Khabar Mantra
محاسبہ

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

محاسبہ...........................سید فیصل علی

30جولائی 2019 کو طلاق ثلاثہ بل راجیہ سبھا میں پاس ہوگیا، آناً فاناً میں اس پر صدریہ جمہوریہ ہند کی منظوری بھی مل گئی، اب ٹریپل طلاق قانون بن کر چابک لئے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے کھڑا ہے کہ اگر تم نے ایک وقت میں تین طلاق دی تو جیل جانے کے لئے تیار ہو جاؤ، اس کا آغاز متھرا سے ہو بھی گیا ہے، جہاں ایک شخص نے بیوی کو طلاق دی اور اس کی پاداش میں جیل میں بھی چلا گیا۔ حالانکہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح محض 0.56 فیصد ہے۔ 2011 کے اعداوشمار کے مطابق مسلمانوں میں طلاق کی تعداد 21 لاکھ 274 تھی۔ اسی طرح ہندوؤں میں طلاق کی تعداد 61 لاکھ 85 ہزار 29 تھی، یعنی مسلمانوں کے مقابلے ہندوؤں میں طلاق کی شرح تین گنا زیادہ تھی، اس کے علاوہ وہ خواتین جنہیں ان کے شوہروں نے چھوڑ رکھا ہے، ان میں بغیر طلاق کی 28 لاکھ 76 ہزار مسلم خواتین ہیں، جبکہ ہندوؤں میں شوہروں کے ذریعہ چھوڑی گئیں خواتین کی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ 43 ہزار ہے، یہاں بھی مسلمانوں سے سات گنا سے بھی زائد ہندوخواتین بے بسی کے عالم میں ہیں، مگر گاج گرتی ہے تو صرف مسلمانوں پر۔

راجیہ سبھا میں این ڈی اے کی اکثریت نہیں ہے، جبکہ بی جے پی اقتدار کے حامی نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو بھی ہمیشہ تین طلاق بل کی مخالف رہی ہے، اس کے باجود تین طلاق بل کیسے پاس ہوگیا؟ یہ سوال ایک ایسا دلسوز آئینہ ہے، جس میں ان تمام سیکولر سیاستدانوں کے دوہرے چہرے نظر آتے ہیں، جو ہمیشہ آئین اور جمہوریت کی دہائی دے کر اس بل کی مخالفت کرتے رہے ہیں، ان سبھی سیکولر سیاسی جماعتوں کی منافقانہ سیاست کا پردہ فاش ہو چکا ہے، جو کثرت میں وحدت کی باتیں تو کرتی ہیں، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں بی جے پی کی فکر کی مقلد ہیں۔ مگر اہل سیاست تو چھوڑیئے، اس دور منافقت کے حمام میں ہم سبھی ننگے ہیں۔ حکومت کو شریعت میں مداخلت کرنے کا موقع کس نے فراہم کیا؟ اب تو راہیں کھل گئی ہیں، فسطائیت کے حوصلے بلند ہیں، تین طلاق کے بعد یکساں سول کوڈ وغیرہ وغیرہ کی قطاریں ہیں، ایسے میں اہل عبا وجبہ حضرات، ملی قائدین، علماء کے آپسی نفاق، خاص کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تساہلی سے ملت کا بڑا خسارہ ہوا۔ ہمارے اکابرین طلاق بدعت اور طلاق ثلاثہ پر ہی اڑے رہے اور اس شرعی مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنا دیا کہ نہ تو قوم ہی سمجھ سکی اورنہ ہی سیاستداں ہی سمجھے کہ تین طلاق کی اصل روح کیا ہے؟ بالآخر قانون کی گھنٹی مسلمانان ہند کے گلے میں باندھ دی گئی اور وہ زیر تعزیر ہو گیا ہے۔

تین طلاق قانون بن جانے کے خلاف بعد نماز جمعہ ممبئی، کولکاتہ وغیرہ میں احتجاجی جلوس ومظاہرے بھی ہوئے۔ بلاشبہ تین طلاق پر تین سال کی جیل کا قانون مسلمانان ہندکے لئے سوہان روح سے کم نہیں ہے، لیکن اب یہ جلسے جلوس اور مظاہرے بے سود ہیں۔ نعروں اور مظاہروں سے قانون کا چابک نہیں ٹلنے والا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایسے ہی تین طلاق پر پارلیمنٹ میں قانون بنانے کی بات چل رہی تھی تو ملی تنظیمیں، ملی قائدین اور ہمارے اکابرین چوکنا ہوگئے تھے۔ کروڑوں دستخط کرائے گئے، سڑکوں پر خواتین کا اژدہام نظر آیا، خاص کر جے پور میں خواتین کے مظاہرے نے اہل سیاست کی فکر کو متاثر کیا اور راجیہ سبھا میں بل پاس نہیں ہوسکا، کاش اس مرتبہ بھی ہمارے ملی قائدین، اکابرین الرٹ رہتے، کاش مسلم پرسنل لاء بورڈ سرگرم رہتا، اس کے اکابرین سیکولر لیڈران پر دباؤ بناتے اور اس کی لابنگ کرتے، مسلم قائدین کو اس معاملے میں الرٹ رکھا جاتا تو یقینا یہ بل راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہو سکتا تھا، مگر ستم سیاست تو یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہونے کے باوجود حکومت نے شریعت مخالف قانون کو راجیہ سبھا میں پاس کروا لیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ نتیش کمار کی جنتادل یو، اے آئی ڈی ایم کے، ٹی ڈی پی اور بہوجن سماج پارٹی جو ہمیشہ اس بل کی مخالف رہی ہیں، انہوں نے واک آؤٹ کرکے بی جے پی کی فتح کی راہ ہموار کر دی۔ مسلم نوازی اور ہمدردی کا دعویٰ کرنے والا اپوزیشن کا رول بھی اس معاملے میں بڑا شرمناک تھا۔ پی ڈی پی، این سی پی حتیٰ کے کانگریس کے کئی ارکان ووٹنگ کے درمیان غیرحاضر رہے اور تین طلاق بل 84 کے مقابلے 99 ووٹوں سے پاس ہو گیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں تمام تر ہمدردی اور سیکولر نوازی کا یہ گھناؤنا روپ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ منافقت کی ایسی سیاست کو مؤرخ ضرور رقم کرے گا اور تاریخ ہمیشہ سیکولر اور آئین کا دم بھرنے والوں کو آئینہ دکھاتی رہے گی۔

