Connect with us

دلی این سی آر

وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے اپنے آبائی گاؤں نند گڑھ میں منائی 51ویں سالگرہ

Published

on

(پی این این)
جند: دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نےکہ کہ وکست بھارت کی سمت دہلی اور ہریانہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ گپتا جند ضلع میں ایک پروگرام میں مہمانِ خصوصی کے طور پر خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کا نتیجہ ہے کہ آج دہلی اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے اعلیٰ عہدوں پر عام خاندانوں سے آنے والے لوگ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور سماجی خدمت کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔
دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے آج ہریانہ کے جولانہ میں اپنے آبائی گاؤں نند گڑھ میں اپنی 51ویں سالگرہ منائی۔ وہ 19 جولائی 1974 کو اس گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ہریانہ حکومت نے اس موقع پر نند گڑھ میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے جولانہ میں وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا کی سالگرہ کے موقع پر ان کا شاندار استقبال کیا۔وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے نند گڑھ گاؤں کو ریکھا گپتا کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر کئی ترقیاتی تحفے دیے۔ اس کے لیے ریکھا گپتا نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر ریکھا گپتا نے نند گڑھ سے متعلق اپنے بچپن کی یادیں اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات سے لے کر دہلی کے وزیر اعلیٰ بننے تک کے اپنے سفر کو یاد کیا۔
مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا جی کو ان کے یوم پیدائش پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ وہ دہلی کی خدمت میں ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے طور پر، انہوں نے قومی راجدھانی کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ خدا انہیں لمبی اور صحت مند زندگی عطا کرے،” مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا۔گپتا نے ان کی سالگرہ پر مبارکباد دینے پر وزیر اعظم مودی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی "ہمیشہ متاثر کن” رہنمائی ان کے (گپتا کے) عوامی خدمت کے سفر کے لئے طاقت اور تحریک کا مستقل ذریعہ ہے۔ریکھا گپتا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "بطور وزیر اعلی، میںسب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پرایاس کے آپ کے وژن کو بامعنی نتائج میں تبدیل کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہوں۔ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا، "دہلی کی وزیر اعلیٰ، ہریانہ کی بیٹی ریکھا گپتا جی کو ان کے یوم پیدائش پر نیک خواہشات اور مبارکباد۔ آپ کی موثر قیادت اور سماج کے تئیں لگن راجدھانی میں اچھی حکمرانی اور بااختیار بنانے کی علامت بن گئی ہے۔ میں بھگوان شری رام سے دعا کرتا ہوں کہ آپ دہلی کی ترقی اور صحت مند زندگی کے لیے ہمیشہ قائم رہیں اور آپ کو صحت مند زندگی گزارنے کا موقع ملے۔”دہلی میں عہدیداروں نے بتایا کہ اس کا جولانہ اور نند گڑھ میں کئی پروگراموں میں حصہ لینے کا پروگرام ہے۔
ہریانہ کے وزیراعلیٰ نایب سنگھ سینی نے اس موقع پر کہا کہ ہریانہ کی بیٹی، ریکھا گپتا، دہلی کی وزیراعلیٰ بننے کے بعد آج پہلی بار اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنے آبائی گاؤں نندگڑھ آئی ہیں، وہ تمام ہریانہ کے لوگوں کی طرف سے انہیں سالگرہ کی مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے گپتا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ریکھا گپتا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور پنڈت دین دیال اپادھیائے کی نظریاتی سوچ کے ساتھ جڑ کر عوامی خدمت کا کام کر رہی ہیں۔ ان کی پوری زندگی ملک کے لیے وقف رہی ہے اور انہوں نے ملک کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ ریکھا گپتا کی سوچ، ان کی پالیسی اور نیت یہی ہے کہ دہلی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ‘وکست بھارت’ کے سفر میں ہریانہ اور دہلی حکومتیں مضبوطی سے آگے بڑھیں گی۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وکست بھارت کی سمت دہلی اور ہریانہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں اور وزیر اعظم کی قیادت کا نتیجہ ہے کہ آج دہلی اور ہریانہ جیسی ریاستوں کے اعلیٰ عہدوں پر عام خاندانوں سے آنے والے لوگ ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں اور عوامی خدمت کو سب سے بڑی ترجیح دے رہے ہیں۔ سینی نے کہا کہ پنڈت دین دیال اپادھیائے کےاصول اور نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی سمت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 2014 کے بعد ہندوستان نے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ مسٹر مودی کے ’وکست بھارت‘ کے عزم میں ہریانہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے گا۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ نے اگرسین دھرم شالہ کا افتتاح اور نندی و کامدھینو گؤ شالہ کا بھومی پوجن کیا۔ انہوں نے دھرم شالہ کے لیے 31 لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ مسٹر سینی نے کہا کہ مسٹر مودی کی قیادت میں ملک نے عالمی سطح پر اپنی ایک مضبوط شناخت قائم کی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ پختہ یقین رہا ہے کہ ہندوستان ایک دن اقتصادی سپر پاور بنے گا اور آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت 11ویں مقام سے چوتھے مقام پر پہنچ چکی ہے۔ ترقی کا یہ سفر وزیر اعظم کی قیادت میں ہی ممکن ہو سکاہے اور آنے والے وقت میں ہندوستان یقیناً دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنے گا۔

