Khabar Mantra
محاسبہ

ہم پروں سے نہیں، حوصلوں سے اڑتے ہیں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک خوف اور بے بسی کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر طرف مایوسی اور بد دلی کا منظر نامہ ہے۔ معیشت، تجارت، سیاست سے لے کر ملک کی تہذیب، تاریخ و ثقافت سب پر زوال طاری ہے۔ ہر سو ڈرا ڈرا سا ماحول ہے۔ کیا کھائیں، کیا پہنیں، کیسے مذہبی فریضہ انجام دیں، یہ بھی ایک سوال ہے۔ نئے دور کے بدلتے ہوئے خوفناک تیور نے ہندوستان کی دیرینہ رواداری اور عظیم سنسکار کو ایک ایسے خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کا جمہوری نظام اور دیش کا سیکولر اقدارقائم رہے گا یا نہیں، کیونکہ اس کے تحفظ کی ذمہ داری رہنمائوں کی ہے، دانشوروں کی ہے، قلم کے سپاہیوں کی ہے، لیکن وقت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چار برس کے دوران فسطائی قوتوں کی آوازیں بلند تر ہوتی گئیں ہیں اور سیکولر صدائیں دبتی گئی ہیں۔ ظلم و استبداد کے خلاف صدا لگانے والے قلم کو پابند زنجیر کرنے کا منصوبہ بند کام ہوا ہے۔ گووند پنسارے، نارائن دھبولکر، کلبرگی سے لے کر گوری لنکیش تک قلم کے حق گو سپاہی موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سیکولر فکر و نظر رکھنے والے صحافیوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ابن الوقت صحافیوں کو خریدا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ٹی وی پر سچ کے بجائے جھوٹ کا نقارہ بجانے کا ہی منظر نامہ ہے۔ ٹی وی کے اس شور شرابے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی اکثریت کا ذہن بنیادی مسائل سے ہٹ کر ایک خاص طبقہ کے خلاف نفرت سے بھرتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور اقتدار کی آڑ میں لا قانونیت نے ملک کی فضا کو اتنا زہریلا بنا دیا ہے کہ ہر سیکولر آواز، ہر سیکولر پارٹی، ہر سیکولر چہرہ دم بخود ہے۔ ملک کے بدلتے ہوئے ماحول میں ان کی آواز بڑی کمزور، بڑی بے وزن ثابت ہو رہی ہے۔ دراصل کوئی بھی اپنے مفاد اور اپنی سیاست کو آج کے دور میں داؤ پر لگانے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے عالم میں سیکولر زم کی بقاء کے لئے پورے ہندوستان میں صرف اور صرف ایک لیڈر کی طرف نظر اٹھتی ہے جو جرأ ت اور اعتماد کا پیکر اور سیکولر سیاست کا منفرد بازی گر بھی ہے، جو جیل میں رہ کر بھی ہندوستان کی زہریلی سیاست کی بساط بھی الٹ سکتا ہے۔ فرقہ پرست سیاست سے لوہا لینے والے لالو پرسا د یادو قید میں ہیں۔ وہ کئی پیچیدہ امراض میں مبتلا ہیں، لیکن وہ اس عالم میں بھی کہہ رہے ہیں کہ میں فرقہ پرست قوتوں کو آگے بڑھنے نہیں دوں گا۔ لالو یادو واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی 25 سالہ سیاسی زندگی میں کبھی بھی فرقہ پرست قوتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کمزور طبقہ اور ظالم کے خلاف ایک مضبوط آواز بن کر سامنے آئے۔ فرقہ پرستی خاص کر بی جے پی کے خلاف ان کی آواز آج بھی ملک کی سب سے دم دار آواز سمجھی جاتی ہے۔ یہ لالو یادو کا ہی دم خم ہے کہ بہار میں انہوں نے بی جے پی کو بڑھنے نہیں دیا۔ فرقہ پرستی کے زہریلے ناگوں کو بلوں سے نکلنے نہیں دیا۔ یہ لالو پرساد کی کرشمائی شخصیت کا ہی جادو ہے کہ بہار میں کانگریس کو بھی ان سے ہی توانائی ملی ہے۔ گٹھ بندھن کی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لئے راہل گاندھی لالو کی طاقت کے قائل ہیں اور ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ سیکولر قوتوں کے گٹھ بندھن کے بغیر بی جے پی کو روکا نہیں جا سکتا اور لالو کے بغیر گٹھ بندھن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ اپوزیشن لالو کے بنا بی جے پی کو روکنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، مگر اب اسی سیکولر سیاست کے سرخیل لالو یادو کو نکیل ڈالنے کی سیاست بھی چل رہی ہے۔ بی جے پی کو للکارنے والی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ ستم سیاست تو یہ ہے کہ مالیہ، نیرو مودی، میہل چوکسی جیسے سرمایہ دار 25ہزار کروڑ کا گھپلہ کرکے فرار ہو جاتے ہیں مگر ان کے خلاف قانونی شکنجہ ڈھیلا ہے جبکہ محض 37 کروڑ کے چارہ گھپلہ میں، جس میں اعلی افسران سمیت سینکڑوں لوگ ملزم ہیں۔ اس معاملہ میں لالو کی قید وبند محض سیاسی انتقام کا نتیجہ نہیں تواور کیا ہے؟

