Khabar Mantra
محاسبہ

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

محاسبہ...........................سید فیصل علی

سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ میں انصاف کی گیند ثالثوں کے پالے میں ڈال کر ایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اس انوکھے قدم کا مسلم فریق نے سب سے پہلے خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ سے لے کر تمام ملی و مذہبی تنظیموں نے عدالت کے اس مثبت رخ سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مصالحت سے اس پیچیدہ مسئلہ کا حل نکلتا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی۔ حالانکہ ثالثی کی کوشش پر ہندو فریقین میں شدید ناراضگی دکھائی دی۔ نرموہی اکھاڑا اور رام للا کے وکلاء نے اس کی مخالفت کی تو عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ کو پر امن طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کو ناکام نہ کریں کیونکہ یہ معاملہ صرف حق ملکیت کا نہیں دو فرقوں اور کروڑوں عوام کے جذبات اور اعتقاد کا معاملہ بھی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں پہلے کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ صرف ملکیت کا ہے اور اسی پر فیصلہ آئے گا لیکن اب جذبات اور اعتقاد کے معاملہ کی سپریم کورٹ میں گونج ایک تشویش پیدا کرتی ہے اور فریقین کو بھی راضی کر چکی ہے سو ایودھیا معاملہ ثالثوں کے حوالے ہے۔ جسٹس کلیف اللہ کی قیادت والا ثالثی پینل آٹھ ہفتہ میں اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو سونپے گا اور پھر اس پر عدالت کی مہر لگے گی۔ عدلیہ کے ذریعہ ثالثی کی اس نئی روایت سے میرے ذہن پر منفی اور مثبت سوچ کی ایک یلغار سی ہے۔ مثبت بات تو یہ ہے کہ ثالثی پینل کو رپورٹ سونپنے کے لئے آٹھ ہفتوں کی مہلت دی گئی ہے۔ یہ ایک دور اندیش فیصلہ ہے۔ ان دو مہینوں میں لوک سبھا انتخابات بھی مکمل ہو جائیں گے اور سیاسی بازی گر بھی الیکشن میں اس ایشو کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

دوسری سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ایودھیا معاملہ میں ثالثی کے دوران میڈیا کی رپورٹنگ پر پوری طرح قدغن لگا دی گئی ہے۔ نہ پرنٹ میڈیا کو اس ایشو پر کچھ شائع کرنے کی اجازت ہے نہ ٹی وی چینلوں کو ملک کے سب سے حساس مسئلہ پر چیخ پکار کرنے کا موقع ملے گا۔ وقت کا یہ بھی عجیب تقاضہ ہے کہ ملک کے سب سے حساس اور پیچیدہ ایشو پر اینکر حضرات آستین چڑھائے چیخنے چلانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہیں گے کیونکہ تمام فریقین کو مکمل طور پر رازداری برتنے کے لئے پابند کیا گیا ہے۔ ثالثی کا پورا عمل بند کمرے میں ہوگا۔ وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ اس عمل کی مانیٹرنگ کرتا رہے گا تاکہ کہیں سے اس ایشو کا سیاسی فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔ 2019 کے الیکشن میں اس کا استعمال نہ ہو سکے۔ ایک اچھی بات تو یہ ہے کہ عدالت نے فریقین کو تحمل کے ساتھ ماضی کی باتوں کو دہرانے اور تاریخ کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی اپیل کی ہے لیکن تمام تر مثبت امکانات کے تناظر میں یہ فکر آمیز تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں نظام عدل کمزور ہو رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں عدالت بے بس نظر آ رہی ہے اور اپنا فیصلہ دینے سے گریزاں ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ آئینی بینچ سماعت، دلائل، ثبوت، شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیتی۔ فیصلہ خواہ کسی کے حق میں ہوتا لیکن ثالثی کی یہ نئی روایت جیوڈیشیل سسٹم کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ نظام عدل و قانون میں یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ جج صاحبان گھبرا رہے ہیں، عدالت ایودھیا معاملہ میں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دینے کے بجائے ثالثی کرا رہی ہے۔ یہی بات دل میں خلش پیدا کر رہی ہے۔

