Khabar Mantra
محاسبہ

دھوپ میں بیٹھا ہے خود پیڑ لگانے والا

محاسبہ………سیدفیصل علی

کسان لیڈر راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ ملک کو تجارتی ادارے چلارہے ہیں۔حکومت کچھ صنعت کاروں اور بروکروں کا مہرہ بنی ہوئی ہے،دیش پھر غلام بننے جارہا ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے،اس نظام کے خلاف ہماری تحریک جاری رہے گی۔‘

بلا شبہ آج کی سیاست پرتجارت حاوی ہوچکی ہے،مسند نشین ایک کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں،ا س تجارتی دور میں ملک کا ہروہ اثاثہ بیچا جارہا ہے جو قومی ترقی او ر فخر کی علامت رہا ہے ۔کورونا کے اس بھیانک دور اور معیشت کی تباہی کے باوجود چند تجارتی ادارے دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیںآخر ایسا کیوں ہے؟۔

آج کی تجارت کی کالی کہانی یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ درس عبرت بھی دے رہی ہے کہ مارکیٹنگ کے اس دور میں ایوان سیاست سے لیکر اقتدار کی منزل تک جھوٹ ،تگڑم اور پیسے کی چکا چوند ہے۔آبرو باختہ  مارکیٹنگ کے اس کالے یگ میں بھارت کے سارے اقدارو سنسکار ،رواداری ،امن و آشتی ،سماجی آہنگی سے لیکر دھرم و مذہب و ایمان تک نفع و نقصان تجارت کی میزان پر تولے جارہے ہیں۔ہر آئینی و سرکاری ادارہ حکومت وقت کے ابروئے ہدایت کا منتظر ہے۔حالات اور مارکیٹنگ کے تیور سے نہ صرف دانشور طبقہ اور جمہورکے علم بردار خاموش ہیںبلکہ عام طبقہ بھی چپی سادھے ہوئے ہے۔ کورونا کے بھیانک دور میں مارکیٹنگ کا یہ دبدبہ ملک کو کس کگار پر لے جائے گایہ سمجھ میں نہیں آتا۔

ستم تو یہ ہے کہ ملک میں نام نہاد ہندوتو کی مارکیٹنگ کرنے والوں نے دھڑلے سے جمہوریت کی بھی مارکیٹنگ شروع کردی ہے۔ای وی ایم کی پیچ کنی کے بعد منتخب ممبران کے مول بھائو تو جاری ہی تھے کہ اب چنائو سے قبل ہی اپوزیشن کے قد آور امیدواروں پر جال بچھائے جارہے ہیں۔حالانکہ پہلے چنائو جیتنے کے بعد ہی منتخب ممبران کی پالا بدلنے کی قیمت لگائی جاتی تھی مگر اب نئے تجارتی دور میں چنائو سے قبل ہی حصول اقتدار کے کیلئے کیل کانٹے درست کئے جارہے ہیں۔سرکار بنانے کا یہ نیا طریق کار آج کی سیاست کا اتنا گھنائونا منظر نامہ ہے کہ جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

جمہوریت میں انتخابی عمل سب سے بڑا عمل کہا جاتا ہے لیکن اب انتخابی عمل سے قبل ہی امیدواروں کو اپنے پالے میں لانا سب سے بڑاعمل بن چکا ہے۔شائد اسی بل بوتے پر بی جے پی ان  5 ریاستوں میں جہاں انتخاب ہورہے ہیں غیر معمولی اکثریت سے سرکار بنانے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن سیاست کی اس نئی تگڑم کا پردہ فاش ہوچکا ہے ۔ سرکار سازی کی بساط الٹنے کیلئے آسام سے کانگریس گٹھ بندھن نے اپنے تمام قد آورامیدواروں کو جے پورکے ایک ہوٹل میں منتقل ہے جہاں وہ سخت سیکورٹی میں انتخابی نتائج کا انتظار کررہے ہیں۔

ملک کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب انتخابی نتائج سے ایک ماہ قبل ہی امیدوار جے پور کے ایک ہوٹل میںپر لائے گئے ہیں تاکہ قبل از وقت ان کی مارکیٹنگ نہ ہوسکے۔خاص بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سال جب راجستھان کی اشوک گہلوت سرکار کو گرانے کی چالیں چلی جارہی تھیں تو پارٹی ممبران اسمبلی جے پور کے اسی ہوٹل میں لائے گئے تھے۔کانگریس نے شاید اپنی زندگی کی کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے کہ قبل از وقت ہی بی جے پی کی چال سمجھ لیا ہے ورنہ کانگریس کی لیٹ لطیفی تو بہت مشہور ہے،کیونکہ گواہو،میگھالیہ ہو ،ہریانہ ہو ہر جگہ اس کی سرکار بنتے بنتے اس لئے رہ گئی کہ اس کے لیڈران چنائو کے بعد اپنے اے سی کمروں میں سکونت پذیر ہوگئے یا حکومت سازی کیلئے کچھوے کی چال چلنے لگے۔ کانگریس کا تاخیر سے لئے جانے والا  فیصلہ ہمیشہ اسے کاری ضرب پہنچاتا رہا مگر اب آسام کی گٹھ بندھن قیادت نے جو عجلت دکھائی ہے اس سے بی جے پی کی مارکیٹنگ کی بساط الٹی دکھائی دیتی ہے۔

