Khabar Mantra
محاسبہ

کوئی مذہب نہیں دیتا پیغام کبھی نفرت کا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک میں نفرت کی سیاست کا ایسا مایا جال پھیلا ہوا ہے کہ تمام بنیادی مسائل وکاس کی باتیں پسِ پشت ہوچکی ہیں۔ نام نہاد ہندوتو اور دیش پریم کے کھٹ راگ نے سب کا تیاپانچہ کر رکھا ہے۔ انسانیت، آدمیت، رواداری، قوتِ برداشت اب ماضی کی باتیں ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر سمت غصہ، اشتعال، انتقام اور عدم رواداری کا دور دورہ ہے۔ گوکشی، بیف، وندے ماترم، جے شری رام وغیرہ وغیرہ کے بعد اب بچہ چوری کا نیا فتنہ کھڑا ہوا ہے۔ کب کوئی معصوم کس معاملے میں ماب لنچنگ کا شکار ہو جائے کہا نہیں جا سکتا۔ ہجومی تشدد اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ بھارت کا مہان لوک تنتر اب ’بھیڑتنتر‘ میں بدلتا جا رہا ہے۔ نئے بھارت کے اس ’بھیڑتنتر‘ کی وجہ سے انسانی دل و دماغ اتنے بے حسِ ہوتے جا رہے ہیں، آنکھیں اتنی پتھریلی ہوتی جا رہی ہیں کہ سرِعام کوئی پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے مگر سب دیکھتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ نیو انڈیا کے ’بھیڑتنتر‘ کا وائرس کشمیر سے کنیا کماری تک پاؤں پسار چکا ہے اور جب ’بھیڑتنتر‘ کا یہ خونی کھیل ملک کی راجدھانی دہلی میں ہونے لگے تو پھر یہ سوال بھی اٹھنے لگتا ہے کہ کیا نظم ونسق وہ قانون سب ہجومی تشدد کے آگے بے بس ہو چکے ہیں؟ کیا نفرت کی سیاست نے ملک کے جمہوری اقدار وسنسکار کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والے ایسے غیر انسانی عمل پر اُف کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ سماج کا یہ بدلا بدلا روپ ہندوستان کی دیرینہ تہذیب و تاریخ و تمدن کے منافی ہے اور جمہوریت کی بے بسی کا نتیجہ ہے کہ آج لنچنگ کرنے والوں کا والہانہ استقبال ہو رہا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کو دبایا جا رہا ہے۔

ملک کی راجدھانی میں دن دہاڑے پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے سامنے جس طرح ایک مدرسہ ٹیچر قاری محمد اویس کو ہجوم کے ذریعے پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا اور لوگ تماشائی بنے رہے، گزرتے رہے، اس واقعہ نے ہر ذی شعور کے دل کو دہلا کر رکھ دیا۔ قاری اویس کا قصور صرف یہ تھاکہ اس نے دکان دار سے ہیڈ فون خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مار ڈالا گیا۔ جب راجدھانی کا یہ حال ہے تو ملک کے دوسرے خطوں کا حشر کیا ہوتا ہوگا یہ کوئی تصور کر سکتا ہے۔ گزشتہ 27 اگست کو تو ہم لنچنگ ڈے کہہ سکتے ہیں۔ جہاں دہلی سے لے کر ملک کے الگ الگ حصوں میں ’بھیڑتنتر‘ کا خونیں کھیل نظر آیا۔ اسی دن ممبئی کا ایک بوڑھا ٹھیلا والا ہجومی تشدد کا اس لئے شکار ہوگیا کہ اس نے کچھ لوگوں کو وہاں کچرا پھینکنے سے منع کیا تھا۔

جھاڑ کھنڈ تو لنچستان کہلانے لگا ہے۔ یہاں توہم پرستی، ضعیف العتقادی نے ’بھیڑتنتر‘ کو تقویت دی ہے۔ آئے دن وہاں ڈائن کی آڑ میں کوئی نہ کوئی عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ 27 اگست کو ہی بہار کے نوادہ ضلع کے ایک گاؤں میں ایک بوڑھی عورت کو ڈائن قرار دے کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ اسی دن بہار کے ہی گیَا کے تین مسلم لڑکے ہجومی تشدد کا شکار ہوئے۔ یوپی کے سنبھل میں بھی بھیڑ نے بچہ چوری کے شک میں ایک شخص کو مار ڈالا اور ایسے ہی ایک معاملے میں ایک عورت کو باندھ کر اتنی پٹائی کی گئی کہ وہ آج بھی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ شاملی میں رسّی بیچنے والی 5 عورتوں کو ہجوم نے بچہ چوری کے شک میں نہ صرف جم کر پیٹا، بلکہ اس کارنامے کا ویڈیو بھی بنایا گیا اور ستم تو یہ ہے کہ ان عورتوں کو بچانے کی پاداش میں ہجوم نے تھانے پر بھی حملہ کردیا۔ مذکورہ بالا واقعات صرف ایک دن کے ہیں۔ لیکن ستم سیاست کہیں یا ملک کی قسمت کہ ماب لنچنگ کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ’بھیڑتنتر‘ کا عفریت منہ پھاڑے معصوموں کو نگلتا جا رہا ہے۔ ’بھیڑتنتر‘کو نہ تو پولیس قانون کا خوف ہے نہ ہی سماج اور انسانیت کا لحاظ ہے اور نہ ہی مہان بھارت کی سیکولر امیج اور سنسکار کی پرواہ ہے۔

ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ نیشنل رجسٹرڈ آف سٹی زن (NRC) کی حتمی فہرست عام کر دی گئی ہے۔ آسام کے 19 لاکھ 6 ہزار 6 سو 57 افراد کے نام اب بھی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ان کی شہریت پر تلوار لٹک چکی ہے ان کے لئے اپنی شہریت ثابت کرنا بھی ایک پیچیدہ و خرچیلہ مرحلہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف قومی معیشت بھی بدحالی کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ بے روزگاری کے معاملے میں موجودہ سرکار گزشتہ حکومتوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ 50 سے زائد معروف صنعتی اداروں میں پیداوار کی رفتار خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ ان کمپنیوں نے لاکھوں مزدوروں کی چھٹنی کر دی ہے۔ ٹاٹا سمیت کئی بڑے اداروں نے کئی یونٹ بند کر دیئے ہیں۔ برلا صنعتی گروپ کو اس سال 6134 کروڑ کا خسارہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس مندی کا اثر ملک کی ترقیاتی شرح پر پڑنا لازمی ہے اور خطرناک بات تو یہ ہے کہ ملک کی ترقیاتی شرح (GDP) اپنے دور کی انتہائی کم سطح 5% پر آگئی ہے۔ یوں تو قومی ترقیات کے نام پر RBI کے 1.76لاکھ کروڑ ریزرو فنڈ نکال لیے گئے ہیں۔ ریزروبینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ 71542 کروڑ روپے کا بینک فراڈ ہوا ہے۔ ایسے عالم میں ملک کی معیشت کس مقام پر ہے، اس پر بھی معاشی ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

مگر ان تمام تر ترقیاتی خستہ حالی، معاشی بدحالی پر غوروفکر کرنے کے بجائے ہر طرف ’بھیڑ تنتر‘ کا ہی دبدبہ ہے۔ حکومت بھی ’بھیڑ تنتر‘ کے کارناموں پر ایک طرح سے خاموش تماشائی ہے۔ ماب لنچنگ پر سخت قانون بنانے کے بجائے اس سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ وزارت داخلہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے میں پہلے سے ہی قانون موجود ہے۔ حالانکہ کے راجستھان سرکار کے بعد ماب لنچنگ کے خلاف بنگال اسمبلی میں بِل پیش ہو چکا ہے۔ جس کے تحت ماب لنچنگ پر پھانسی کا التزام ہے۔ لیکن اصل قدم تو مرکز کو ہی اٹھانا ہوگا کیونکہ سماج میں ابھرتی اس طرح کی متشدد فطرت نہ صرف ہندوستان کی عظیم جمہوریت کے لئے شرمناک ہے بلکہ ارباب و اقتدار کے آگے بھی سوال کھڑا کر رہا ہے کہ ملک کی ترقی و استحکام، امن و آشتی کے لئے ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون بنانا ضروری ہے۔ ملک میں بڑھتا ہوا تشدد اور نفرت کا ماحول کیا قہر ڈھائے گا ملک کی سالمیت اور ترقی کی راہ میں کتنا بڑا روڑا بنے گا اس پر ہر ذی شعور لرزہ براندام ہے، اس اہم نکتہ کو ارباب و اقتدار و سیاست نہیں سمجھ رہے یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ حالانکہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک ہر شہری پُر سکون نہ ہو۔ سماج مطمئن نہ ہو، ایک خاص معاشرہ خوفزدہ نہ ہو۔ سماج میں بددلی نہ ہو۔ مظلومین کو انصاف ملنے کی امید ہو۔ کاش ہمارے سیاست داں اس حقیقت کو سمجھ سکیں، بقول شاعر:

سیاست ہی پلاتی ہے جام سبھی کو نفرت کا
کوئی مذہب نہیں دیتا پیغام کبھی نفرت کا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close