ایک ساتھ تین طلاق پر تین سال کی سزا کا قانون تو بن چکاہے، مگر اب ہمیں اس کی مذمت کے ساتھ نئے لائحہ عمل بنانے کی طرف دھیان دینا چاہیے، خاص کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو سیاسی، سماجی، تعلیمی وقانونی ہر سطح پر سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس میں دورائے نہیں ہے کہ مسلمانان ہند کو آئین میں دیئے گئے مذہبی حقوق جیسے حق وراثت، شادی بیاہ، طلاق ونان نفقہ کے تحفظ اور ان امور میں حکومت کی بے جا مداخلت کو روکنے کے لئے، جو پلیٹ فارم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے 13 مارچ 1972 کو بنایا گیا تھا، وہ پلیٹ فارم متزلزل ہے، اس کی مومنانہ فراست اور کار کردگی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اب قومی سیاسی وسماجی صورتحال سے عاری پلیٹ فارم سمجھا جا رہا ہے، لہٰذا ملت کے اس عظیم پلیٹ فارم کو فعال کرکے مثبت رخ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باجود مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف اب بھی ملت اسلامیہ کی نظریں ہیں اور ہم اس تشویش سے انکار نہیں کرسکتے کہ تین طلاق پر تین سال کی سزا کا قانون بنانے سے سرشار حکومت کے سامنے صرف مسلم ایجنڈہ ہے۔ مسلمانوں کے تئیں انصاف، آئین اور جمہوریت کی باتیں حکومت کے ایجنڈے میں نہیں ہیں۔ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں بے شمار مسائل ہیں، مگر حکومت وقت ترقیاتی کاموں کے بجائے مسلمان اور اس کے پرسنل قوانین کو سپوتاز کرنے کے درپے ہے۔

سینئر صحافی ونودوا بھی اسی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تک بی جے پی، کانگریس مکت بھارت کی بات کرتی رہی ہے، اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہے یہ الگ بات ہے، مگر اب مسلم مکت بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے۔ این آرسی، یواے پی اے وغیرہ سب اسی خواب کی کڑیاں ہیں، ان بلوں کا مقصد صرف ایک طبقہ یا حکومت مخالف سوچ پر شکنجہ کسنا ہے۔ ایسے عالم میں ہرذی شعور کو بہت دور اندیشی اور تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ خاص کر مسلم معاشرے کو صالح بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کے لئے اہم اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، کیونکہ جب سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ ایک وقت میں تین طلاق نہیں ہوتا تو پھر ہائے توبہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ایک مشت تین طلاق پر تین سال کی سزا بے معنی ہے اور افسوسناک بھی ہے، کیونکہ اس سے مصالحت کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں اور کنبہ برباد ہو جاتا ہے، اس لئے مسلمان شریعت کی پاسداری کرے اور ایک وقت میں تین طلاق سے گریز کریں تو خود بہ خود یہ قانون ناکارہ ہو جائے گا اور یہی وہ طریقہ ہے، جو فسطائی سیاست کو جھٹکا دے سکتا ہے۔ میں اس قانون کے بن جانے سے زیادہ متفکر نہیں ہوں، کیونکہ تاریخ جانتی ہے کہ جب جب اسلام کو کچلنے کی سعی ہوئی مسلمان اتنی ہی قوت سے ابھر کر سامنے آئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی ایسا ہی بے بسی کا ماحول تھا، لگتا تھا کہ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، چنانچہ مسلمانوں نے بھی جذباتی مسائل سے ہٹ کر خود کو تعلیمی، معاشی اور سماجی ترقی کی طرف موڑ لیا۔ ایک دہائی کے اندر ان کے تعلیمی، اقتصادی گراف میں کافی اضافہ ہوا، اب وہی صورتحال پھر نظر آ رہی ہے، ایک مرتبہ پھر ہندوستانی مسلمان بے بسی کے دور سے گزر رہے ہیں، یہ دور مسلمانوں اور ان کی لیڈرشپ کے لئے ایک احتساب سے کم نہیں ہے کہ وہ خود کو دیکھیں کہ کس طرح فسطائیت کے شکنجے سے نکل سکتے ہیں، کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ باد مخالفت میں ہی اسلام اور مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا، سخت مسائل ومصائب نے ہی ملت اسلامیہ کو تپ کر کندن بننے کا موقع فراہم کیا۔ مگر اس کے باوجود اک گلہ ضرور ہے۔ بقول علامہ اقبال:

رحمتیں ہیں تری اغیارکے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close