Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

ہنگامہ ہے کیوں برپا، ملاقات ہی تو کی ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

عامر خان پر ایک بار پھر لعنت ملامت کے پتھر برسائے جا رہے ہیں۔ 4 برسوں بعد ان کی حب الوطنی پھر کٹہرے پر ہے۔ وہ ترکی کیا گئے اور اردغان کی اہلیہ سے ملاقات کی تصویریں کیا وائرل ہوئیں کہ اک طوفان برپا ہوگیا ہے۔ ٹوئیٹر، ویب سائٹ پر ہنگامہ مچا ہوا ہے اور میڈیا نے ان کے ترکی دورے اور وہاں طیب اردغان کی اہلیہ کی دعوت میں شرکت کو لیکر عامر خان کے ظرف و کردار کی جس طرح دھجیاں اڑائی ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ کورونا کے اس سنگین دور میں بھی نام نہاد ہندوتو کی رگوں میں شدت پسندی کی لہر دوڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے لیکن جھوٹ کی تشہیر سے بھلے ہی بھارت میں سچ کا گلا گھونٹا جا رہا ہو مگر پوری دنیا میں عامر کے خلاف اس میڈیا ٹرائل کی تھو تھو ہو رہی ہے۔ ہر ذی شعور بھگوا دھاریوں کی تنگ نظری کو انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس تشویش کے برعکس سیاسی جماعتیں بھی چپ چپ ہیں۔ حالانکہ زی نیوز کے اینکر سدھیر چودھری بھی پاکستان کے سابق صدرپرویز مشرف سے ملے ہیں ایسے سینکڑوں صحافی حضرات ہیں جو پاکستان آتے جاتے ہیں مگر کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ ستم تو یہ ہے کہ سیکولر بھارت، جمہوری نظام کا دم بھرنے والی کانگریس کے کچھ نیتا گن بھی بھگوا دھاریوں کے ساتھ عامر خان کی لعن طعن کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ترکی ’اینٹی انڈیا‘ ہے۔ عامر خان کو وہاں نہیں جانا چاہئے تھا۔تو نفرت کے اس سر میں سر ملاتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی سوامی سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے عامر کا نام تو نہیں لیا ہے مگر اپنے ٹوئیٹ میں ترکی کے صدر اردغان کو نہ صرف ہند مخالف قرار دیا ہے بلکہ انہیں خود ساختہ خلیفہ بھی قرار دیا ہے جو ہندوستان میں شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے ترکی کو ہندوستان کے لئے نظر نہ آنے والا سب سے بڑا خطرہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ اردغان اور ان کے دوستوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعی ترکی ہندوستان کا دشمن ہے؟ کہ اس سے ملنے جلنے والے یا ترکی جانے والے دشمن کہلائے جائیں گے حالانکہ اس کا جواب ترکی میں ہندوستان کے سابق سفیر رہے ایم کے بھدر نے دوٹوک دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی ایسا کہتا ہے وہ صرف بکواس کرتا ہے اسے ہند-ترکی رشتوں کے بارے میں کچھ بھی جانکاری نہیں ہے۔ ملک جب آزاد ہوا تھا تو پنڈت نہرو نے جن ملکوں کے ساتھ رشتوں کو اولیت دی ان میں ترکی بھی شامل تھا اور اس رشتے کو مزید بہتر بنانے کے لئے نرسمہا راؤ سے لیکر اٹل بہاری واجپئی تک نے ترکی کا دورہ کیا۔ گرچہ آج کے مودی دور میں ترکی کے کشمیر موقف اور دفعہ 370 کو لیکر اعتراض کے تناظر میں دونوں ملکوں میں تھوڑی تلخی ضرور آئی ہے مگر رشتہ برقرار ہے۔

خاص بات یہ بھی ہے کہ دفعہ 370 ہٹائے جانے پر اعتراض تو خود ملک کے کئی قومی لیڈران نے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملک کے دشمن ہیں مگر ترکی کے صدر کی اہلیہ کی طرف سے دی گئی دعوت میں عامر خان کی شرکت کو لیکر جس طرح نقارہ بجایا جا رہا ہے۔ ان کی حب الوطنی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے اور یہ سوال بھی کھڑا کرتا ہے جب وزیراعظم ہند مودی بنا دعوت، بغیر پروگرام کھلے دشمن پاکستان جا سکتے ہیں، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شریک ہو سکتے ہیں تو عامر خان کی باضابطہ دعوت نامے کے بعد ترکی کی خاتون اول کے پروگرام میں شرکت پر لٹھ کیوں بجایا جا رہا ہے۔؟

