Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

مورو مسلم اسلام کے وفادار سپاہی

اسلام جب عرب کے صحرا سے نکل کر دنیا کے دیگر حصوں کی طرف مائل بہ سفر ہوا، تو اپنے پیچھے اپنی مخصوص تہذیب و معاشرت، اسلامی تشخص، تاریخ و تمدن کے گُل بوٹے بھی لے گیا۔ اسلام جہاں جہاں گیا، وہاں اس نے اپنے تہذیبی پس منظر کو برقرار رکھا۔ تجارت سنت رسول ہے، وہ اس سنت کی تقلید کرتا ہوا جہاں دنیا کے آسمانِ تجارت پر چھا گیا، وہیں اپنے دین کے فروغ کو بھی کمال دینے میں سرگرم رہا۔ مسلمانوں کی جدو جہد اپنی زندگی سنوارنے کے لئے ہی نہیں رہی، بلکہ اپنے دین کو بھی جلا بخشنے کا کام مسلمان ایک فریضہ سمجھ کر ادا کرتے رہے۔ یہ اسلام کے فروغ کا عجیب وغریب کرشمہ ہے کہ عرب سے نکلا ہوا وہ مذہب قطب شمالی، قطب جنوبی کے ان خطوں میں بھی پہنچ گیا، جہاں دنیا کا کوئی مذہب اپنا پرچم بلند نہیں کر سکا تھا۔ مسلمان جہاں اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے دنیا کا سفر کر رہے تھے، تو وہ اس سفر میں اپنے دین کو بھی روشن کرکے دیگر قوموں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی طرز رہائش، معاشرہ اور عبادت کرنے کا طریقہ دیگر قوموں کو بھی متاثر کرتا رہا اور وہ قومیں اسلام سے جڑتی گئیں۔ زیر نظر مضمون میں فلپائن میں اسلام کی روشنی پہنچانے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ فلپائن کی تاریخ کے تناظر میں اسلام کی تبلیغ و ترسیل کا جو تاریخی منظر نامہ ہے اس کی بھرپور عکاسی اس مضمون میں نظر آتی ہے۔ فلپائن میں اسلام کی آمد مسلمانو ں کا عروج اور پھر فروغ دین کے لئے کوششیں، گو کہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، لیکن اس مضمون میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ فلپائن میں اشاعت دین، مسلمانوں کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کا جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اس سے اسلامی تاریخ کے طلبا نئی روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔ پیش ہے فلپائن کے تناظر میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے عروج کامل کے درمیان دین کی خدمت کی داستان جو ہمیں یہ بھی تلقین کرتی ہے کہ اسلام اور مسلمان جد و جہد کا بھی ایک ایسا نام ہے، جس میں قدرت کی بھی مدد شامل ہوتی ہے اور حالات کی بھی۔

اسلام ایک منظم مذہب ہے ایک مکمل نظام حیات بھی ہے، جس کے اثرات پوری دنیا میں پھیلے ، 15ویں صدی میں عرب اور مَلے (Malay) کے مسلم تاجران کی آمد کے ساتھ ہی فلیپائن میں اس کا ظہور ہو گیا تھا۔ 1380 میں مسلم مبلغ کریم المخدوم سولو آرکیپیلا گو (Sulu archipelago) اور جولو (Jolo) میں پہنچے تھے اور وہاں پر اسلام کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ آج اس ملک کو ہم فلیپائن کے نام سے جانتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیخ کریم المخدوم مسجد فلپائن کی اولین مسجد ہے، جو کہ سمونل (Simunal) پر تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس کے بعد جب عرب کے مسلم مبلغین ملیشیا اور انڈونیشیا سے آنے جانے لگے تھے تو فلیپائن میں عقیدۂ توحید کو تقویت ملنے لگی تھی۔ اس ملک کے جنوبی خطے میں حالانکہ اسلام کو زیادہ فروغ ملا تھا، تاہم شمال کی جانب منیلا (Manila) تک اسلام کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ اسی دوران میگنڈانائو (Magandanao) اور سولو (Sulu) سلطنتوں کے انضمام سے ایک بڑی سلطنت قائم ہو گئی تھی۔ چونکہ مَلے، آرکیپیلاگو، ملیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن کے مختلف علاقوں میں جن اولین افراد نے خود کو بطور سلطان مستحکم کرلیا تھا، وہ بنیادی طور پر عرب نژاد تھے اور ان میں سے بھی زیادہ تر افراد کا تعلق عرب کے شاہی حسب نسب سے ہی تھا۔

