Khabar Mantra
محاسبہ

جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا

محاسبہ..............سیدفیصل علی

 

27مارچ سے ہونے والا پانچ ریاستوں کا انتخاب 2024کے لوک سبھا چنائو کا مقدر طے کرے گا۔مودی کا اقبال بلند رہے گا یازوال پذیرہوگااس کا اشارہ ان ریاستوں سے ملے گا مگر ان پانچ ریاستوں میں آسام اور تمل ناڈو میں بی جے پی کا اقتدار برقرار رہے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ حالانکہ جو سروے آرہے ہیں اس میں تمل ناڈو اور آسام میں بی جے پی کی واپسی کے واضح امکانات نظر نہیں آرہے ہیں ، اینٹی کمبینسی نے جہاں تمل ناڈو کی پلانی سوامی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔وہیں اسٹالن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور آسام میں تو شہریت قانون ، این آر سی اور اینٹی کمبینسی لہر نے سونووال حکومت کے گلے میں ایسی ہڈی ڈال دی ہے جسے نکالنا مشکل ہورہا ہے ،این آر سی ، سی اے اے کی مخالفت وہاں کے این ڈی اے میں شامل آسام گن پریشد اور رآر ڈی پارٹی بھی کررہی ہے تو تیسری حامی جماعت بوڈوپیپلز فرنٹ)بی پی ایف(بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس گٹھ بندھن کا دامن تھام چکی ہے۔ چنانچہ این ڈی اے میں خلفشار کے دوران آسام بچانا بی جے پی کے لئے ایک بڑا چیلنج سے کم نہیں ہے۔

پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں آسام میں بی جے پی کو پہلا جھٹکا لگتا نظر آرہا ہے۔ چونکہ بوڈو پیپلز فرنٹ کے لیڈر مولیہاری کی این ڈی اے سے علیحدگی نے بی جے پی کا کھیل بگاڑدیاہے۔کیونکہ آسام کی سیاست کی ایک روایت رہی ہے کہ 2005کے بعد سے بوڈو پیپلز فرنٹ لگاتار گزشتہ تین اسمبلی انتخابات میں جس گٹھ بندھن کے ساتھ رہی ہے اسی کے سر پر جیت کا سہرا سجتا رہا ہے۔ مولہاری کی قیادت والی بوڈوپیپلز فرنٹ نے 2016کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا دامن تھاما تھا اب وہ پھر سے کانگریس گٹھ بندھن کے ساتھ لوٹ آئی ہے جس سے آسام میں بی جے پی کی تاجپوشی کی تجدید پر سوال کھڑا ہوچکا ہے۔

ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ آسام میں بھی ہندوتو نے بی جے پی کی رگوں میں کافی توانائی بخشی ہے ایک طرح سے آسام میں سرکار بننے کی بڑی وجہ اس کا دھارمک پولرائزیشن ہے۔ مگر اب  منظرنامہ بدلتا جارہا ہے ، پیٹ کی آگ، مفلسی، بے روزگاری ،مہنگائی،تیل کی مار ، کورونا بحران نے عام ذہن کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے جہاں دھارمک انتہاپسندی حاشیہ پر چلی گئی ہے۔ علاوہ سی اے اے اور این آر سی کے نام پر اٹھایا گیا فتنہ اب خود بی جے پی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بی جے پی حامی جماعتیں آرڈی اور آسام گن پریشد اس کی مخالفت کررہی ہےں۔ تیسری طرف کانگریس نے بھی اپنی غلطی سدھار لی ہے ۔2016میں یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کو اچھوت سمجھنے والی کانگریس کے لئے بدرالدین اجمل ایک امید کی کرن بن کر ابھرے ہیں۔ یو ڈی ایف اب 2021کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی قیادت والی مہاگٹھ بندھن کا حصہ بن چکی ہے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کا ووٹ کانگریس اور یو ڈی ایف میں تقسیم ہونے کی وجہ سے بے وزن ہونے سے بچ گیا ہے۔ ویسے بھی 2016کے الیکشن میں کانگریس کو 31فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بی جے پی 27فیصد ووٹ حاصل کرچکی تھی لیکن دیگر جماعتوں کو 31فیصد ووٹ ملے ۔ اس طرح 126سیٹوں والی آسام اسمبلی میں بی جے پی کو 58سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ کانگریس کو 37سیٹیں ملیں ، یوڈی ایف کو 11اور آسام گن پریشد کو 12سیٹیں ملیں، بوڈو پیپلز فرنٹ کو 11سیٹیں ملیں اور پھر بوڈو پیپلز فرنٹ نے کنگ میکر کا رول ادا کیا۔ بی جے پی کے سونووال کے سرپر آسام کا تاج رکھ دیا۔ لیکن اب وہی بوڈوپیپلز فرنٹ اور یونائیٹڈڈیموکریٹک فرنٹ اب کانگریس گٹھ بندھن کے ساتھ ہےں اس کے باوجود آسام میں بہار کی طرح کوئی کھیل ہوجاتا ہے تو اسے تگڑم یا چمتکار ہی کہا جاسکتا ہے۔

