دلی این سی آر
دہلی یونیورسٹی میں رن فار ون نیشن ون الیکشن میراتھن کا انعقاد
(پی این این)
نئی دہلی : دہلی یونیورسٹی میں رن فار ون نیشن ون الیکشن میراتھن کا انعقاد کیا گیا۔ اس میراتھن میں طلباءکے ساتھ مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان، دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور وزیر آشیش سود سمیت دیگر وزراءاور عہدیدار موجود تھے۔ سی ایم ریکھا نے انسٹاگرام پر پوسٹ کرکے تصاویر شیئر کیں۔ سی ایم ریکھا گپتا نے کہا کہ آج طلباءکے ساتھ بات چیت کرنا ایک شاندار تجربہ تھا۔ نوجوان طلباءکی توانائی، قوم کے تئیں ان کی لگن اور بہتر جمہوریت کے لیے ان کی آرزو نے میرے دل کو بہت متاثر کیا۔ یہ صرف ایک دوڑ نہیں ہے، یہ ایک خواب ہے۔
دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے کہا کہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ بننے والے "اسپیڈ بریکرز” کو ہٹانا ان کی ذمہ داری ہے۔ ‘ترقی یافتہ ہندوستان’ حاصل کرنے کا واحد راستہ ‘ایک قوم، ایک انتخاب’ ہے۔ انتخابات میں خرچ ہونے والی خطیر رقم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام صرف ایک بار خود کو منتخب کریں اور ملک کو کارکردگی کا موقع دینے کے لیے نئی اصلاحات کی بھی وکالت کی۔دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سی ایم نے کہا کہ ہر بار انتخابات پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پہلے لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، اس کے بعد چھ ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہوئے۔ ہزاروں سرکاری ملازمین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ انتخابات کے انعقاد میں مصروف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوام صرف ایک بار انتخاب کریں اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اصلاحات کرنی چاہئیں اور ملک کو بہتر کارکردگی کا موقع دینا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ 2047 ہمارے لیے ایک بڑا ہدف ہے۔ جب ہم ‘ترقی یافتہ ہندوستان’ اور ‘عالمی گرو انڈیا’ کی بات کرتے ہیں۔ تو اس کے لیے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے، وہ ہے ‘ون نیشن ون الیکشن’۔
دلی این سی آر
محلہ کلینک بند کرنے کی سازش کر رہی ہے بی جے پی:بھاردواج
(پی این این)
نئی دہلی :دہلی میں 200 محلہ کلینک کے بند ہونے کے بعد 95 مزید بند ہونے والے ہیں۔ دہلی حکومت کے اس فیصلے سے عام آدمی پارٹی ناراض ہوگئی ہے۔ پارٹی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ریکھا گپتا حکومت اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک کہ وہ دہلی کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو تباہ نہیں کر دیتی۔ سابق وزیر صحت سوربھ بھردواج نے کہا کہ میٹرو اسٹیشنوں اور مالز میں پریمیم شراب کے شو روم کھولنے کا منصوبہ ہے، اور محلہ کلینک بند کردیئے جائیں گے۔
عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے ریکھا گپتا حکومت پر حملہ کرتے ہوئے لکھا کہ ریکھا گپتا حکومت اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک کہ وہ دہلی کے بہترین صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تباہ نہیں کر دیتی۔ یہ پہلے ہی 200 سے زیادہ محلہ کلینک بند کر چکا ہے اور اب مزید 95 کو بند کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نہیں چاہتی کہ کسی کو مفت علاج اور دوائی ملے، لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور کیا جائے اور بی جے پی کے پسندیدہ صحت مافیا کو فائدہ پہنچے۔ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی دہلی حکومت اروند کیجریوال حکومت کے دوران قائم کیے گئے مزید 95 محلہ کلینک بند کرنے جا رہی ہے، جبکہ میٹرو اسٹیشنوں اور مالز میں پریمیم شراب کے شو روم کھولنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ AAP کی دہلی یونٹ کے صدر سوربھ بھردواج نے سوال کیا کہ جو مریض ان کلینکس پر انحصار کرتے تھے وہ اب علاج اور ادویات کے لیے کہاں جائیں گے۔
بھاردواج نے دعویٰ کیا، "حکومت نے پہلے کرائے کے احاطے میں چلنے والے کلینک کو بند کر دیا، پھر وہ دیگر صحت کی سہولیات کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں اور بعد میں 1.6 کلومیٹر کے دائرے میں رہنے والے، محلہ کلینک کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اپنے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دریں اثنا، وہ میٹرو اسٹیشن میں بڑے، چمکدار شراب کے شو رومز کو فروغ دے رہے ہیں۔”انہوں نے مزید کہا، "حکومت کو شراب نوشی کرنے والوں کی فکر ہے۔
وہ ہر جگہ شراب کی دکانیں اور شوروم چاہتے ہیں، یہاں تک کہ ہر میٹرو اسٹیشن اور مال میں بھی، شراب کے استعمال کرنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن غریب اور بزرگ لوگ جو محلہ کلینک سے شوگر، ذیابیطس، امراض قلب، اور بلڈ پریشر کی دوائیں باقاعدگی سے لیتے ہیں، انہیں اب میٹرو اسٹیشن پر کس کلو میٹر پیدل چلنا پڑے گا۔ یہ ایسی حکومت ہے جو اپنے عوام کا درد کیوں نہیں سمجھ سکتی؟