جنوب مشرقی ایشیا میں تجارت سے ہی اسلام کا سب سے زیادہ فروغ ہو اتھا۔ مسلمان تاجروں کو صرف تجارت میں ہی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ روحانی زندگی کے پہلوئوں پر بھی عمیق غور کرتے تھے۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا تھا۔ اس سے قبل وہ اسلامی تعلیمات سے واقف نہیں تھے۔ اس وقت شمالی سماترا ایسا جزیرہ تھا کہ وہاں پر ہندوستان اور مغربی ممالک سے آرکیپیلاگو کے لئے تجارتی راستہ جاتا تھا۔ اس لئے جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے پہلے اسلام نے یہاں پر روشنی پھیلائی تھی۔ ملاکا (Malacca) جو کہ 15ویں صدی میں اس خطہ کا اہم ترین تجارتی مرکز تھا وہاں پر زبردست طریقہ سے اسلامی عقیدہ پختہ ہو گیا تھا۔ سولو سلطنت ان مالے لیڈروں کی وجہ سے مضبوط ہو گئی تھی، جنہوں نے وہاں کے باشندوں کی سیاسی اور اقتصادی معاونت کی تھی اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔ انہیں لوگوں کے درمیان ایک دیگر مخصوص شخص بھی تھا۔ یہ شخص سماترا کا شہزادہ راجہ باگوئنڈا (Baguinda) تھا، جو کہ کچھ لوگوں کے ایک گروپ کے ہمراہ 1390میں فلپائن آیا تھا۔ ان تمام لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر وہ بووانسا (Buwansa) میں آباد ہو گئے تھے، جو کہ بعد میں سولو کی اولین راجدھانی بن گئی تھی۔ ابتدائی دور میں جو مبلغین فلپائن آئے تھے، وہ یہاں مخدومین کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہی وہاں کے مقامی باشندوں کو اسلامی تعلیمات دے کر راہ راست دکھایا تھا۔ دو صدی قبل جب فلپائن میں مغربی نوآباد کار آگئے تھے، تو اس وقت بھی وہاں پرمسلمان نہ صرف مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے بلکہ ان کی باضابطہ او ر منظم حکومت بھی تھی اور اپنے اقتدار کے عروج کے دوران انہوں نے وہاں کی حکومت کو کثیر جہتی حصولیابیوں سے ہمکنار کر دیا تھا۔

وہاں کا سلطان نہ صرف ایک سیاسی اور مذہبی رہنما تھا بلکہ وہ مذہب اسلام کا محافظ بھی تھا۔ جب وہاں پر سامراجی ممالک اسپین اور امریکہ کے لوگ آنے لگے تھے تو انہوں نے نو آبادکاری کی کوششیں شروع کر دی تھیں، جن کی وجہ سے سلطان کمزور ہو نے لگا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں نے اسپین کے نو آبادکاروں کی بلند حوصلہ اور ہمت کے ساتھ مذاحمت کی تھی، لیکن انہیں سماجی اور اقتصادی شعبے میں خسارہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی معیشت نہ کے برابر ہو کے رہ گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسایس (Visayas) اور لوژون (Luzon) کے باشندے اسپین کے نوآبادکاروں کے زیر اثر ہو گئے تھے، جبکہ مسلمانوں نے تائو (Tau)، ابان (Iban) اور اگاما (Agama) میں قومیت، عوام اور اپنے مذہب کا دفاع کرنا جاری رکھا تھا۔ اسپین کی نو آباد کاری سے لے کر امریکی تسلط تک تمام مسلمان اپنے اسلامی عقیدہ پر ثابت قدم رہے تھے۔ جب کبھی بھی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ بیرونی طاقتوں کے غلبہ اور استحصال کرنے کی روش کے بادل ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں تو ان کے پاس صرف ایک ہی چارہ رہ گیا تھا کہ مذہبی بیداری سے داخلی امور کو تقویت دی جائے۔ جب عمیق اسلامی بیداری ایک تحریک بن گئی تو بنگساٹنگل (Bangsa Tungal) میں مورو (Moro) قبائل اسلام کے آفاقی ’امااسلامیہ ‘ نظریہ کے حامل ہو گئے تھے، جو کہ پوری دنیا میں اسلامی بھائی چارہ کا زبردست ضابطہ ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب پوری دنیا میں اسلام سایہ فگن ہو گیا تھا تو اسی کے ساتھ فلپائن کے مسلمانوں میں اتحاد اور یکجہتی کا جذبہ مزید مستحکم ہو گیا تھا۔ 1970کی ابتدائی دہائی میں جب زیادہ سے زیادہ مبلغین اس ملک میں آئے تو اسی تناسب میں فلپائن کے مسلمان بیرونی ممالک میں جانے لگے تھے۔ چنانچہ جب وہ اپنے وطن واپس آتے تو ان کا اسلامی عقیدہ مزید پختہ ہو جاتا تھا۔ لہذا، انہوں نے سوچا تھا کہ وہ بین الاقوامی اسلامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر مورو (Moro) طبقہ سے اپنے تعلقات استوار کریں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے بہت سی نئی مساجد اور نئے مدارس تعمیر کرائے تھے، جہاں پر طلبا اور طالبات نہ صرف اسلام کے بنیادی ضابطوں اور روایتوں کی تعلیم حاصل کرتے تھے، بلکہ قرآن کریم کا درس بھی حاصل کرتے تھے۔

