Khabar Mantra
محاسبہ

اک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے…..

نئے دور کا عندیہ کہیں یا نوشتہ اتفاق کہ 22 رنوں سے پاکستان کو ورلڈ کپ دلانے والا 22 سال کی محنت کے بعد پاکستان کے 22کروڑ عوام کا 22واں وزیر اعظم بن چکا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کی پہلی پاری کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پاری میں ملک کے مفاد و ترقی کو استحکام کی راہ پر لے جانا ایک چیلنج سے کم نہیں، دہشت گردی اور شدت پسند تنظیموں سے لوہا لینا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے گرتے معیار اور سیاسی وقار کو سنبھالنا بھی امتحان سے کم نہیں۔ کیونکہ پاکستان کا فوجی ٹولہ، شدت پسند عناصر، انتہا پسند تنظیمیں اور وہاں کی جاگیر دارانہ و سرمایہ دارانہ سیاست نے پاکستان کی معیشت اور ماحول کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان سے نمٹنا بھی ایک دشوار کن مرحلہ ہے۔ گوکہ عمران خان نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ کہہ کر برصغیر کے ماحول کو خوش گوار کر دیا ہے کہ ہند۔پاک کے درمیان گفتگو سے ہی مسئلہ کا حل ہو سکتا ہے، وہ ایک قدم آگے آئیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے، لیکن یہ تاریخ کا بدترین المیہ ہے کہ جب جب پاکستان کے کسی وزیر اعظم نے ہندوستان سے دوستی میں دلچسپی دکھائی، دو قدم آگے بڑھائے تو ان کے قدموں میں زنجیریں ڈال دی گئیں یا انہیں معزول کر دیا گیا۔ پاکستان کے اقتدار وسیاست کا یہ تاریخی المیہ کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ کبھی فوج تختہ پلٹ کر قیادت ہاتھ میں لے لیتی ہے تو کبھی منتخب سرکار کو پاکستان کی قسمت سنوارنے کا موقع دیتی ہے۔ فوج کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔ حکومت فوج کے ابروئے ہدایت کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ نیا پاکستان کا نعرہ دینے والے عمران خان پاکستان کا چہرہ بدلنے کے لئے اور ہند۔پاک دوستی کا چراغ جلانے میں کتنے با حوصلہ ثابت ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن عمران خان بولڈ فیصلہ کے لئے مشہور ہیں۔

غور طلب ہے کہ عمران خان نے اہل پاکستان کو وڈیروں، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور دہشت گردی کے شکنجہ سے آزاد کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اور سو دن میں پاکستان کی صورت بدلنے کا عندیہ بھی دیا تھا، جس میں وہاں کی معیشت بدلنے، مرکزی قیادت مستحکم کرنے، عوامی خدمات بہتر کرنے، نظم ونسق ٹھیک کرنے، خستہ حال زراعت کو بہتر بنانے، بلو چستان میں امن وامان و نیا سیکورٹی نظام بنانے، جنوبی پنجاب کو الگ ریاست بنانے سمیت عام آدمی کی فلاح کی راہیں ہموار کرنے کے وعدے شامل تھے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ اہل پاکستان کو اچھے دنوں کا خواب دکھانے والے ان خوابوں کو تعبیر دے سکیں گے یا نہیں؟ کیونکہ نیا پاکستان کا خاکہ تیار کرنے والے( عمران خان کے آگے فوج کی مرضی کی پیروی لازمی ہے اور شدت پسندوں کی خوشنودی بھی ضروری ہے۔ ان سے اجتناب اور بولڈ فیصلہ سے ہی پاکستان ترقی، خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ برصغیر میں امن وآشتی کی خوشبو پھیل سکتی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ عمران خان اپنے فیصلوں پر ثابت قدم رہیںگے۔ ان سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں تو میں نے انہیں ایک مصمم ارادے والا شخص ہی پایا ہے۔ مجھے امید ہے کہ انہوں نے جس طرح کرکٹ کی کپتانی کی ہے، مشکل گھڑی میں بولڈ اور دور رس فیصلہ کئے ہیں اور میدان سیاست میں آنے کے بعد ان کے صبر واستقلال اور جدو جہد کا منظر نامہ ابھرا ہے، اس سے لگتا ہے کہ وہ ایک وزیراعظم نہیں ایک اسٹیٹس مین ثابت ہوں گے اورسیاست سے اوپر اٹھ کر فیصلہ کریں گے۔)

عمران خان کئی بار ہندوستان آچکے ہیں، نریندرمودی سے لے کر ملک کی کئی اہم شخصیات سے مل چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہند۔پاک دوستی دونوں ملکوں کے خوش گوار ماحول اور ترقی کی ضامن ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 7دسمبر 2012کو جب وہ ہندوستان آئے تھے تو ایک ٹی وی پروگرام میں ان کے بولڈ انٹر ویو نے ہند۔پاک دوستی کی امیدوں کے چراغ روشن کر دیئے تھے۔ کشمیر کے تعلق سے ان کا نظریہ ایک اسٹیٹس مین کی طرح ہی بولڈ تھا۔ انہوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہوں نے پی ایم اور اسٹیٹس مین کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملہ میں پی ایم کی حیثیت سے نہیں بلکہ اسٹیٹس مین کی حیثیت سے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ووٹ اور ذاتی مفاد کی سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک کے عوام کی فلاح کی بات کی جائے تو ہر بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا نظریہ رہا ہے کہ خطہ میں امن وآشتی اور خوش گوار ماحول کے لئے گفتگو ہی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ عمران خان ایک آزاد خارجہ پالیسی کے حامی رہے ہیں۔ بہر حال، عمران خان پاکستان کے 22ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لے چکے ہیں۔ اپنے دوست کے بلاوے پر نو جوت سنگھ سدھو بھی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دوست کے بلاوے پر امن کا پیغام لایا ہوں۔ ہند۔پاک دوستی ہی خطہ میں امن کے قیام کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ عمران خان ایک جرأت مند وزیراعظم ثابت ہوں گے مگر یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ فوج اور شدت پسند عناصر انہیں کام کرنے کی کتنی آزادی دیتے ہیں اگر وہ ایک پی ایم کے بجائے اسٹیٹس مین ثابت ہوتے ہیں، ہند۔پاک دوستی کو مستحکم کرنے کا کوئی بولڈ فیصلہ کرتے ہیں تو تاریخ میں ان کا نام بھی اسی طرح رقم ہوجائے جس طرح ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہوا تھا۔ بقول طالب رامپوری

اک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے
وقت اب دونوں ممالک کا بھلا چاہتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ عمران کے ہاتھوں طالب ؔ
دوستی، پیار کا ماحول خدا چاہتا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close