لالو چاہتے تو حالات سے سمجھوتہ کرکے قید وبند سے چھٹکارا پا سکتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے اور اب تو 2019کے چناوی مہابھارت کو دیکھتے ہوئے لالو پرساد کو ذہنی، جسمانی و روحانی کرب سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ اب نئی سیاست کے تحت رابڑی دیوی سے لے کر ان کے بیٹے تیجسوی یادو بھی نشانے پر ہیں مگر ہم لالو کے جذبے اور جرأت کو سلام کرتے ہیں، جو بیمار ہونے کے باوجود بھی فرقہ پرست قوتوں سے لوہا لے رہے ہیں۔ جیل میں بند ہونے کے باوجود ان کی آواز ملک کے ایوان وسیاست و اقتدار میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔ سبھی سمجھ رہے ہیں کہ 2019میں اگر بی جے پی کو اقتدار سے روکنا ہے تو سیکولر قوتوں کا متحدپلیٹ فارم ضروری ہے اور اس پلیٹ فارم پر لالو کی غیر موجودگی فرقہ پرست قوتوں کے لئے ایک نوید ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مہا گٹھ بندھن سے لالو کو الگ تھلگ کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں، ان کی مشکلیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ان کو روکنے کی ہر ممکن سعی ہو رہی ہے، ان کے حوصلہ کو کمزور کرنے کی سیاست چل رہی ہے۔ علاج کے لئے دی گئی مہلت ختم ہو چکی ہے ممبئی میں زیر علاج لالو کو 30 اگست کو سرینڈرکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ انفورسمینٹ ڈپارٹمینٹ نے ایک نئے معاملہ میں لالو یادو اور اہل خانہ کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔ رابڑی دیوی، تیجسوی یادو، جو فرقہ پرستی کے خلاف لالو یادو کی صدائے احتجاج کی بازگشت بنے ہوئے ہیں، ان کو بھی کٹہرے میں لانے کی تیاریاں ہیں۔ 2019 کے چناوی مہابھارت میں لالو یادو، تیجسوی یادو، رابڑی دیوی اہم رول ادا نہ کر سکیں وہ بساط بھی بچھائی جا چکی ہے۔ لالو یادو کے آگے مصائب، مسائل اور پریشانیوں کا مرحلہ در مرحلہ ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دور اقتدار میں 23اکتوبر 1990کو سمستی پور میں اڈوانی کے رتھ کو روک دیا تھا اور بی جے پی کے اس قد آور لیڈر کو گرفتار کر لیا تھا۔ وہ بھی لالو پرساد کے حوصلے کی نادر اور تاریخی مثال ہے۔ ذرا سوچئے گجرات کے سومناتھ سے اجودھیا کے لئے نکلا اڈوانی کا رتھ ملک میں فرقہ وارانہ گرمی پیدا کر چکا تھا۔ اگر اڈوانی کا رتھ یوپی پہنچ جاتا تو کیا ہوتا؟ لالو یادو نے کہا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے ملک کو بچانے کے لئے اڈوانی کو گرفتار کیا۔ بھلے ہی مرکز میں ہماری سرکار بچ نہیں سکی، لیکن ہم نے آئین کو اور ملک کو بچا لیا۔ ہم فرقہ پرستی کے قدم روکنے کے لئے ہر وقت ایسے قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ لالو کا یہی حوصلہ، یہی جرأت، یہی انداز جہاں مظلوم اور کمزور طبقے کا بھروسہ ہے، سیکولر ہندوستان کی شان ہے تو فرقہ پرست قوتوں کے لئے وبال جان ہے، چنانچہ اقتدار کی سیاست کے لئے 2019کے چناوی مہا بھارت سے لالو پرسا د کو الگ تھلگ کرنے کی بساط بچھ چکی ہے۔ انتقامی سیاست کے تحت وہ ہر طرف سے نشانے پر لئے جا رہے ہیں قانونی داؤ پیچ کے ساتھ ساتھ سیاسی داؤ پیچ بھی آزمائے جا رہے ہیں، مگر وہ اس مصیبت کی گھڑی میں بھی فسطائی قوتوں کو للکار رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ ملک کے مظلوم، محروم اور مغموم طبقہ کی دعائیں ہیں اور ملک کا سیکولر طبقہ بھی لالو کے حوصلہ سے پر امید ہے کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے بھی سیکولر قیادت کو طاقت دے سکتے ہیں۔ ملک کے آئین، ملک کی رواداری اور ملک کی ثقافت کو بچانے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی جرأت، ان کا حوصلہ ملک کویقیناً نئی توانائی دے سکتا ہے۔ بقول راحت اندوری ؔ کے اشعار لالو یادو کی شخصیت کے غماز ہیں:

کبھی مہک کی طرح ہم گلوں سے اڑتے ہیں
کبھی دھوئیں کی طرح پربتوں سے اڑتے ہیں
یہ قینچیاںہمیں اڑنے سے خاک روکیں گی
کہ ہم پروں سے نہیں،حوصلوں سے اڑتے ہیں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close