہلو خان ہریانہ کے نوح کے رہنے والے تھے اور ڈیری فارمنگ کا کاروبار کرتے تھے۔ 31 مارچ 2017 کو وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اپنی لاری میں گائے خریدنے جے پور گئے تھے، یکم اپریل کو جب وہ لوٹ رہے تھے تو الور کے پاس انہیں گؤرکشکوں نے روک لیا اور پھر پہلوخان پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیئے گئے۔ اس ماب لنچنگ میں ان کا ایک بیٹا بھی شدید طور پر زخمی ہوا تھا اور دوسرا بمشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا۔ ڈھائی منٹ کے اس واقعہ کی ویڈیو گرافی میں کروڑوں افراد نے پہلوخان کو تڑپتے ہوئے دیکھا، قاتلوں کو دیکھا اور ان کے زہریلے نعروں کو سنا، ان تمام زندہ ثبوتوں کے تناظر میں سبھی کو یقین کامل تھا کہ پہلو خان کے قاتلوں کو سزائے موت ہوگی یا کم از کم عمر قید کا فیصلہ تو ضرور آئے گا اور یہ فیصلہ ماب لنچنگ کے پیروکاروں کے لئے درس عبرت ہوگا۔ گائے کے نام پر قتل وغارت گری کے سلسلے میں کمی آئے گی، مگر پہلوخان کے معاملے میں آئے فیصلے نے انصاف پسندوں کی آنکھوں میں شدید مایوسی ڈال دی اور ماب لنچنگ کرنے والوں کی رگوں میں حوصلے کی مزید لہر دوڑا دی۔

اس میں دورائے نہیں ہے کہ آج کا دور ایک خاص زہریلی فکر کے نرغے میں ہے۔ پولیس، انتظامیہ، سرکاری عملہ ہرسمت نفرت وتعصب کی آلودگی کا غلبہ ہے، اس کے تناظر میں اب تو دادری کے اخلاق، جھارکھنڈ کے تبریز اور کرناٹک کے گلبرگی اور گوری لنکیش وغیرہ وغیرہ کے قتل معاملات میں بھی انصاف پسندوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ پہلو خان معاملے میں تو پولیس انتظامیہ کا کردار ہر سطح پر دوہرا رہا ہے۔ اول تو ماب لنچنگ کے کئی دنوں کے بعد ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے یہ معاملہ درج کیا۔ ہر سطح پر قاتلوں کی راہیں ہموار کی گئیں اور انہیں تحفظ دیا گیا، جبکہ اس کے برعکس پہلوخان اور اس کے بیٹوں کو ہی مویشی اسمگلر قرار دے کر ملزم بنا دیا گیا، ان پر ’بووائن انیمل ایکٹ 1995‘ کے تحت مقدمہ قائم کر دیا گیا اور اب اس معاملے میں چارج شیٹ بھی داخل کر دی گئی ہے، ممکن ہے کہ پہلوخان قتل معاملے میں انصاف کے طلبگار ان کے بیٹے ارشاد اور عارف زیر تعزیر بھی ہو جائیں۔ راجستھان پولیس کی یہ سیاہ کاری جانچ کاموضوع ہے۔

بہرحال تمام تر نامساعد ماحول کے باوجود اب پہلوخان کے اہل خانہ کی نظریں عدالت کی سمت ہیں اور سپریم کورٹ آج بھی آئین، جمہوریت اور سیکولرزم کے محافظ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پہلوخان کی بیوہ زیب النساء کا کہنا ہے کہ اب میں اپنے بچوں کی تعلیم کی راہیں بند کرکے قانون کی لڑائی لڑوں گی، کیونکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ابھی باقی ہیں۔ پرینکا گاندھی نے بھی پہلوخان معاملے میں آئے فیصلے کو انتہائی حیران کن بتایا ہے اور فیصلے پر سوال اٹھایا ہے، مگر ملک کی فضا اتنی آلودہ ہو چکی ہے کہ حق وانصاف کی بات کرنے والے کٹہرے میں لائے جا رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی پر مظفرپور کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا چکا ہے، مگر یہ شاید پرینکا گاندھی کی اپیل کا ہی اثر ہے کہ راجستھان حکومت نے پہلوخان معاملے کی ازسر نو جانچ کے احکامات دے دیے ہیں، مگر سوال تو پھر وہی ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف نفرت کی آلودہ فضامیں تعمیری سوچ بھلا کتنی کارآمد ہوسکتی ہے؟ بھگوا فکر کے ماحول میں قانون کی بالا دستی کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ حالانکہ راجستھان میں اب بی جے پی کی نہیں، کانگریس کی حکومت ہے، اس کے دور اقتدار میں پہلوخان کے قاتلوں کا بری ہو جانا خود کانگریس حکومت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ پہلوخان معاملے میں 7 اگست 2019 کو سماعت مکمل ہوئی، سرکاری وکیل ریاستی حکومت کا تھا، اس کے باوجود سارے ثبوت، سارے ویڈیوز، ساری ریکارڈنگ طاق پر رکھ دی گئیں۔ حالانکہ آج بھی مدارس میں یوم جمہوریہ، یوم آزادی کی تقاریب کی ویڈیو گرافی کرانے کا حکم ہے تاکہ اقلیتی اداروں کی حب الوطنی اجاگر ہو سکے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ایک طرف مدارس کے یہی ویڈیوز دیش پریم کا ثبوت سمجھے جارہے ہیں، دوسری طرف دن دہاڑے پہلوخان کے قتل کے ویڈیو کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ ماب لنچنگ کے گناہ گار پاک دامن ثابت کئے جا رہے ہیں، نہ جانے ہم کس دور سے گزر رہے ہیں، جہاں قاتل کی پذیرائی ہو رہی ہے، مقتول کٹہرے میں لایا جا رہا ہے اور صاحب انصاف بھی مطمئن ہے، بقو ل شاعر:

قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close