Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

قرآن کریم پوری دنیا کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے انسانی اذہان کے ایسے دریچے منور ہوتے ہیں جہاں اب تک تاریکی ہی تھی۔قرآن کریم میں ایسے ایسے راز پنہاں ہیں، جن کے منکشف ہونے پر انسان علم کے کمال تک پہنچ جاتا ہے قرآن کریم نے کائنات کو مسخر کرنے کی ترکیب دی ہے اور کائنات کے وجود میں آنے کا ذکر بھی ہے۔ سائنس کے بیش بہا خزانے بھی ہیں اور انسان کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لئے ہدایات بھی ہیں۔قران کریم کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ہر راستے کو قدرت تک پہنچاتا ہے۔ قرآن کریم کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مطالعے سے مغرب میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ عالمی ریسرچ اداراہ پی او کی تحقیق کے مطابق یوروپ اور امریکہ میں جس طرح لوگ اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں، اس کی خاص وجہ قرآن کریم کا مطالعہ اور قرآن پر ریسرچ ہے۔ قرآن کا ہر لفظ اپنے اندر ایک خزانہ رکھتا ہے، جس کو سمجھنے کے لئے علم و ذہن کی وسعت چاہیے۔ اسلام کے فروغ میں قرآن نے زبردست رول ادا کیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ عنہ بھی اسلام کے کٹر مخالفین میں تھے۔حالانکہ ان کے بہن بہنوئی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے اسی غم و غصہ میں وہ اپنی ہمشیرہ کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ گھر کے قریب انہیں قران کی تلاوت سنائی دی۔ قرآن کی تلاوت کی آواز جیسے ہی ان کے کانوں میں گئی کہ ان کے ذہن و دل پر ایسا اثر ہوا کہ وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ قرآن کریم کو سن کر امریکہ کی ایک انتہائی اعلی تعلیم یافتہ اور ٹیکساس کی راجدھانی آسٹن میں واقع سینٹ ایڈورڈنیورو سائنس کی پروفیسر نے جب قرآن کا مطالعہ کیا تو ان کا سارا علم و سائنس قرآن کے آگے مات کھا گیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ پروفیسر کو اسلام قبول کرنے کے بعد کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے اسلام کے فروغ میں جو رول ادا کیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ سینٹ ایڈورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر فیڈیلما اولیئری اب ایک دین دار عابدہ کے طور پر دین کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ وہ افریقی خواتین میں اسلام کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ قرآن کریم کی روشنی میں انہیں اسلامی پیغامات دے رہی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ، یوروپ میں مقیم افریقی خواتین میں اسلامی کتب کا مطالعہ خاص کر قرآن کریم کے پیغامات کا زبردست اثر ہو رہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کثیر تعداد میں مشرف بہ اسلام ہو رہی ہیں۔ فیڈیلما اولیئری اگرچہ ایک کیتھولک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں، مسیحی طرز پر ان کی نگہداشت بھی ہوئی تھی لیکن ان کے ایک دوست نے جب انہیں کلام پاک دیا تو قرآن کریم کے مطالعہ نے ادراک فہم کے ایسے دروازے وا کر دیئے کہ آج فیڈیلما اولیئری دین کی خدمت میں گراں قدر رول ادا کر رہی ہیں وہ یوروپ کی اسلامی تاریخ میں ایک ایسا روشن باب ہے، جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی، خاص کر خواتین میں اسلامی کی روشنی پھیلانے میں نیو رو سائنس کی پروفیسر اولیئری کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا، جن کا کہنا تھا کہ دین و ایمان کی حفاظت کرنا بھی جہاد کے زمرے میں آتا ہے اور دین کو فروغ دینا بھی جہاد ہی ہے۔ آج افریقہ اور یوروپ کی صورت حال یہ ہے کہ اولیئری کی کاوشوں سے افریقی خواتین میں اسلام کے تئیں دلچسپی میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ وہ دین کی خدمت کے لئے بھی آگے آ رہی ہیں۔ زیر نظر خصوصی ضمیمہ سینٹ ایڈورڈ یونیورسٹی کی نیورو سائنس کی پروفیسر اولیئری کی دینی خدمات اور علمی صلاحیت کا جائزہ لیتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ قرآن کریم کا مطالعہ انسان کے اذہان میں ادراک کے ایسے ایسے دریچے کھولتا ہے جس پر دنیا حیران ہو جاتی ہے:

