Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

غیر مسلموں میں قرآن کی عظمت…..

کچھ برسوں قبل فلو ریڈا کے پادری ٹیری جونس نے اسلام دشمنی کے تحت قرآن کو جلا دینے کا بھی اعلان کیا تھا ۔پادری کے اس قبیح فعل کی ہر سمت مذمت ہوئی تھی اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کی مذمت کرنے والوں میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی۔قرآن کی افادیت ،قرآن کا اعجاز ،قرآن کی اہمیت ،قرآن کی عظمت ،جو مسلمانا ن ہند کے لئے فخر و جہاد کی راہیں تعین کرتا ہے ۔وہیں ،دنیا کے سامنے اپنی عظمت کے بھی دریچے کھولتا ہے ۔قرآن خدا کا کلام ہے ۔ قرآن کے اندر ایسے ایسے اسرار و رموز پنہاں ہیں کہ آج بھی اس پر ریسرچ ہو رہی ہے ۔قرآن کے اندر ایٹمی طاقت کے اشارے دیئے گئے ہیں۔قرآن کے اندر فرعون کے ڈوبنے کا قصہ بھی سائنسدانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔چند سال قبل فرعون کی لاش برآمد ہوئی تھی اور سائنسدانوں نے اس پر ریسرچ کی تھی کہ اس کی موت سمندر میں ڈوبنے سے ہوئی تھی ۔یہ بات 1400سال قبل قرآن کریم میں واضح کر دی گئی ہے ۔کئی سائنس داں ،جنہوں نے فرعون کی لاش پر تحقیق کی تھی ،وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے ۔امریکہ اور یورپ میں جس تیزی کے ساتھ اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے ،اس میں بلا شبہ اسلام پر ریسرچ اور قرآن کے مطالعے کا سب سے اہم رول ہے ۔ قرآن کی عظمت کا ہی کرشمہ ہے کہ محمد علی کلے جیسا باکسر اور ہالی وڈ کی کئی اداکارائیںاسلام کو سمجھ کر ،قرآن کریم کو پڑھ کر دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔نیپولین بونا پارٹ ،ملکہ وکٹوریا سے لے کر مہا تما گاندھی ،رابندر ناتھ ٹیگور ،سروجنی نائیڈو وغیرہ وغیرہ شخصیات تک سبھی نے قرآن کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے عالم اسلام کے لئے مشعل راہ قرار دیا ہے ۔زیر نظر مضمون نہ صرف قرآن کی عظمت کا دل نشیں اظہاریہ ہے ،بلکہ عالمی سطح پر غیر مسلموں کے دل و ذہن میں آج جو اہمیت ہے اس کو اجاگر کرتا ہے ۔

بہت سے مذہبی رہنمائوں، ماہرین تاریخ اور ماہرین تعلیم کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم یوم جزا تک رہنمائی کرنے والی اور ہدایت دینے والی لا زوال مقدس کتاب ہے۔ مفکرین کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ نسل در نسل صدیوں سے بالکل اسی طرح سے محفوظ ہیں جیسے کہ وہ اس مقدس کتاب کے نزول کے وقت تھے۔ قرآن کریم کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی کے معروف شاعر اور مفکر گوئتھے (Goethe) نے کہا تھا کہ ’’یہ فوری طور پر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے اور آخر میں ہمارے اندر احترام کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے ۔ آیات اور ان کے مقاصد کی مناسبت سے ا س کا طرز نگارش نہایت مستحکم اور شان دار ہے۔ یہ اس کی ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی خصوصیت ہے ، در حقیقت یہ رفیع و برتر ہے۔ لہذا، یہ مقدس کتاب تمام ادوار میں اپنے قوی اثرات مرتب کرتی رہے گی۔‘‘

