Khabar Mantra
محاسبہ

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

محاسبہ...........................سید فیصل علی

حکومت نے اونچی ذات کے غریبوں کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کا جو داؤ کھیلا ہے وہ داؤ عوام کے ذہن کو متاثر کرتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، لیکن جی ایس ٹی، نوٹ بندی، ماب لنچنگ، رام مندر، رافیل کی یلغار در یلغار سے گھبرائی سرکار کو شدت سے یہ احساس ہو چکا ہے کہ 2019 کے چناوی مہابھارت کو فتح کرنا ایک مشکل عمل ہے اور 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخاب نے بی جے پی کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ چنانچہ تمام ایشوز کو پیچھے کرنے کے لئے بی جے پی نے اپنے ترکش کا آخری تیر استعمال کیا ہے، یہ تیرنشانے پر بیٹھے گا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا؟ لیکن جس طرح 10فیصد ریزرویشن کا بل آناً فاناً میں پاس کیا گیا، وہ اسی سیاسی عجلت کا نتیجہ ہے، جس کے تحت راتوں رات سی بی آئی کے ڈائریکٹر ہٹا دیئے گئے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ رافیل معاملہ سے لے کر لالو کو پھنسانے تک معاملات پر ورما کی خصوصی نظر تھی اور یہ حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا اور وہ ہٹا دیئے گئے۔ چنانچہ رافیل کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے اب بی جے پی نے ریزرویشن کا حربہ استعمال کیا ہے۔ اونچی ذات کے ووٹروں پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے بی جے پی نے جو ریزرویشن کی بساط بچھائی ہے کہیں وہ الٹی نہ پڑ جائے اس کابھی اندیشہ ہے۔

گوکہ حکومت کے لئے اعلی ذات کے غریبوں کے لئے سرکاری نوکریوں اور تعلیمی سیکٹر میں ریزرویشن بل کی ہر جماعت نے تائید کے ساتھ تنقید بھی کی ہے، کیونکہ یہ ریزرویشن اپنے آپ میں ایک معمہ ہے، مضحکہ خیز بل ہے۔ اس ریزرویشن کی وجہ سے اونچی ذات کے لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو سکتے ہیں کیونکہ اس ریزرویشن کی رُو سے 5 ایکڑ زمین رکھنے والے اور شہری علاقوں میں 999 مربع فٹ کے فلیٹ میں رہنے والے اور 8 لاکھ سالانہ کمائی کرنے والوں کو ریزرویشن کا حق دار قرار دیا گیا ہے لیکن جو واقعی غریب ہیں، وہ حسب حال پیچھے رہ جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو غریب انکم ٹیکس ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں، ان کے بچے سرکاری اسکولوں یا گاؤں میں پڑھ رہے ہیں، ان کے لئے ریزرویشن کا اہتمام ہونا چاہئے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ پلٹ ہے۔ چنانچہ اس معاملہ کو لے کر خود اعلی ذات والوں میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اسے چناوی کرتب قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بل کی پیچیدگی اور مضحکہ خیزی ہی ہے کہ راجیہ سبھا سے پاس ہونے کے بعد دوسرے ہی دن یہ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا اور اب خدشہ یہ ہے کہ 1992 کی ہی طرح یہ بل عدالتی پیچ و خم کا شکار نہ ہو جائے۔ کیونکہ نرسمہا راؤ حکومت کے ذریعہ اونچی ذات کے غریبوں کو ریزرویشن دینے کے عمل کو سپریم کورٹ میں روک دیا گیا تھا۔ 1992 میں معروف سماجی خدمت گار اندرا ساہنی نے سپریم کورٹ جاکر اونچی ذات کو ریزرویشن دینے کے معاملہ پر پانی پھیر دیا تھا۔ اندرا ساہنی کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے اس فیصلہ سے جنرل زمرہ کے اہل امیدوار لوگوں کو بے حد نقصان پہنچے گا۔ اس بل سے ریزرویشن کی حد 60 فیصد ہونے سے اہل اونچی ذات کے امیدوار پیچھے چلے جائیں گے۔ اس بنیاد پر اس ترمیمی بل کو خارج کیا جا سکتا ہے۔ اونچی ذات کے ریزرویشن پر اپنے تجربے ،مشاہدے ،قانونی دائو پیچ سے گزرنے والی اندرا ساہنی کی اس بات میں بڑا دم ہے کہ یہ معاملہ عدالتی پیچ و خم کا شکار ہو سکتا ہے، طویل عرصہ تک چل سکتا ہے کیونکہ اونچی ذات کو ریزرویشن کے خلاف ان کی عرضی کی سماعت کئی بینچوں سے ہو کر گزری۔ پہلے 2 ججوں کی بینچ سے سماعت شروع ہوئی، پھر 3ججوں کی بینچ میں آئی، پھر 5 ججوں کی بینچ اور 7 ججوں کی بینچ بنی اور با الا ٓخر جسٹس وینکٹ چلیئا کی قیادت والی 9 رکنی بینچ نے اس کا فیصلہ کیا۔ ایسا منظر نامہ پھر ابھر سکتا ہے پھر تو بی جے پی کا سارا کھیل ہی الٹ سکتا ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ مودی حکومت کے جنرل زمرہ میں کمزور طبقہ کے لئے دس فیصد ریزرویشن بل کی ستائش بھی ہو رہی ہے اور تنقید کا بازار بھی گرم ہے کہ سرکاری نوکریوں کی تعداد دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور ریزرویشن کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ہندوستانی ریزرویشن کے دائرے میں آسکتا ہے کیونکہ نبارڈ کی رپورٹ کے مطابق مودی دور میں کسانوں کی آمدنی میں صرف 2505 روپے کا اضافہ ہوا۔ گاؤں میں رہنے والے 41فیصد سے زائد خاندان قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان میں 43 فیصد وہ ہیں جن کی گزر بسر صرف کھیتی پر منحصر ہے اور ان میں بڑی تعداد اونچی ذات کے لوگوں کی ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ شہری علاقے میں 999 مربع فٹ پر عالیشان مکان بنانے والا بھی ریزرویشن کے زمرہ میں ہے۔ ایک سروے کے مطابق شہری علاقے کے 20فیصد افراد اس زمرہ میں آجائیں گے۔ ایس ایس ایس او کے مطابق ریزرویشن کا جو پیمانہ طے ہوا ہے، اس سے ملک کے 95 فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں ریزرویشن کا کٹورہ ہو گا اور اب سرکار ان کے کٹوروں میں کتنا کتنا حصہ پھینکتی ہے، کس طرح انہیں حصہ داری فراہم کرتی ہے خاص کر تعلیمی سیکٹر میں حصہ داری ایک بڑا سوال ہے۔