دلی این سی آر

اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز کےایل سیگل کو پیش کیاگیا خراجِ عقیدت

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں آج شام اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز اُس وقت خاصی رونق دیکھی گئی جب پیروٹس ٹروپ نے اپنے نئے اسٹیج ڈرامے’’ترا راہ گزر یاد آیا (کے۔ایل۔سیگل)‘‘ کی شاندار پیشکش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم کی تحریر و ہدایت میں تیار یہ منفرد اسٹیج ڈراما ایک میوزیکل فکشن ہے جس میں حقائق اور تخیل کو بڑی خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ ملک کے معروف گلوکار کے۔ایل۔سیگل کی زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہوسکیں۔
ڈرامے کا عنوان مرزا غالبؔ کی غزل’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے سے ماخوذ ہے، جسے سیگل نے اپنی مترنم آواز میں گایا تھا۔ اس پیشکش کی خاص بات متعدد فنی و تکنیکی تجربات رہے۔ کہانی کو راوی کے ذریعے آگے بڑھانا اور اہم و بنیادی مناظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ پیش کرنا ایسے عناصر تھے جنہوں نے ڈرامے کی دلکشی میں اضافہ کیا۔ڈرامے میں جہاں سیگل کی زندگی کے ابتدائی مراحل ،ایک معمولی سیلزمین سے شہرت یافتہ گلوکار بننے تک،بڑے دلکش انداز میں دکھائے گئے، وہیں ان کی گائیکی کے مختلف ادوار، مشہور نغمات اور فنی جدوجہد کو بھی نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ ہر کردار اپنے زمان و مکان کے عین مطابق مکالمے ادا کرتا نظر آیا۔کلکتہ کے مناظر میں بنگلہ لب و لہجے کی لطافت اور چاشنی جھلکتی ہے، جبکہ مرادآباد اور کانپور کے مشاعراتی ماحول میں وہاں کا مخصوص اندازِ گفتگو پوری طرح برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دہلی اور ممبئی سے متعلق مناظر میں ان شہروں کی ثقافتی زبان اور مقامی لہجہ فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے ڈرامے کی حقیقت نگاری اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوا۔ کہانی میں مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سیگل کے عہد کی اہم شخصیات اور اُس دور کے بنگلہ و ہندی فنکاروں کے فنی اثرات کو بھی مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا سب سے دلکش و نمایاں پہلو معروف تھیٹر اداکار یش راج ملک کی شخصیت اور ان کی اداکاری رہی، جنہوں نے سیگل کا کردار بخوبی نبھایا۔ وہ نہ صرف سیگل کے مشابہ دکھائی دیے بلکہ ان کے مقبول نغموں، غزلوں اور بھجنوں کو براہِ راست اسی انداز میں پیش کرکے پورے آڈیٹوریم میں سیگل کے زمانے کی یاد تازہ کردی۔
یہ ڈراما کل چوبیس کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں ایک مرکزی، چار معاون اور بیس ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی کی تشکیل سترہ مناظر پر کی گئی تھی، جن میں دو مناظر فلیش بیک تکنیک کے تحت پیش کیے گئے۔ ہدایت کار نے ڈرامے کا اختتام بھی نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جہاں سیگل کے آخری لمحات کو بے بسی اور درد کے ساتھ دکھایا گیا۔ڈراما مجروح سلطان پوری کی غزل پر مبنی اس مشہور نغمے’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، جسے سیگل نے اپنی آواز میں گایا تھا۔
آڈیٹوریم میں شریک ناظرین کا خیال تھا کہ یہ ڈراما نہ صرف ایک فن کار کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ ہندوستانی فلمی و موسیقی کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ ڈرامے کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ناظرین نے پیروٹس ٹروپ کی اس کامیاب پیشکش کو بھرپور سراہا۔
آخر میں اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار ڈاکٹر سعید عالم کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے اس پیشکش کی قدردانی کی۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام ڈراما فیسٹول کے تیسرے روز منٹو کی کہانی ’’جیب کترا‘‘ کی متاثر کن پیشکش