نوع انسان نے دو طرح سے خدائی رہنمائی حاصل کی ہے۔ پہلی رہنمائی اس نے اللہ تعالیٰ کے کلام سے حاصل کی ہے اور دوسری رہنمائی انہوں نے حضرت محمدؐ کے توسط سے حاصل کی ہے کیونکہ آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانے کے لئے انہیںپیغمبرانہ صفات کے ساتھ منتخب کیاتھا اور یہ دونوں ذرائع یک جز ہو کر ہمیشہ سے ترسیل کا کام کر رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو درست طور پر نہیں سمجھا گیا۔ اس لئے قرآن کریم،جو کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور حدیث جوکہ پیغمبر حضرت محمدؐ سے منسوب ہے دونوں کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔

غیر مسلم اپنی مذہبی کتابوں پر تمام تر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جو کہ آخر کار پہیلیوں کے الفاظ ہی ثابت ہوتے ہیں اور آخر میں اس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ لوگ انہیں سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ جہاں تک عیسائیوں کا سوال ہے تو وہ بائبل کو نظر انداز کرکے حضرت عیسؑی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ حضرت عیسیؑ کو ہی معبود سمجھنے لگے ہیں (نعوذ و باللہ)۔ اس طرح کے عوامل سے بائبل میں توحید کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ مفقود ہو گیا ہے۔

قرآن کریم جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی آخری کتاب ہے۔ وہ آج بھی اپنی اصل حالت میں ہے اور ذرہ برابر بھی تحریف کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ جل شانہ نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ چنانچہ تا قیامت اس میں زیر زبر کی بھی تحریف نہیں کی جا سکتی ہے۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کی حیات مبارکہ میں ہی مکمل قرآن کریم کو تحریری طور پر محفوظ کر لیا گیا تھا۔ ابتدائی دور میں اسے پام کے پتوں ،چرمی کا غذات وغیرہ پر تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پیغمبر حضرت محمدؐ کے دسیوں ہزار ایسے مقلدین تھے اور ایسے صحابہ کرام تھے، جنہوں نے قرآن کریم کو حفظ کر لیا تھا اور بذات خود پیغمبر حضرت محمدؐ سال میں ایک مرتبہ حضرت جبریل ؑکی موجودگی میں کلام پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ آپؐ نے اپنی حیات کے آخری دور میں دو مرتبہ کلام پاک کی تلاوت کی تھی۔ Roger du Pasqier نے اپنی کتاب ’ Unveiling Islam‘ میں لکھا ہے کہ ’’قرآن کریم کا نزول اسلام کا مرکزی کرشمہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ آج تک ایسا ایک بھی شخص سامنے نہیں آیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان کا دفاع کر سکے کہ 7ویں صدی کے ابتدائی دورمیں تجارتی کا رواں کا کوئی شخص خود اپنے طریقہ سے ایک ایسا شان دار اور مثالی نظام کیسے مرتب کر سکتا ہے،جس میںاتنی جانکاری اور دانش مندی ہے ،جو کہ موجودہ وقت کے نوع انسان کے تصورات سے بھی بالاتر ہے۔ مغربی ممالک میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ حضرت محمدؐ نے نفسیاتی مظہرات کو روشنی میں لانے کے لئے کون سے ذرائع استعمال کئے تھے کہ آپ ؐ اپنی نیم شعوری حالت سے وحی کا انکشاف کرنے کے اہل ہو گئے تھے۔ اس سے صرف ایک ہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس طرح کا نظریہ صرف مسلم مخالف اور متعصب مصنفین کا ہی ہو سکتا ہے ۔
جے ایم روڈ ویلس کی کتاب ’’ The Koran‘‘کے پیش لفظ میں G.Margliouth نے لکھا ہے کہ ’’حالانکہ مذہبیات اور دینی علوم میں دورساز کارنامہ انجام دینے والی یہ آخری مقدس کتاب ہے تاہم اس کے قوی اثرات آج تک کسی سے بھی مغلوب نہیں ہوئے ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ اس کے پیغامات سے متاثر ہوئے ہیں ۔اس نے انسانیت کا ایک نیا دور ہی نہ صرف شروع کیا بلکہ انسان کے خیالات اور اس کا نظریہ ہی تبدیل کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے جزیرہ ٔ نما عرب کے ریگستان میں رہنے والے مختلف قبائلیوں کی زندگی میں تبدیلی کرکے اس خطہ کو ہیروز کا ملک بنا دیا اور اس کے بعد اس نے عالمی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی۔ مذہبی تحریک شروع کر دی، جو کہ دنیا کی عظیم ترین فورسوں میں سے ایسی ایک فورس ہو گئی تھی، جس کے بارے میں آج بھی مغربی اور مشرقی ممالک ذکر کرتے ہیں۔‘‘