جب اللہ تعالیٰ کسی سے دین کا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے دل میں اسلامی نور اور عزم مصمم پیدا کر دیتا ہے۔ جب وہ کسی شخص کو اسلام کی دولت سے نوازنا چاہتا ہے تو اس کے دل کو توحید کی ضیاء سے منور کر دیتا ہے، جو کسی بھی شخص کے مشرف بہ اسلام ہونے کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ ظہور اسلام کے بعد سے ہی کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے مذہب اسلام قبول کیا تھا۔ بذات خود پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مکہ کے مشرکین اسلام قبول کرنے کے خلاف تھے۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ بھی اسلام کے خلاف تھے۔ اپنی ہمشیرہ کے ذریعہ قرآن کریم کی تلاوت کئے جانے پر وہ چراغ پا ہو جاتے تھے اور انہوں نے اپنی ہمشیرہ کو قتل کرنے تک کا منصوبہ بنا لیا تھا لیکن جیسے ہی وہ اپنی ہمشیرہ کو قتل کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو قرآن کریم کی ایک سورۃ سن کر جہاں کھڑے تھے وہیں رک گئے اور قتل کرنے کا ارادہ ترک کرکے قرآن کریم کی تلاوت سننے لگے اور اس کے فوراً بعد اسلام قبول کر لیا۔ قرآن کریم کا یہی وہ معجزہ تھا کہ انہوں نے اس طرح سے اسلام قبول کیا کہ دین و دنیا میں ایک مثالی مقام حاصل کر لیا۔ جب کوئی غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوتا ہے تو اسے بھی بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدیم دور سے ہی یہ روش عمل میں آتی رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نو مسلموں میں اتنا تقویٰ پیدا کر دیتا ہے کہ وہ باطل قوتوں کو پست کر دیتا ہے۔ اگر کسی خاتون کے ضمن میں ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے لئے یہ عمل کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ 9سال قبل ایک خاتون اسی طرح کے حالات سے دوچار ہوئی تھی لیکن اس نے صبر و استقلال سے کام لیا اور آخرکار وہ ہمیشہ کے لئے اسلامی دائرہ میں شامل ہو گئی۔

اس خاتون جس کا نام فڈیلمااولیئری (Fidelma Oleary) تھا اگر وہ نقاب پوش نہیں ہوتی تھی تو اس کے نزدیک سے گزرنے والے افراد یہ قیاس آرائی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ ایک دین دار یا عابدہ ہے۔ وہ امریکی ریاست ٹیکساس کی راجدھانی آسٹن میں واقع سینٹ ایڈورڈ یونیورسٹی میں نیو رو سائنس کی پروفیسر تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے نفسیات کی پیچیدگیوں کے بارے میں لیکچر نہ دے کر نہ صرف اسلام کے بارے میں خطاب کیا تھا بلکہ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ اسلام قبول کرنے میں انہیں کتنی جد وجہد کرنی پڑی تھی۔ اسلام سے متعلق اس لیکچر کا عنوان تھا ”ایک مسلم خاتون کا جہاد“ جس کا اہتمام پہلی مرتبہ مسلم اسٹوڈینٹس ایسو سی ایشن نے کیا تھا۔

حالانکہ اولیئری آئرلینڈ کے ایک کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی تھیں اور مسیحی طرز پر ہی ان کی پرورش ہوئی تھی لیکن جب وہ 16سال کی تھیں تب ہی وہ مشرف بہ اسلام ہو گئی تھیں۔ اس وقت وہ قرآن کریم کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے واقف نہیں تھیں اور وہ قرآن کریم بھی انہیں ان کے ایک دوست نے تحفہ میں دیا تھا۔ اس کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کرکے انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ وہ سچے عقیدہ سے واقف ہوگئی ہیں اور اسلامی عقیدہ نصرانی عقیدے سے زیادہ پختہ ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ ”میں نے کبھی بھی مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ میں اپنے مذہب کی ہی پروردہ تھی لیکن میں نے کبھی بھی خدا کے وجود پر شک نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ ابراہیمی مذاہب کے منبع اور اقداری نظام میں یکسانیت ہے لیکن خدا وند قدوس کی عبادت کرنے کا طریقہ مختلف ہے اور یہی فیصلہ کن نکتہ تھا کہ ”اس بات کو سوچنے میں مجھے تین سے چار مہینے تک لگ گئے تھے۔“ اولیئری نے خود سے سوال کیا کہ حضرت عیسیٰ کون تھے؟ وہ بذات خود ایک بڑی طاقت (خداوند قدوس) کی عبادت کرتے تھے۔“