عامر خان ایک ایسے مقبول اداکار ہیں جن کے مداح دنیا بھر میں ہیں وہ اپنی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کی شوٹنگ کے لئے ترکی میں ہیں۔ اس دوران انہیں ایوان صدر میں مدعو کیا گیا ان کی پذیرائی کی گئی اسی پذیرائی، اہمیت، مقبولیت نے فتنہ پرور ذہنیت والوں کو ایسا باؤلا کیا ہے کہ انہیں اب ملک سے باہر جانے کا بھی راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت عامر خان کی اہمیت کے پیش نظر ان سے فائدہ لیتی بلاشبہ ہند -ترکی رشتوں کے مابین وہ ایک پل کا کام کر سکتے ہیں مگر انہیں استعمال کرنے کے بجائے ان کی کردارکشی ہی کی جا رہی ہے۔ دراصل جس طرح عامر خان پر حملہ ہو رہا ہے یہ اسی کھیل کا حصہ ہے جس کے تحت فلمی دنیا کی شان سمجھے جانے والے تینوں خان، سلمان خان، شارخ خان اور عامر خان بالی ووڈ کے چمکتے ماحول سے گمنامی کے طرف ڈھکیلے جا سکیں۔ دلیپ کمار (یوسف خان) آج بھی فلمی دنیا میں شہنشاہ جذبات کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں اور ان تینوں خانوں کی برابری کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ لہذا ہر سطح پر یہ خان نشانے پر ہیں۔ مگر تمام تر حملوں کے باوجود عامرخان ایک ایسے جرأت مند اداکار ہیں جو 2014 کے بعد ملک میں ابھرے دل سوز واقعات کے خلاف بے لاگ آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ماب لنچنگ، لوجہاد وغیرہ وغیرہ پر ان کی آواز کی بازگشت دنیا میں گونجتی رہی ہے۔ عامر خان کا یہی دوٹوک انداز دوقومی نظریات کے علمبرداروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ 23 نومبر 2015 کو گئو رکشکوں کے ذریعہ ملک میں ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عامرخان نے کہا تھا کہ اب میرے گھر والوں کو ہندوستان میں رہنے سے ڈر لگتا ہے۔ ہر صبح میری بیوی اخبار پڑھتے وقت خوفزدہ رہتی ہے۔ عامر خان کے اس بیان نے گویا سانپ کی دم پر پیر رکھ دیا تھا اور ہنگاموں کا دور شروع ہوگیا۔ ایک مرکزی وزیر نے انہیں پاکستان جانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ حالانکہ ہندوستان میں ڈرنے کی بات ان کی اہلیہ کرن راؤ نے کی تھی جو غیر مسلم ہیں مگر ملک میں جھوٹ کی جو فضا بن گئی ہے اس میں سچ کہنا جرم ہے۔ سو عامر خان بھی حق گوئی کی پاداش میں کٹہرے میں ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر عامر خان کی جگہ اداکار اکشے کمار ترکی جاتے ایوان صدر میں دعوت اڑاتے تو ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا؟ پھر عامرخان کا قصور کیا ہے؟ وہ جس ملک میں اپنی فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں وہاں کی خاتون اول کی دعوت میں شرکت اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے اور پروٹوکول کا حصہ بھی۔ اگر وہ اس دعوت سے گریز کرتے تو کیا اسے ترکی کی توہین نہیں سمجھی جاتی؟

بہرحال سوشل میڈیا پر عامر خان اور طیب اردغان کی اہلیہ کی تصویر کو لیکر ایسا ادھم مچایا جا رہا ہے جیسے ملک کے سنگین حالات، بڑھتی بے روزگاری، بدحال معیشت، خاص کر کورونا کی تیز رفتاری اور ایک عام آدمی کی صحت کا تحفظ کوئی مسئلہ ہی نہیں بلکہ سب سے بڑا مسئلہ تو عامر خان کا اردغان کی اہلیہ سے ملاقات ہے؟ حالانکہ ملاقات کی یہ تصویریں عامر خان نے نہیں بلکہ ترکی کی خاتون اول ایمن اردغان نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پرخود شیئر کی ہیں لیکن تمام تر حقائق کے باوجود عامر خان اور ایمن کی تصویروں کو لیکر نفرت آنگیز سیاست کا بھونپو بجایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عامر خان نے بھارت کے بھاؤناؤں کو چوٹ پہنچائی ہے۔ حالانکہ بھگوا سیاستداں دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن ان کے ترکش میں صرف بھاؤناؤں (جذبات) کے تیر ہی بچے ہیں۔ چنانچہ کورونا کے مارے بدحال عوام کے بھاؤناؤں کو ابھار کر ہی تمام مسائل پس پشت کرنے کا کھیل بھی جاری ہے۔ 5 اگست کو ایودھیا میں بھومی پوجن سے اس کھیل کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ بھاؤناؤں کا افیون چٹاکر عوام کو خواب غفلت میں کب تک رکھا جا سکتا ہے۔ نام نہاد راشٹرواد ہندوتو اور زہریلے بھاشن گرچہ بھاؤناؤں کو مشتعل کرتے ہیں مگر حقائق سے گریز بھاؤناؤں کی یہ سیاست ملک کو کس نہج پر لے جائے گی یہ ایک بڑا نازک سوال ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ کیسی بھاؤنائیں ہیں جو عامر خان جیسے دیش پریمی کو معتوب کر رہی ہیں۔ حالانکہ ساری دنیا پوچھ رہی ہے کہ؎

ہنگامہ ہے کیوں برپا،ملاقات ہی تو کی ہے

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close