سوربھ بھاردواج نے بتایا کہ 2022 میں جب نئے ایل جی وی کے سکسینہ آئے تو انہوں نے زبردستی حکومت کے اچھے کاموں کو روکنا شروع کر دیا، جس سے عوام کو بھاری تکلیف اور نقصان اٹھانا پڑا۔ سیاسی مقاصد کے لیے انہوں نے 2022 کے بعد ہاسپٹل مینیجرز کی خدمات بند کروا دیں، کوئی برطرفی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ ان کی تنخواہیں روک دی گئیں اور پوری سسٹم کو تباہ کر دیا گیا۔
دلی این سی آر
شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے موضوع پر توسیعی لکچر
(پی این این)
نئی دہلی:شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی میں آج ’’علم العروض: اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت اہم توسیعی لیکچر منعقد ہوا جس میں عروض اور فنِ شعر کی باریکیوں کے ماہر پروفیسر احمد محفوظ (شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے اپنا پرمغز لیکچر دیا۔ پروگرام کی صدارت شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر محمد نعمان خان نے کی۔ اس سے قبل شعبۂ عربی میں توسیعی لیکچر کی روایت کا تذکرہ اور مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر سید حسنین اختر نے کہا کہ شاعری دراصل خیالات کو مؤثر اور خوبصورت موسیقیت کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور عالم خلیل بن احمد فَرّاہیدی نے اس فن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ فنِ عروض ایک مشکل فن ہے اور ہندوستان میں پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اساتذہ میں ہیں جو اس فن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ لکچر شعبہ کے طلبہ اور اسکالرز کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے لیکچر میں فنِ عروض کے تاریخی پس منظر، بنیادی اصولوں اور وزن و بحور کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’عروض‘‘ شعر کی موزونیت اور آہنگ کو جاننے کا فن ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاعری کے لیے اس فن کا جاننا ضروری نہیں، چنانچہ اس فن کے اصول مرتب کیے جانے سے قبل بھی عربی شاعری کا بڑا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعرا اپنی داخلی و فطری موسیقیت کا سہارا لیتے ہوئے موزون شاعری کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اشعار کی صحیح تقطیع اور ان کے فنی تجزیے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں اشعار کی موسیقیت و موزونیت کے ادراک میں دقت آتی ہے اور نغمگی کے احساس میں تردد ہوتا ہے، ایسے میں اس علم کی فنی نزاکتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ وتد، سبب، زحاف اور عروض کی ابجدیات اور اشعار کی تقطیع کے اصول فنکارانہ اور پرلطف انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ و اسکالرز میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کی اور سوالات کے جوابات دیے۔
پروفیسر محمد نعمان خان نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران عروض کو ایک عملی فن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاعری داخلی استعداد کا بیرونی اظہار ہے، اسی وجہ سے اسے الہامی کہا جاتا ہے۔ مہمان مقرر کے لیکچر کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موضوع کے تناظر میں پروفیسر احمد محفوظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے اور انہوں نے اس خشک موضوع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ بانیٔ فن کی علمی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیل فَرّاہیدی نے عربی زبان و ادب میں بےحد اہم کام کیے ہیں اور یہ فن ضرورت کی پیداوار ہے۔ البتہ موجودہ دور میں نثری شاعری کا رواج بھی عام ہے اور محض موسیقیت کی بنیاد پر شاعری کی جارہی ہے۔ عربی و سنسکرت کے درمیان مماثلت کا ضمنی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں زبانوں کی فیملی جدا ہیں اور اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں کہ خلیل فَرّاہیدی نے یہ فن سنسکرت سے اخذ کیا تھا۔
قبل ازیں پروگرام کے کنوینر و نقیب ڈاکٹر مجیب اختر نے مقرر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ ان چنندہ اہلِ علم میں شامل ہیں جنہوں نے اردو کے نامور ادیب و ناقد پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی سے کسبِ فیض کیا ہے، اور آج اردو ادب میں ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ پروگرام میں شعبۂ عربی کے سابق صدر پروفیسر نعیم الحسن، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر اصغر محمود، پروفیسر علیم اشرف، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، پروفیسر احمد امتیاز، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر مہتاب جہان، ڈاکٹر زین العبا، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر ابو تراب، ڈاکٹر محمد مشتاق اور ڈاکٹر غیاث الاسلام کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، اسکالرز اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔
دلی این سی آر
اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز کےایل سیگل کو پیش کیاگیا خراجِ عقیدت
(پی این این)
نئی دہلی:دہلی کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں آج شام اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری ڈراما فیسٹول کے پانچویں روز اُس وقت خاصی رونق دیکھی گئی جب پیروٹس ٹروپ نے اپنے نئے اسٹیج ڈرامے’’ترا راہ گزر یاد آیا (کے۔ایل۔سیگل)‘‘ کی شاندار پیشکش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم کی تحریر و ہدایت میں تیار یہ منفرد اسٹیج ڈراما ایک میوزیکل فکشن ہے جس میں حقائق اور تخیل کو بڑی خوبصورتی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ ملک کے معروف گلوکار کے۔ایل۔سیگل کی زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہوسکیں۔
ڈرامے کا عنوان مرزا غالبؔ کی غزل’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کے پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے سے ماخوذ ہے، جسے سیگل نے اپنی مترنم آواز میں گایا تھا۔ اس پیشکش کی خاص بات متعدد فنی و تکنیکی تجربات رہے۔ کہانی کو راوی کے ذریعے آگے بڑھانا اور اہم و بنیادی مناظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ پیش کرنا ایسے عناصر تھے جنہوں نے ڈرامے کی دلکشی میں اضافہ کیا۔ڈرامے میں جہاں سیگل کی زندگی کے ابتدائی مراحل ،ایک معمولی سیلزمین سے شہرت یافتہ گلوکار بننے تک،بڑے دلکش انداز میں دکھائے گئے، وہیں ان کی گائیکی کے مختلف ادوار، مشہور نغمات اور فنی جدوجہد کو بھی نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ ہر کردار اپنے زمان و مکان کے عین مطابق مکالمے ادا کرتا نظر آیا۔کلکتہ کے مناظر میں بنگلہ لب و لہجے کی لطافت اور چاشنی جھلکتی ہے، جبکہ مرادآباد اور کانپور کے مشاعراتی ماحول میں وہاں کا مخصوص اندازِ گفتگو پوری طرح برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دہلی اور ممبئی سے متعلق مناظر میں ان شہروں کی ثقافتی زبان اور مقامی لہجہ فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے ڈرامے کی حقیقت نگاری اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوا۔ کہانی میں مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سیگل کے عہد کی اہم شخصیات اور اُس دور کے بنگلہ و ہندی فنکاروں کے فنی اثرات کو بھی مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا سب سے دلکش و نمایاں پہلو معروف تھیٹر اداکار یش راج ملک کی شخصیت اور ان کی اداکاری رہی، جنہوں نے سیگل کا کردار بخوبی نبھایا۔ وہ نہ صرف سیگل کے مشابہ دکھائی دیے بلکہ ان کے مقبول نغموں، غزلوں اور بھجنوں کو براہِ راست اسی انداز میں پیش کرکے پورے آڈیٹوریم میں سیگل کے زمانے کی یاد تازہ کردی۔
یہ ڈراما کل چوبیس کرداروں پر مشتمل تھا، جن میں ایک مرکزی، چار معاون اور بیس ضمنی کردار شامل تھے۔ کہانی کی تشکیل سترہ مناظر پر کی گئی تھی، جن میں دو مناظر فلیش بیک تکنیک کے تحت پیش کیے گئے۔ ہدایت کار نے ڈرامے کا اختتام بھی نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جہاں سیگل کے آخری لمحات کو بے بسی اور درد کے ساتھ دکھایا گیا۔ڈراما مجروح سلطان پوری کی غزل پر مبنی اس مشہور نغمے’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، جسے سیگل نے اپنی آواز میں گایا تھا۔
آڈیٹوریم میں شریک ناظرین کا خیال تھا کہ یہ ڈراما نہ صرف ایک فن کار کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ ہندوستانی فلمی و موسیقی کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ ڈرامے کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ناظرین نے پیروٹس ٹروپ کی اس کامیاب پیشکش کو بھرپور سراہا۔
آخر میں اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار ڈاکٹر سعید عالم کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کرکے اس پیشکش کی قدردانی کی۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔
-
دلی این سی آر10 مہینے agoاقراءپبلک اسکول سونیا وہارمیں تقریب یومِ جمہوریہ کا انعقاد
-
دلی این سی آر10 مہینے agoجامعہ :ایران ۔ہندکے مابین سیاسی و تہذیبی تعلقات پر پروگرام
-
دلی این سی آر12 مہینے agoدہلی میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم تیز، 175 مشتبہ شہریوں کی شناخت
-
دلی این سی آر11 مہینے agoاشتراک کے امکانات کی تلاش میں ہ ±کائیدو،جاپان کے وفد کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دورہ
-
دلی این سی آر11 مہینے agoکجریوال کاپجاری اور گرنتھی سمان اسکیم کا اعلان
-
محاسبہ12 مہینے agoبیاد گار ہلال و دل سیوہاروی کے زیر اہتمام ساتواں آف لائن مشاعرہ
-
بہار6 مہینے agoحافظ محمد منصور عالم کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کرکے دی جائےسخت سزا : مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
-
محاسبہ12 مہینے agoجالے نگر پریشد اجلاس میں ہنگامہ، 22 اراکین نے کیا بائیکاٹ