انہیں جس عقیدہ نے اپنی جانب متوجہ کیا وہ وحدانیت کا نظریہ، نوع انسان کے درمیان ایک ہی پیغام کی ترسیل، بنی نوع انسان کے درمیان مساوات کا درس اور پیغمبروں کی یکساں تعظیم وتکریم کرنے سے وابستہ تھا۔ اولیئری نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ ”اسلام میں ایسا نظریہ نہیں ہے کہ کوئی بھی پیدائشی طور پر بڑے رتبے والا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس جنت میں جانے کا ٹکٹ ہوتا ہے، ہم سب ایک دوسرے کے برابر ہیں، صرف ہمارا تقویٰ اور تقدس ہمیں ایک دوسرے سے برتر بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور پاکیزگی کی بنیاد پر انسانوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے“۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے مذہب تبدیل کر لیا ہے حالانکہ ان کے والدین نے نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ ان کی راہ میں رخنہ اندازیاں بھی کی تھیں تاہم وہ اپنے موقف اور اپنے فیصلہ پر قائم رہی تھیں۔ اسی لئے انہوں نے یہ کہا تھا کہ ”وہ میرا اولین جہاد تھا کیونکہ اس وقت میں اپنے والدین کا احترام کرنا بھی چاہتی تھی لیکن دوسری جانب مجھے اپنے عقیدہ کا احترام کرنا بھی لازم تھا۔“

جب اولیئری نے اسلام قبول کر لیا تھا تو وہ متحدہ ہائے امریکہ میں منتقل ہونے سے قبل ڈیڑھ سال تک آئرلینڈ میں قیام پذیر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ آئرلینڈمیں قیام کے دوران ان کے معاشرہ میں ایک بھی ایسا مسلمان نہیں تھا، جس سے وہ اپنے مذہب تبدیل کرنے کے تعلق سے اپنی جدو جہد بیان کر سکیں۔ اولیئری نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں جو سب سے مشکل کام لگا تھا وہ مقدس ماہ رمضان میں روزے رکھنا اور روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنا لگا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ مقدس عمل ان کے معمولات میں شامل ہو گئے تھے۔ اس وقت ان کے سامنے ایک دیگر پریشانی پیدا ہو گئی تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میری حمایت میں نہ تو اس وقت ایک بھی مسلم خاندان تھا اور نہ ہی ایسا مسلم معاشرہ تھا جو مجھے سمجھ سکے۔ میرے پاس صرف قرآن کریم تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے پیغامات نازل ہوئے ہیں، انہیں سے مجھے درس حاصل ہوا تھا۔“
مسلم اسٹوڈینٹس ایسو سی ایشن بورڈ کے ایک رکن اور Wiess کالج کے جو نیئر ظفیر خان کے ساتھ جب اولیئری نے تبادلہئ خیال شروع کر دیا تھا تو ان کے لئے اسلامی عقیدہ ہمت افزا ثابت ہوا تھا۔ اس سلسلے میں خان کا کہنا تھا کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد اولیئری میں اسلام کے فطری عقائد نہایت مضبوط ہو گئے تھے۔