آسام میں انتخابات ختم ہوچکے ہیں 2مئی کوریزلٹ آنے والے ہیں مگر اس سے قبل ہی کانگریس گٹھ بندھن کے امیدواروں کو بی جے پی کے جال سے بچانے کی قواعد نے ایک امید ضرور پیدا کردی ہے کہ آسام میں بی جے پی حکومت کا سورج غروب ہوجائے گا۔تقریباً32 ایسے امیدواروں کو جے پور کے ایک ہوٹل میں پہنچایا گیا ہے جن کے جیتنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔در اصل کانگریس گٹھ بندھن میں شامل بوڈو پیپلس فرنٹ کا ایک امیدوار پولنگ سے صرف ایک دن قبل ہی بی جے پی میں شامل ہوگیا تھا۔حالانکہ اپوزیشن نے اس حلقے کا انتخاب ملتوی کرانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے اس سیٹ پر چنائو منسوخ کرنے سے انکار کردیا تھا۔بی جے پی میں شامل گٹھ بندھن کے امیدوار نے اشارہ دیا تھا کہ سرکار تو ہر حال میں بی جے پی کی بنے گی،گٹھ بندھن کے لوگ ہی بی جے پی کی سرکار بنائیں گے۔ اسی اشارے نے کانگریس گٹھ بندھن کو نئی حکمت عملی بنانے پر مجبور کیا ،گٹھ بندھن کے قد آور امیدار جے پور لائے گئے۔کہتے ہیں کہ جے پور کے ہوٹل میں لائے گئے امیدواروں میں کانگریس کے امیدواروںکے علاوہ بدرالدین اجمل کی پارٹی AIUDF  اور بوڈو پیپلس فرنٹ اور لیفٹ پارٹیوں کے امیدواربھی شامل ہیں۔

جمہوریت کی تجارت کا یہ نیا کھیل بھلے ہی مسند نشینوں ،ہندوتو کے علمبرداروں کیلئے سود مند ہو لیکن ریت میں بنی بنیاد زیادہ مستحکم نہیں ہوتی سب کو لیکر چلنے کی سیاست ہی کامیاب ہوتی ہے۔یقینا یہ بات پی ایم بھی جان چکے ہیں۔انہوں نے سلی گوڑی کے چناوی جلسے میں پہلی بار ٹوپی بھی پہن لی ہے، ذوالفقار سے سرگوشیاں کرنے کے بعد انہوں نے پدم شری کریم الحق کو گلے بھی لگایا ہے جنہوں نے اپنی بائیک ایمبولنس سے چار ہزار سے زائد لوگوں کی جان بچائی تھی اور یہ بھی بی جے پی کی رنگ بدلتی سیاست کا کمال ہے کہ اس نے بنگال الیکشن میں نو مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار کر نئی روایت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن انتخابی جلسوں میں جے شری رام کے نام پر ووٹ بھی مانگ رہی ہے۔لیکن المیہ تو یہ ہے کہ دھرم کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کے خلاف خاموشی ہے لیکن ممتا بنرجی کو نوٹس دیا جارہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو متحد ہونے کی اپیل کیوں کی ۔

بہر حال آج ملک کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تجارتی سیاست اور حالات کے آگے ملک کا جمہوریت نواز طبقہ کب تک چپ رہے گا ۔سوال تو یہ بھی ہے کہ پاور پالیٹکس ،ای وی ایم کی پیچ گنی ،جھوٹ کی تجارت ،جمہوریت کی خریداری کب اپنے اختتام تک پہنچے گی؟۔ اقتدار و سیاست کب تجارتی فکر کے نرغے سے نگلے گی، ہندوستان کا اصل سیکولر چہرہ کب روشن ہوگا۔سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا 5 ریاستوں کے چنائو کے بعد ملک کے حالات بدلیں گے یا ملک کے حالات کسان اندولن بدلے گا۔کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب مطلق العنانیت کے آگے سبھی چپ ہوجاتے ہیں تو عام آدمی ہی آگے آتا ہے اور غرور اور اقتدار کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔مگر سوال پھر وہی ہے : بقول شاعر

آج کے دور میں امیدِوفا کس سے کریں 

دھوپ میں بیٹھا ہے خود پیڑ لگانے والا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close