تھائی لینڈ کے شیانگ مئی میں واقع یونورسٹی میں تشریح الاعضا اور علم الجنین شعبہ کے سابق سربراہ پروفیسر تگاتاتگاسون جو کہ اس وقت یونیورسٹی میں کالج آف میڈیسن کے ڈین ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’اپنے مطالعات سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ 1400سال قبل جو بات قرآن کریم مین درج کر دی گئی تھی وہ حرف بہ حرف سچ ہے، جسے سائنس کے ذریعہ ثابت بھی کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ پیغمبر حضرت محمدؐ امیّ تھے، لہذا لازمی طور پر وہ پیغمبر ہی ہوں گے، جنہوں نے اس سچائی کو افشا کیا تھا۔ اس کائنات کے خالق نے ہی آپ ؐ پر وحی نازل فرمائی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب لا الہٰ الللہ کہنے کا وقت آگیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عبادت کرنے کے لئے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد رسول اللہ اس کے نبی اور پیغمبر ہیں۔‘‘ قرآن کریم نہ صرف سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم کو دعوت دیتا ہے بلکہ اس کا پیغام ہر شخص تک پہنچتا ہے تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات اور اس کے پیغامات سے آشنا ہو جائیں۔

برطانیہ کے سابق پوپ اسٹار یوسف اسلام المعروف کیٹ اسٹیوین کا کہناہے کہ’’ہر چیز میں بہت سی مصلحتیں ہوتی ہیں اور قرآن کریم کی یہی خصوصیت ہے۔ یہ آپ کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جب کبھی بھی میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، تو وہعبادت ،ہمدردی اور سخاوت کا درس دیتا ہے۔ ابھی تک میں مسلمان نہیں تھا لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے ہر سوال کا جواب صرف قرآن کریم میں موجود ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر دیا ہے۔‘‘
دنیا میں ایسے ہزاروں اور لاکھوں انسان ہیں جو کہ اس مقدس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کے لوگوں میں سے ایک علی سلمان بینوئسٹ ہیں جو کہ جرمنی میں میڈیسن کے ایک ڈاکٹر ہیں، مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ ’’اسلام کے تعلق سے میری گفتگو کا لازمی اور حتمی عنصر کا محور قرآن کریم ہی ہوا کرتا تھا۔ مغربی دانشوروں کے تنقیدی نظریہ کے ساتھ بات چیت کرنے سے پہلے ہی میں نے قرآن کریم کامطالعہ شروع کر دیا تھا. اس مقدس کتاب میں خصوصی آیا ت موجود ہیںقرآن کریم جو کہ 1400 سال قبل نازل ہوا تھا وہ بالکل اسی طرح کے نظریات اور تصورات ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جن کی تصدیق نہایت جدید سائنس کی تحقیقات سے ہو گئی ہے۔ دراصل یہی سبب تھا کہ میں مشرف بہ اسلام ہو گیا تھا۔‘‘
امریکہ کے سیف الدین ڈرک والٹر موسگ نے دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں سے قرآن کریم کاموازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے ہر ایک مذہب کے مقدس صحیفوں کا مطالعہ کیا ہے ۔کہیں بھی مجھے اسلام جیسی کاملیت و فضیلت نظر نہیں آئی۔ میرے مطالعہ کے مطابق مقدس قرآن کریم کا کسی دیگر صحیفہ سے موازنہ کرنا سورج کو روشنی دکھانے کے مترادف ہے۔ مجھے امید قوی ہے کہ کوئی بھی شخص جو کہ کشادہ ذہن سے اللہ تعالیٰ کے کلام کا مطالعہ کرے گا وہ یقینی طور پر مسلمان ہو جائے گا۔‘‘ قرآن کریم میں جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے کچھ کو حالیہ دنوں میں سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بے شک قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جوکہ پیغمبر حضرت محمدؐ پر نازل ہوا تھا اور پیغمبر کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو مبعوث کیا تھا۔ یہ بات بھی قیاس سے بالا تر ہے کہ کسی شخص نے 1400سال قبل ان سائنٹفک حقائق کو دریافت کر لیا ہوگا جو کہ حالیہ دنوں میں جدید ترین آلات اور نفیس طرائق سے دریافت کر لئے گئے ہیں یا انہیں ثابت کر دیا گیا ہے۔