سیاسی بازی گری کے عجب غضب تماشے ہو رہے ہیں۔ ریزرویشن بل کے تحت تمام ایشوز کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ رافیل کے ہنگامے، سی بی آئی بحران، آئینی اداروں پر شکنجہ جی ایس ٹی، نوٹ بندی و دیگر ایشوز کو لے کر عوام حکومت سے بد دل ہیں لیکن حکومت نے بڑی منصوبہ بندی سے ریزرویشن کی بساط بچھا کر عوام کی بد دلی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھلے یہ سیاست کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن کچھ دن کے لئے بنیادی ایشوز پر سے توجہ ضرور ہٹ چکی ہے۔ ریزرویشن بل کا تماشہ جگ ظاہر ہے حالانکہ اس بل کی تمام جماعتوں نے حمایت کی ہے وہیں لالو پرساد اور ان کی پارٹی نے اس بل کی کھل کر مخالفت کی ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ 124 ویں ترمیمی بل نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو بھی چوکنا کر دیا ہے۔مہاراشٹر اوبی سی کمیٹی نے ریزرویشن کی حد بڑھانے کے لئے 25 فروری کو مہاراشٹر میں ریلی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 10 فیصد ریزرویشن کی سیاست کے بعد ملک میں ایک بار پھر ریزرویشن کی آگ بھڑکنے کا اندیشہ پیدا ہو چکا ہے۔ 1989میں وی پی سنگھ کے زمانے میں منڈل کمیشن کی رپورٹ کے نفاذ پر اونچی ذات کے لوگوں کی تحریک بھڑک اٹھی تھی اور اب اونچی ذات کے ریزرویشن پر اوبی سی طبقات کے متحرک ہونے کے خدشات ابھرنے لگے ہیں، جس کا آغاز مہاراشٹر سے ہو چکا ہے۔

او بی سی لیڈر سیگڑے اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ اتر پردیش میں مخالفت شروع ہو چکی ہے۔ لکھنؤ میں کل دھرنا اور مظاہرہ بھی کیا گیا۔ بہار سمیت کئی ریاستوں میں 9 دلت تنظیموں نے اپنی ’حق ماری‘ کے خدشے کے تحت مظاہرے کئے ہیں بہار میں تیجسوی یادو پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، سماج وادی پارٹی دس فیصد میں پانچ فیصد مسلمانوں کے لئے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ملک کا مسلمان اتنا کہاں خوش نصیب کہ اسے آج کے دور میں رویزرویشن مل جائے۔ حالانکہ مودی جی نے اس بل کو لے کر یہ تسلیم کیا ہے کہ اقتصادی بد حالی پر یہ ریزرویشن دیا جا رہا ہے، جس میں مسلمان بھی شامل ہیں تو انہیں اس کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ اس اقتصادی بد حالی کا سب سے بڑا شکار ملک کا مسلمان ہے۔ اس کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اس تلخ حقیقت کی گواہ ہے تو پھر کیوں نہ مسلمانوں کے لئے الگ سے ریزرویشن کا اہتمام کیا جائے۔ وقت کا یہ بھی المیہ ہے کہ جب جب جن ریاستوں میں مسلم ریزرویشن کا فیصلہ ہوا اس پر سپریم کورٹ کا ہتھوڑا پڑ گیا۔ کیا کوئی حکومت مسلمانان ہند کی اقتصادی بد حالی دور کرنے کے لئے ایسا کوئی ریزرویشن دے سکتی ہے؟ جس سے ان کی اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ مسلم خواتین کی مظلومیت کا رونا رونے والی، تین طلاق کا بل لانے والی حکومت کیا مسلمانان ہند کی غربت و افلاس کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے؟ کاش! بقول فیض احمد فیض:

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close