اسی دوران اعلی تعلیم کے اسلامی ادارہ جیسے ’جمیعتہ فلپائن ال اسلامیہ‘ مراوی (Marawi) میں کھولا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے، جہاں پر ایڈوانس اسسٹڈیز کے کورسسز بھی چلائے جاتے ہیں۔ اس وقت تمام مورو (MORO) طبقات ملک کے جنوبی علاقے، جنوبی اور مشرقی منڈانائو Mindanao جنوبی پلاون (Palaowan) اور سُولُو آرکیپیلاگو تک ہی محدود تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مورو نسلی گروپ کے اندر 10ذیلی نسلی گروپ ہیں جو کہ ما قبل تاریخ تائیوان کے ان مہاجرین کے ورثائ تھے، جنہوں نے فلپائن اور میری ٹائم جنوب مشرقی ایشیا کے بقیہ علاقوں میں رہائش اختیار کی تھی۔ ان تمام افراد کی زبان و کلام کی بنیاد پر شناخت کی جا سکتی ہے۔ ان گروپوں میں سے تین گروپوں کی وجہ سے مورو طبقہ اکثریت میں ہو گیا تھا۔

اس میں شمالی کوٹاباٹو آف بیگو ینڈانائو (Maguindanos of North Cotabato) سلطان قدرت، میگوینڈانائوس صوبہ، 2لانو (Lano) صوبوں کے موراناؤس
(Moranaos) اور خصوصی طورپر جولو (Julo) جزیرہ تو سگس (Tausugs) شامل تھے۔ جبکہ چھوٹے گروپ میں ساملس (Samals) باجوس (Bajaus) اور خصوصی طور پر زیمباونگاڈیل سر (Zambaoanga delsur) صوبہ، الانس (Ilanons)، سنگیر (Sangir) آف جنوبی منڈانائو (Mindanao) خطہ، جنوبی پلاون (Palowan) کا میلابگنانس (Melabugnans) اور ایک چھوٹے جزیرہ کا گائن (Cagayan) کا جامامیپن (Jama Mapun) شامل ہیں۔ مورو معاشرہ کا روایتی طرز سلطان کی مناسبت سے ہوا کرتاتھا کیونکہ وہ سیکولر اور مذہبی رہنما تھے، لیکن یہاں کے معاشرہ میں داتو (Datu) لیڈر ہو اکرتے تھے، جو کہ مورو سوسائیٹی میں مسلسل مرکزی رول ادا کیا کرتے تھے۔ امریکہ کے ذریعہ نافذ کئے گئے بیورو برائے غیر مسیحی قبائل کے خاتمہ کے بعد 1946میں جب آزادی ملی تو فوری طور پر اقلیتوں کے تعلق سے اور لوگوں کو گنجان آبادیوں جیسے سینٹرل لوژون (Luzon) سے منڈانائو (Mindanao) جیسے کھلے سرحدی علاقوں میں ہجرت کرنے کے لئے حکومت نے نئی قومی پالیسیاں وضع کر دی تھیں۔ آزادی کے فوراً بعد فلپائن کی حکومت اس بات کو سمجھ گئی تھی کہ مسلم طبقہ سے متعلق امور کی نگرانی کرنے کے لئے ایک خصوصی ایجنسی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ 1957میں قومی کمیشن برائے یکجہتی قائم کیا گیا تھا اور بعد میں اس کی جگہ آفس آف مسلم افیئرز اینڈ کلچرل کمیونیٹیز قائم کر دی گئی تھی۔

ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے ایک پیش رفت اس وقت ہوئی تھی، جب 1990میں مسلم منڈانائو میں ایک خود مختار ریاست قائم کی گئی تھی، جہاں پر قومی سیکورٹی اور امور خارجہ کے علاوہ مسلمانوں کو اقتدار کے ہر شعبہ پر کنٹرول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ فلپائن میں مورو طبقہ کثیر لسانی اور نسلی گروپوں سے تعلق رکھتا ہے، جو کہ اس ملک کی کل آبادی کے 5.25فیصد ہیں۔ 2005کی مردم شماری کے مطابق وہ اس ملک میں سب سے بڑے چھٹے نسلی گروپ میں ہیں۔ مورو (Moro) طبقہ کی روایتی طور پر نمائندگی یا تو سلطان کرتا ہے یا پھر داتو (Datu) کرتا ہے۔ مسلم منڈانائو میں خود مختار خطہ (’Autonomous Region in Muslim Mindanaos ‘ARMM) کا سربراہ ایک ریجنل گورنر ہو تا ہے، جو کہ اپنے نائب گورنر کے ہمراہ تمام انتظامی امور دیکھتا ہے۔ اے آر ایم ایم میں ایک ’یک ایوانی‘ پارلیمنٹ ہو تی ہے، جو کہ ریجنل اسمبلی پر مبنی ہو تی ہے، جس کا سربراہ اسپیکر ہوتا ہے۔ اس وقت اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد 24 ہے، جن کا انتخاب مورو طبقہ کرتا ہے اور وہ مکمل طور پر مشرف بہ اسلام ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close