اولیئری کا اسلام میں عقیدہ اس وقت مزید قوی ہو گیا تھا، جب انہوں نے 2003 میں فریضہ حج ادا کرنے کے لئے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ بین الاقوامی کشیدگی پیدا ہونے کے باوجود اپنے کمسن بچوں کو گھر پر چھوڑ کر وہ حج کے مبارک سفر پر روانہ ہو گئی تھیں۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا کہ ”مجھے کوئی بھی نہیں روک سکا تھا، یہاں تک کہ میں جنگ سے بھی خوفزدہ نہیں تھی۔ مجھے اگر کسی کا خوف تھا تو وہ اپنے خالق کا تھا۔“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”میں مسلمانوں کو جتنی جلدی ہو سکے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔ میں آج بھی اپنے معمولات زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مضبوطی کے ساتھ مسلسل جدو جہد کرتے رہنے کی زبردست خواہش رکھتی ہوں۔“

دریں اثناء یونیورسٹی آف پیٹرس برگ فیکلٹی کے رکن عارف جمال نے ایک دیگر لیکچر کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ افریقہ۔امریکی معاشرہ میں اسلام کے تعلق سے بنیادی جانکاری فراہم کرانے کا اہتمام کیا گیا تھا جوکہ مسلم اسٹوڈینٹس ایسو سی ایشن (ایم ا یس اے) اور سیاہ فام بیداری تنظیم (Black Awareness Organization) کے اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا ’نیو زویک‘ کی رپورٹ کے مطابق جن باشندوں کے پاس امریکی شہریت نہیں تھی انہیں چھوڑ کر امریکہ میں امریکی مسلمانوں کا تخمینہ 7 سے 8 بلین لگایا گیا تھا۔ چنانچہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان افریقہ۔امریکی باشندوں کا فیصد زبردست تھا، جن میں سیاہ فام افریقی بھی شامل تھے۔ اسی دوران کیمیکل اینڈ بایو میڈیکل انجینئرنگ کی طالبہ لا ٹویا ولیم (LaToya Williams) نے کہا تھا کہ ”مجھے اس مذہب میں دلکشی نظر آتی تھی لیکن میں اس مذہب کے اصولوں کی اس طرح سے جانکاری حاصل نہیں کر پائی تھی، جس طرح سے میں چاہتی تھی لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ اسلام افریقی کلچر سے کافی حد تک مناسبت رکھتا ہے۔ ظفیر خان نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ افریقہ میں اسلام ایک نیا مذہب نہیں ہے۔ 1000 سال قبل ہی مغربی افریقہ میں اسلام ظہور پذیر ہو گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ماہرین آثار قدیمہ نے جب ان مقامات پر کھدائی کی تھی جہاں پر مسلمان رہائش پذیر تھے تو انہیں وہاں سے بہت سے فوٹو گراف، افریقی طرز کی مسجدوں کے باقیات اور کچھ اسلامی طرز کے مدفن بھی ملے تھے۔

اپنے لیکچر کے دوسرے حصہ میں جمال نے جب افریقہ۔امریکی باشندوں سے اسلامی شناخت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس بات کی دلیل دی تھی کہ آج کے دور میں معاشرہ کے رجحان میں تبدیلی رونما ہوئی ہے، اب غلامی کی جگہ بھائی چارہ نے لے لی ہے۔ اب یہ مسلمان اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم اسٹوڈینٹس ایسوسی ایشن کی تقریب میں نمائندگی کرتے ہوئے ایک ریسرچ اسکالر روزانہ حسین نے کہا تھا کہ یہ لیکچر ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ مفید ہے جوکہ افریقہ۔امریکی تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھر انہیں اسلام سے ان کے تعلق ہونے کے بارے میں علم نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”اس میں لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور میں اسلام اور افریقہ۔امریکی ربط کے بارے میں اور زیادہ جانکاری حاصل کرنا چاہتی ہوں۔“

آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ اور یوروپ میں رہائش پذیر افریقی خواتین اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد اکثر مشرف بہ اسلام ہو رہی ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے معاشرہ یا اہل خانہ کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے تاہم وہ استقلال کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہتی ہیں۔ اسی لئے اسلام قبول کرنے والی خواتین اپنی جدو جہد کو ’جہاد‘ سے منسوب کر رہی ہیں اور دین و ایمان کی حفاظت کرنا بھی جہاد کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ قدیم دور میں اسلام کے فروغ میں خواتین کا زبردست رول رہا تھا اور آج بھی جن خواتین کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے وہ بھی حالیہ دور میں اپنی پیشرو خواتین کی تقلید کر رہی ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close