Khabar Mantra
محاسبہ

میری کوشش ہے کہ صورت بد لنی چا ہئے

محاسبہ………سید فیصل علی

آسام کے مسلم اکثریتی ضلع کریم گنج کے راتائوڑی اسمبلی حلقہ کے بی جے پی امیدوار کی گاڑی سے ای وی ایم کی برآمدگی نے ایک بار پھر انتخابی عمل کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پورے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مشتبہ کارکردگی کو لیکر سنسنی پھیل گئی ہے۔ایک بار پھر ای وی ایم کی صداقت پر سوال کھڑا ہوچکا ہے۔کانگریس نے اپیل کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ای وی ایم پر از سر نو غور کرنا چاہئے اور فیصلہ لینا چاہئے۔ادھر ممتا بنرجی نے بھی اپوزیشن کو یک جٹ ہونے جمہوریت بچانے کی گہار لگائی ہے۔انہوں نے کھل کر الزام لگایا ہے کہ الیکشن کمیشن امت شاہ کے اشارے پر کام کررہا ہے جس سے جمہوریت خطرے میں ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ جب ملک میں انتظامیہ سے لیکر تمام آئینی ادارے حکومت وقت کے آگے دست بستہ کھڑے ہوں حتیٰ کے عدلیہ تک بے بسی کے نرغے میں ہو تو ایسے عالم میں جمہوریت بچانے کی گہار کا کیا اثر ہوگا؟۔سوال تو یہ بھی ہے کہ جب اپوزیشن مایوسی کے عالم میں ہو تو مایوس اپوزیشن سے مستقبل کی کیا امیدیں رکھی جائیں۔آج کا دور تو یہ ہے کہ تمام احتجاج ،حوصلے ،بنیادی حقوق ،جمہوری اقدار دیرینہ تہذیب اور یکجہتی سب مسند نشینوں کے سامنے دم بہ خود  ہیںتو ایسے دور کشاکش میں جمہوریت و آئین کے دفاع تو دور کی بات اس کی بقا کی آواز بھی اٹھانابھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔مگر ممتا بنرجی کی آواز کمزور ہی سہی ایک زخمی شیرنی کی آواز ہے۔جنہیں نندی گرام میں گھیرنے کا کھیل ہوا ہے اگر وہ کھیل ناکام رہا جیسا کہ امکان ہے تو یقینا ممتا کی گہار ملک میں صدائے انقلاب بن جائے گی۔ای وی ایم کے ذریعہ جمہوریت کو یر غمال بنانے کا کھیل بھی اختتام تک پہنچ جائے گا۔ممکن ہے کہ ملک میں بیلٹ باکس سے ووٹنگ کا دور شروع ہوجائے ملک پرانے یگ میںلوٹ جائے!

بنگال ،آسام ،پڈوچیری،کیرالہ  اور تمل ناڈو میں اسمبلی انتخابا ت ہورہے ہیںمگر اس الیکشن میں بی جے پی کی طاقت ، سیاست ،فراست حتیٰ کہ خباثت  سب ننگی ہوچکی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ پورا ملک چپی سادھے دیکھ رہا ہے ،اس الیکشن میںسچائی کو پس پشت کرکے سارا زور جھوٹ پر دیا جارہا ہے اور جھوٹ بول کر آسمان چھونا آج کی سیاست میں ہی ممکن ہے۔مودی جی کس یقین سے چناوی مہم میں کہہ رہے ہیں کہ دیدی ہار گئی ہیں اب وہ کیا کریں گی۔ نتائج سے قبل ایسی پیش گوئیاں انتخابی ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی ہے لیکن الیکشن کمیشن خاموش ہے ۔علاوہ نندی گرام سمیت بنگال ، آسام کے کئی علاقوں میں سیکورٹی فورسیز نے ووٹروں کو روکنے کی کوشش کی انتخابی عمل کو بے سکون کیایہ بھی آج کے الیکشن کا نیا کارنامہ ہے اور اب بی جے پی لیڈر کی کار سے ای وی ایم کی برآمدگی جمہوریت اور بنیادی حقوق کی پامالی کا نیا منظر نامہ ہے۔لیکن اس کی کھل کر مذمت کرنا بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔

آسام کا مسلم اکثریتی ضلع کریم گنج جہاں 60 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔اسی ضلع کے ایک اسمبلی حلقہ کے بی جے پی امیدوار کرشندھو پال کی گاڑی سے پولنگ شدہ ای ویم برآمد ہوئی ہے جس نے نئے دور کے الیکشن کی پول کھول دی ہے۔الیکشن کے بعد ای وی ایم کوسخت سیکورٹی میں اسٹرانگ روم لے جایا جاتا ہے۔ مگر دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ای وی ایم کار کے ساتھ نہ کوئی سیکورٹی تھی نہ الیکشن افسر موجود تھا حالانکہ تاویل یہ دی جارہی ہے کہ پولنگ پارٹی کی گاڑی  خراب ہوگئی تھی چنانچہ پریزائڈنگ افسر نے راستے سے گزرنے والی گاڑی سے لفٹ مانگی ،اس گاڑی کو مقامی باشندوں نے پہچان لیا کہ یہ تو بی جے پی امیدوار کی گاڑی ہے پھر ہنگامہ ہوا،الیکشن کمیشن کی صداقت پر سوال کھڑے ہوگئے ،کہا جانے لگا کہ یہ کیسا چنائو ہے جہاں کمیشن کے پاس گاڑیاں بھی نہیں ہیں ۔پرینکا گاندھی نے اس پورے واقعہ کو ایک اسکرپٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر الیکشن کے دوران ای وی ایم کو پرائیویٹ گاڑیوں میں لے جانے کا ویڈیو وائرل ہوتا ہے اور یہ گاڑیاں اکثر بی جے پی والوں کی ہوتی ہیں مگر ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ،کارروائی ان پر ہوتی ہے جو ایسی ویڈیو وائرل کرتے ہیں، سچائی کا پردہ فاش کرتے ہیں۔ راہل نے بھی اس معاملے میں کمیشن کی کارکردگی پر طنز کیا ہے اور ٹوئیٹ کرکے کہا ہے :

’’الیکشن کمیشن کی گاڑی خراب،بی جے پی کی نیت خراب،جمہوریت کی حالت خراب‘‘۔

پانچ ریاستوں کی اسمبلی انتخابات اور چناوی تشہیر سے لیکر پولنگ مراکز تک جو دلسوزمنظر نامہ ابھرا ہے وہ نہ صرف انتخابی ضابطہ اخلاق کو ضرب پہنچا رہا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کی بے بسی، خاموشی ، کارکردگی اور صداقت پر سوال کھڑ ا ہور ہا ہے۔ تشہیری جلسوں کے درمیان ناشائستہ زبان اور گالیوں کا استعمال کی بات تو چھوڑیئے بلکہ اس حلقے میں بھی پی ایم اور وزیر داخلہ انتخابی مہم چلارہے ہیں جس کے بغل میں ووٹنگ چل رہی ہے اور وہاں سے براہ راست یہ پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ ممتا بنرجی ہار چکی ہیں ،بی جے پی جیت چکی ہے۔ستم تو یہ ہے کہ جس الیکشن کمیشن کی صداقت کی قسمیں کھائی جاتی تھی اب اسی الیکشن کمیشن کی خاموش کارکردگی نے اس کی صداقت پر سوال کھڑا کردیاہے۔ویسے بھی یہ کہاں کا نظام ہے کہ جب ایک صوبے میں الیکشن چل رہا ہو،پولنگ ہورہی ہے تو اسی کے پڑوس میں پی ایم چناوی بھاشن کریں ووٹروں کو متاثر کریں مگر الیکشن کمیشن آنکھیں موندے پڑا ہے۔ایک زمانہ تھا جب کوئی امیدوار الیکشن کے دوران مذہب کا استعمال کرتا تھا ،مندر مسجد جاتا تھا تو ہر سمت سے تنقید و ملامت ہوتی تھی اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی سمجھا جاتا تھا مگر اب تو آواں کا آواں ہی اسی رنگ میں ڈوبتا نظر آرہا ہے ۔ہر پارٹی دھرم کی راجنیتی سے خود کو شرابور کررہی ہے ،الیکشن میں مندر مسجد ،پوجا پاٹ اب ایک چناوی حربہ ہوچکا ہے ،اور یہ وہ حربہ ہے جو ہر ایشو پر حاوی ہے۔

وقت کا المناک منظر نامہ یہ بھی ہے کہ جس تیزی سے سترنگی بھارت کو یک رنگی بنانے کی مہم چلی ہے کہ ہر ادارہ اس کا معاون بناہوا ہے ۔خاص کر میڈیا تو ملک کو یک رنگی بنانے میں کلیدی رول ادا کررہا ہے۔دراصل اقتدار اور سیاست ایسی ہوس بن گئی ہے جس کے پیچھے انسان انتہائی پستیوں میں گر کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کررہا ہے۔ہندوستانی سنسکار،اقدار ذلت کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ مگر ہندوستان چپ ہے ۔ای وی ایم 2014 سے ہی متنازعہ ایشو رہا ہے ،اس کی صداقت پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں ،بی جے پی کو چھوڑ کر تمام پارٹیاں بیلٹ باکس سے ووٹنگ کی بات کرتی رہی ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن مایوسی کے دور سے نکل کر نئے مستقبل کی تعمیر کیلئے ای وی ایم پر کوئی ٹھوس فیصلہ لے۔کیونکہ جمہوری طریق کار سے کرائی گئی ووٹنگ سے ہی ملک میں جمہوری اقدار کو بچایا جاسکتا ہے علاوہ ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بد ترین معیشت ، بے روزگاری، بھکمری،مہنگائی اور عوامی ناراضگی کے باوجود ہندوتو کے علمبردار جیت کا دعویٰ کررہے ہیں اور ان کا دعویٰ ای وی ایم اور میڈیا کے ذریعہ ثابت بھی کیا جارہا ہے۔مگر اس دعویٰ کی پول کھلنی چاہئے،بقول دشینت کمار:

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں

میری کوشش ہے کہ صورت بدلنی چاہئے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close