ایودھیا معاملہ میں ثالثی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل اور شہادت کے بعد بھی ثالثی کی پیش رفت ہو چکی ہے اور سب بے نتیجہ رہیں۔ 1990 میں چندر شیکھر کے دور اقتدار میں شردپوار، راجستھان کے وزیر اعلی بھیروں سنگھ شیخاوت وغیرہ کی قیادت میں ثالثی کی کوشش ہوئی لیکن ناکامی مقدر بنی۔ نرسمہا راؤ کے دور میں بھی ثالثی کے غبارے میں ہوا بھری گئی۔ کانچی دواریکا اور پوری کے شنکر آچاریوں سمیت سبودھ کانت سہائے کو ذمہ داری ملی لیکن یہ بھی نااتفاقی کی نذر ہوئی۔ 2010 میں بھی الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ثالثی کا ماحول بنانے کی کوشش کی تھی مگر فریقین کے وکیلوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ 2017 میں جسٹس کیہر نے بھی فریقین کو مصالحت کی تلقین کی لیکن یہ تلقین بھی ناکام رہی لیکن اب سپریم کورٹ نے ثالثی پینل تشکیل کر دی ہے۔ یہ پینل کامیاب ہوگا یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ اول تو یہ سپریم کورٹ کا تھوپا ہوا پینل ہے، جس میں کئی فریق تیارنہیں، جس کے سربراہ ایک مسلمان ہیں، اگر انہوں نے انصاف کے لئے مسلمانوں کے حق کی بات کی تو کیا وہ لوگ مان جائیں گے جو سپریم کورٹ کے مخالف فیصلہ کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور اس ثالثی کے ناکام ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس پینل میں ایک متنازع اور جانبدار شخص بھی شامل ہے جو پہلے بھی ذاتی طور پر ایودھیا معاملہ میں ثالثی کے لئے آگے آیا تھا، جس کی خود مہنتوں نے مخالفت کی تھی۔ پینل میں شامل روی شنکر نے کہا تھا کہ اگر مسلمان ایودھیا میں اپنا دعوی نہیں چھوڑتے تو ہندوستان بھی شام بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے متنازع اور جانبدار شخص کو پینل میں شمولیت پینل کو ہلکا کرنے کی کوشش ہے اور پینل کی غیر جانبداری پر سوال پیدا کرتا ہے جیسا کہ اسدالدین اویسی نے بھی روی شنکر کی کارکردگی اور ان کی متنازع فکر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ستر برسوں میں جو معاملہ عدالت سے حل نہیں ہو سکا۔ تیس ہزار صفحات کا ترجمہ اور ثبوتوں کی جانچ پرکھ باقی ہے، ایسے عالم میں یہ ثالثی کمیٹی کس طرح آٹھ ہفتہ میں مصالحت کی راہ نکالے گی۔ جسٹس کاٹجو کی تشویش بھی بجاہے کہ ثالثی کا معاملہ میرے لئے بعید از قیاس ہے۔

تلخ نوائی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ صلح صفائی یا ثالثی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ثبوت اور شواہد، قانون و انصاف، حق اور ناحق کی زیادہ بات نہیں ہوتی، بلکہ صرف مصالحت کی بات ہوتی ہے۔ انصاف کی نہیں دباؤ کا دبدبہ چلتا ہے۔ کمزور کو دعویٰ چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ یہ ہمیں دے دو۔کچھ لو کچھ دو کی باتیں ہوتی ہیں۔ اب ایسے عالم میں سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل دی گئی اس ثالثی پینل کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور ایسے میں یہ معاملہ پھر عدالت عظمیٰ میں ہی پہنچے گا اور وہیں سے حل ہو گا اور یہی وقت کی پکار بھی ہے کہ ہم ملک کے استحکام، آئین کی پاسداری اور رول آف لاء کی تکریم کریں۔ عدالتی نظام کو سپریم سمجھیں۔ اس کے فیصلہ کو سب پر ترجیح دیں لیکن یہ ہم کس دور میں آگئے ہیں، جہاں ایک طبقہ خوف کے عالم میں ہے، تحفظ اور انصاف کا طلب گار ہے اور ایک طبقہ کے کچھ لوگ مذہبی جنون میں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہوا تو نہیں مانیں گے۔ حالانکہ ہر ذی شعور کو سمجھنا ہوگا کہ بابری مسجد کا معاملہ اس لئے اہم ہے کہ جو اسے حل کرے گا وہ آئین کی تابعداری کرے گا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ملک میں عدلیہ کا حکم چلے گا یا چند مذہبی انتہا پسندوں کے حکم پر ملک چلے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مجبوری ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سب سے بڑی بنچ اپنے فیصلہ سے گریزاں ہے۔ کیا ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ عدل و قانون کا تحفظ اور احترام ہو سکے۔ کاش جج صاحبان ثالثی کے بجائے خود اس پر فیصلہ کرتے تو زیادہ بہتر تھا، خواہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا یا نہیں پھر بھی مسلمانان ہند اس فیصلہ پر سر خم تسلیم کرتے۔ بقول اقبال ؔ:

انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close