کناڈا کے ٹورنٹو یونیورسٹی کے پروفیسر کیتھ مورے، جو کہ تشریح الاعضا اور علم الجنین کے دنیا کے معروف ترین سائنسداں ہیں ،نے کہا تھا کہ ’’میرے لئے یہ قابل مسرت بات ہے کہ انسانی ارتقا کے بارے مین قرآن کریم میں جو ذکر کیا گیا ہے، اس سے قابل قدر معاونت ملی ہے۔ میرے نزدیک یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو بھی کلام پیغمبر حضرت محمدؐ تک پہنچا وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھا کیونکہ جدید علم اور جانکاریاں صدیوں بعد دریافت ہوئی تھیں ۔ان سب باتوں سے مجھے یہ ثبوت مل گیا ہے کہ حضرت محمدؐ ہی اللہ کے پیغمبر ہیں۔‘‘
کناڈا میں یونیورسٹی آف مینٹوبا میں شعبۂ تشریح الاعضا کے سربراہ اور امراض اطفال کے پروفیسر ڈاکٹرٹی وی این پرساد نے کہا تھا کہ ’’ مجھے ایسا محسو س ہوتا ہے کہ آپ ؐ ایک عام شخص اور امی تھے، ہم 1400سال قدیم دور کی بات کر رہے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی امی شخص کو ایسے عمیق الفاظ اور بیانات دیتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ سائنس کے اعتبار سے نہایت تعجب خیز ہوں؟ ذاتی طورپر میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔یہ بات کہنے پر میرے دماغ میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ آپ ؐ نے جو کچھ بیان کیا تھا وہ صرف اور صرف خدائی وحی یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے نزول تھا اور اسی کے تحت آپ ؐ بیانات دیتے تھے۔‘‘

جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو اخلاقیت اور عملی ضابطوںکے ساتھ اسلام ایک عقیدہ والا نظام ہے، جن کا منبع قرآن مقدس میں مضمر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’درحقیقت قرآن رہنمائی کرتا ہے اور دوسرے راستوں کے مقابلے یہ زیادہ شفاف راہ راست دکھاتا ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے کہ ’’ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کر دی ہے، جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔‘‘
قرآنی آیات میں مذہبی عقیدہ کے اصولوں ،اخلاقی اقدار اور عمومی قانونی نظام کا ذکر کیا گیا ہے، جو انسانی برتائو کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔انگریزی ادب کی معروف شاعرہ اور مفکر سروجنی ناےئڈو اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ قرآن کریم میں مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اسلام کے عدل و انصاف کے تصورات بے مثال ہیں کیونکہ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں مجھے زندگانی سے متعلق متحرک اصول نظر آتے ہیں۔حالانکہ وہ صوفیانہ نہیں ہیں تاہم وہ تو معمولات زندگی کے عملی اخلاقیات پر مبنی ہیں، جو کہ پوری دنیا کے لئے قطعی طور پر موزوں ہیں اور ہر صورت میں انسان کی رہنمائی کرتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close