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:سعادت حسن منٹو کا شمار اردو افسانے کے اُن چند نادر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور معاشرتی برائیوں کو بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کیا۔انھوں نے اپنے قلم کے زور سے سماج کے دوہرے چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ ان کا فن زندگی کی کڑوی حقیقتوں، انسانی کمزوریوں اور معاشرتی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر حقیقت پسندانہ ہے، جس میں طنز و مزاح کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔ منٹو کے فن کی یہی خوبیاں انھیںاردو فکشن کا ایک منفرد اور لازوال افسانہ نگار بناتی ہیں۔
اردو اکادمی ،دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ’’اردو ڈراما فیسٹول‘‘ کے تیسرے دن منٹو کی یہی فنی و فکری خوبیاں ناظرین کے دل و دماغ پر اثرانداز رہیں۔ آج شام شری رام سینٹر میں اداکار تھیٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منٹو کے معروف افسانے ’’جیب کترا‘‘ کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس کی ہدایت کاری معروف تھیٹر فنکار جناب ہمت سنگھ نیگی نے کی۔ڈرامے کی پیشکش سے قبل ناظمِ محفل جناب مالک اشتر نے منٹو کے فکر و فن اور تھیٹر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی، جس کے بعد کہانی کی پیشکش نے ناظرین کو گہرے تاثرات میں ڈبو دیا۔
یہ کہانی ایک جیب کترے ’’کاشی‘‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو حالات کے جبر کے تحت چوری پر مجبور ہے۔ ایک دن بازار میں وہ ’’بملا‘‘ نامی عورت کا بٹوہ چرالیتا ہے، مگر اس میں موجود ایک خط کی افسردہ تحریر اسے پشیمان کردیتی ہے۔ اسے بملا کی زندگی میں غم اور مایوسی کے ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ انکشاف کاشی کے دل میں ندامت اور انسانیت دونوں کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بملا سے اپنے جرم کی معافی مانگتا ہے اور اس کی زندگی میں دم توڑتی امید کو پھر سے جلا بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بدلے میں بملا وعدہ کرتی ہے کہ وہ کاشی کو ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرے گی، مگر برسوں کی چوری نے کاشی کو ’’کلیپٹو مینیا‘‘ جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا تھا، جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ کہانی کا کلائمکس اس وقت آتا ہے جب بملا اپنی مجبوریوں کے باعث کاشی سے دوبارہ چوری کرنے کو کہتی ہے، لیکن اس بار کاشی انکار کردیتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرچکا ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام علامتی اور فکرانگیز انداز میں ہوتا ہے، جو ناظرین کے ذہنوں پر یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ کیا کاشی اپنی نئی راہ پر قائم رہ پائے گا یا حالات اسے دوبارہ جرم کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
یہ ڈراما کل اٹھارہ کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں دو مرکزی، دو معاون اور چودہ ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی سات بنیادی اور تین ضمنی مناظر پر مشتمل تھی۔ فنکاروں نے اپنی بے مثال اداکاری اور جذباتی گہرائی کے ساتھ منٹو کی سادہ زبان کو اس طرح مجسم کیا کہ ناظرین کے لیے افسانوی کردار اور تھیٹر اداکار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ معاون و ضمنی فنکاروں نے بھی اپنے دلچسپ مکالموں، گہرے تاثرات اور مزاحیہ حرکات کے ذریعے کہانی کے جذباتی توازن کو آخر تک برقرار رکھا۔مختصر یہ کہ یہ ڈراما نہ صرف فنِ اداکاری کے اعتبار سے کامیاب رہا بلکہ اپنے جامع و مؤثر اسکرپٹ، اثرانگیز مکالموں اور فنی پیشکش کے باعث ناظرین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔
ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار جناب ہمت سنگھ نیگی کو مومینٹو اور گلدستہ پیش کر کے ان کی شاندار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔

Continue Reading

دلی این سی آر

اردو اکادمی کے زیر اہتمام35واں اردو ڈراما فیسٹول کا آغاز

Published

on

(پی این این)
نئی دہلی:ڈراما ادب کی وہ صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق، احساسات اور مظاہر کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ معروف فلسفی و نقاد ارسطو کے مطابق ڈراما انسانی اعمال کی تقلید ہے، یعنی یہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا دلچسپ اور مؤثر ذریعہ ہے۔اردو ڈرامے کی ایک اہم شاخ اسٹیج ڈراما ہے، جس میں اداکاری کے ذریعے کسی کہانی یا واقعے کو براہِ راست ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے اسٹیج پرفارمنس نہ صرف تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری شعور کو بھی بیدار کرتے ہیں۔
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو اکادمی، دہلی گذشتہ۳۵برسوں سے مسلسل اردو ڈراما فیسٹول کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ اس فیسٹول کا مقصد محض ناظرین کے ذوق کی تسکین ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ثقافت کے فروغ اور عصری مسائل کے فنی اظہار کو بھی اجاگر کرنا ہے۔اس سال بھی اردو اکادمی، دہلی نے محکمہ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی کے زیر اہتمام چھ روزہ ۳۵واں اردو ڈراما فیسٹول منعقد کیا ہے۔ یہ فیسٹول 10 نومبر سے شروع ہوکر 15 نومبر تک سری رام سینٹر، منڈی ہاؤس میں جاری رہے گا، جہاں ہر روز شام ساڑھے چھ بجے ایک نیا اسٹیج ڈراما پیش کیا جارہا ہے۔
افتتاحی نظامت میں اطہر سعید نے نہایت دل کش انداز میں اردو ڈرامے اور پارسی تھیٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اسٹیج ڈراموں کی ادبی و ثقافتی اہمیت پر گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر رمیش ایس لعل (لنک آفیسر، اردو اکادمی، دہلی) نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس فیسٹول کو تھیٹر سے وابستہ فنکاروں کے لیے ایک مثبت اور با مقصد پلیٹ فارم قرار دیا۔فیسٹول کے پہلے دن پریتی پریرنا فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پیش کیے گئے ڈرامے ’’بدھا اور غالب سے ملاقات‘‘ نے اپنے منفرد موضوع، مکالموں اور اداکاری کے ذریعے ناظرین کو مسحور کردیا۔ ڈراما ایک نوجوان شاعر کی خود شناسی کی کہانی ہے جو مرزا غالب کے کلام اور گوتم بدھ کے افکار سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ ایک طرف وہ غالب کے اشعار کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جانب بدھ کی تعلیمات اسے روحانی بصیرت عطا کرتی ہیں۔ڈرامے میں فلسفیانہ اور ادبی دونوں جہتیں اس خوبی سے یکجا کی گئی ہیں کہ ناظرین خود کو کرداروں کے احساسات میں شریک محسوس کرتے ہیں۔ جناب اشوک لال کی تحریر اور آشیش شرما کی ہدایت نے اس پیشکش کو مزید دلکش بنا دیا۔دھرمیندر، وکرم آدتیہ، پریرنا کشیپ اور دیگر فنکاروں نے اپنے کرداروں کو بھرپور انداز میں نبھایا، جبکہ مکالمے، اسکرپٹ اور منظرنامہ نہایت بامعنی اور مؤثر رہے۔
ڈرامے کےاختتام پر اردو اکادمی کے لنک آفیسرڈاکٹر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیرحسن قدوسی نے ہدایت کار آشیش شرما کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے ان کی کاوشوں کو سراہا۔تقریب میں اکادمی کے سابق سکریٹری انیس اعظمی، ڈاکٹر شبانہ نذیر، ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن، شیخ علیم الدین اسعدی، پروفیسر خالد علوی، پروفیسر رحمان مصور، فرحت احساس سمیت علمی و ادبی شخصیات اور تھیٹر کے شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔

Continue Reading

رجحان ساز

Copyright © 2025 Probitas News Network