آسام میں بی پی ایف پرجہاں کنگ میکر کا لیبل لگایاجاتاہے تو آج یوڈی ایف کو بھی وہی اہمیت حاصل ہے۔ گرچہ یوڈی ایف کے نام پر بی جے پی ہندوتو کا کارڈ کھیلتی رہی ہے ، یوڈی ایف بی جے پی کے لئے ترپ کا پتہ رہی ہے مگر آج کے دور میں یہ ترپ کا پتہ بھی بے اثر ہوچکا ہے۔ کورونا ، مہنگائی، بے روزگاری نے آدمی کو آدمی کے جامے میں واپس لادیا ہے۔ آسام پرانے دور کی طرف لوٹ رہا ہے ، نفرت کی آندھی بہت کمزور ہوچکی ہے ،آسام کا مسلمان ایک بار پھر بادشاہ گر کے طور پر کانگریس کے سر پر تاج رکھنے کو تیار ہے۔

آسام کی مجموعی آبادی 3کروڑ 60لاکھ سے اوپر ہے جہاں 1.92کروڑ ووٹر ہیں۔ آسام میں جہاں ہندوؤں کی آبادی 61فیصد ہے تو مسلم آبادی 34فیصد ہے ،عیسائی4فیصد تو سکھ ایک فیصد ہیں۔ آسام کے 34اضلاع میں 9اضلاع مسلم اکثریتی اضلاع ہیں۔ بوگائی گاؤں میں 51فیصد ،ڈھبری میں 70فیصد ،بارہ پیٹا میں 70فیصد ، درانگ میں 71فیصد، ہیلاکانڈی میں 65فیصد، گوال پاڑا میں 58فیصد ، کریم گنج میں 57فیصد،موری گائوں میں 56فیصد اور جنوبی سالمارا تو ایسا علاقہ ہے جہاں 96فیصد مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ بھی 7ایسے اضلاع ہیں جہاں کے مسلم ووٹر کانگریس کی فتح کا ضامن بنتے ہیں۔

چنانچہ اب کانگریس لیڈرشپ نے نئی حکمت عملی کے ساتھ آسام میں بساط بچھائی ہے۔ راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی سمیت کئی  لیڈران سب سے زیادہ توجہ آسام پر دے رہے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے قلعہ کی واپسی کی جتن کررہے ہیں۔ پرینکا گاندھی آسام کی ثقافتی شناخت بچانے اور آسام کے عوام کی پہچان کو برقرار رکھنے کے ایشو زکے ساتھ دھواں دھار جلسے کررہی ہیں۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اگر سرکاربنی تو سی اے اے ، این آر سی کی واپسی کے لئے نیا قانون بنایا جائیگا اسی طرح کانگریس نے آسام میں ہر عورت کو 2000روپے ماہانہ اور روزگار میں 50فیصد ریزرویشن کا وعدہ کیا ہے۔ ادھر بی جے پی بھی اپنے قلعہ کو بچانے کے لئے ہندوتو کا کارڈ کا کھیل کررہی ہے ،این آر سی اور سی اے اے کا رٹا ّلگا رہی ہے ، مودی نئے نئے منصوبوں کا اعلان کررہے ہیں آسام سے بنگال تک قومی شاہراہ کا جال بچھانے کے لئے بجٹ میں خطیر رقم کااہتمام بھی ہوا ہے۔مگر اس کے باوجود سوال تو یہ ہے کہ کیا بی جے پی آسام میں اپنا قلعہ بچا پائے گی۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ 2016کے مودی لہر میں بھی بی جے پی آسام اکثریت کے جادوئی آ نکڑے تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ تو کیا آج کے حکومت مخالفت لہر میں بی جے پی کے اقتدار کا چراغ دوبارہ جل سکے گا؟بقول محشر ؔ بدایونی

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close