Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلام ماحولیات کے تحفظ کا ضامن

آج پوری دنیا ماحولیاتی کثافت سے دوچار ہے۔ فطرت سے چھیڑ چھاڑ اور تیزی سے کاٹے جا رہے اشجار اس کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جوں جوں آبادی بڑھتی جا رہی ہے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں عمارات کا جنگل بنایا جا رہا ہے۔ جدید سائنس اور تکنالوجی نے انسان کو تعیش پرست بنا دیا ہے۔ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کو وہ اپنی فتح سمجھ رہا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی خود موت کے شکنجہ میں ہے۔ آج سے ایک دہائی قبل ماحولیاتی کثافت پر آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کا ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا، جس میں دنیا بھر کے ماہر ماحولیات شریک ہوئے تھے اور اس بات کو سبھی نے تسلیم کیا تھا کہ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں ہی جو سائنسی نظریات پیش کئے تھے، فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی تلقین کی تھی، آج اسی کا نتیجہ یہ دنیا بھگت رہی ہے۔ اس اجلاس میں تقریباً تمام تر ماہرین کی رائے یہی تھی کہ اسلام میں ماحولیات کو شفاف رکھنے کا جو اشارہ دیا گیا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کے تعلق سے پوری دنیا میں جو اضطراب اور مسائل ہیں اس کا ازالہ صرف قرآن کریم میں موجود ہے، اسی لئے اسلام کو بطور ایک مذہب ہی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بنی نوع انسان کو اسلام سے کتنے فوائد ہیں، اس پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ ماحولیاتی کثافت سے دوچار دنیا کے مسائل حل کرنے کے لئے منعقد اس سیمینار میں خصوصی طور پر پرنس چارلس شریک ہوئے اور انہوں نے اپنے ایک گھنٹہ کے طویل خطاب میں اپنے تمام تر نکات اسلام پر مرکوز رکھے۔ انہوں نے نہایت صاف گوئی سے دنیا کو بتایا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے پوری دنیا کو فراخ دلی کے ساتھ اسلام کے روحانی اصولوں پر چلنا چاہیے تبھی ماحولیات کا تحفظ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے سامنے یہ بھی وضاحت کی کہ اسلام صرف مسلمانوں کا ہی مذہب نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بنی نوع انسان کے لئے علم و دانش اور روحانی خزانوں کا ایک انبار موجود ہے، جو دنیا کے لئے ایک بیش قیمت عطیہ ہیں لیکن وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک اپنی جدید ترقی پسندانہ روش اور مشرق سے عصبیت کے تحت اسلام کو حاشیے پر رکھ رہے ہیں۔ اسلام کے روایتی ضوابط آج بھی انسانی زندگی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے ماحولیات کو بچانے کے لئے خصوصی طور پر مسلمانوں پر زور دیا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ مغربی ممالک نہیں سدھرنے والے، اس لئے مسلمانوں کو آگے آنا چاہیے۔ دنیا میں ماحولیات کو بچانے کے لئے اسلام کی قدیم وراثت کا استعمال کرنا چاہیے۔ پرنس آف ویلس نے اس سیمینار میں دنیا کی بڑھتی آبادی کو بھی اسلام کی روشنی میں غور کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ اب تو سائنسداں بھی خدا کو ماننے لگے ہیں، روحانیت کے بغیر دنیا مکمل نہیں ہو سکتی۔ زیر نظر مضمون آج کے دور ماحولیاتی کثافت میں ایک ایسی روشنی دیتا ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام نے دنیا کو خوبصورت بنانے اور اس کے تحفظ کے لئے کتنے انتظامات کر رکھے ہیں۔ شرط تو صرف یہ ہے کہ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔ آج کا دور جس تناؤ اور کثافت سے دوچار ہے، اس کا حل قرآن کریم میں موجود ہے، جس کی وضاحت آج سے 10 سال قبل پرنس چارلس نے بھی کی تھی:

آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘ کا ایک سیمینار جو کہ تقریباً 9سال قبل منعقد کیا گیا تھا، اس میں اپنے خطاب کے دوران برطانوی تخت کے وارث پرنس چارلس نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ اس بات پر زور دیا تھا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے پوری دنیا کے ممالک کو اسلام کے روحانی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے ایک گھنٹہ کے طویل خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا میں انسان کے ذریعہ جو تباہ کاریاں ہو رہی ہیں وہ تمام مذہبی صحیفوں خصوصی طور پر اسلامی ضابطوں کے برعکس ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسلام دنیا کا ایک ایسا مذہب ہے، جس میں بنی نوع انسان کے لئے علم ودانش اور روحانی جانکاریوں کا مجموعی طور پر ایک خزینہ دستیاب ہے۔ یہ دونوں اسلام کی نہ صرف نجیب وراثتیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بیش قیمت عطیہ بھی ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اب عقل و دانش کی یہ حکمت مغربی ممالک کی مادہ پرست روش کی وجہ سے مبہم ہو گئی ہے اور یہ ایک ایسی روش ہے کہ جدیدیت کے نام پر دیگر ممالک کے باشندے مغربی ممالک کی نقل کرنے لگے ہیں۔ پرنس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ’المیہ‘ ہے کہ اسلام کے روایتی ضابطے ترک کر دیئے گئے ہیں، جن پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ اسی لئے انہوں نے تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں سے پُر زور اصرار کیا کہ وہ ماحولیات کو بچانے کے لئے اپنے قدیم ورثہ کا استعمال کریں۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ موجودہ دور میں انسان اور فطرت کے درمیان جو ’تفریق‘ پیدا ہو گئی ہے وہ صنعت و حرفت (Industrialisation) کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے بلکہ ماحولیات کے تئیں انسانی رجحان کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہ مقدس روایات کے خلاف ہے۔

برطانوی روایت کے مطابق اگر پرنس چارلس گدی نشین ہو جائیں گے تو وہ چرچ آف انگلینڈ کے بھی سربراہ ہو جائیں گے۔ عیسائی مذہب کے مقلد ہونے کے باوجود پرنس چارلس نے قرآن کریم کا عمیق مطالعہ کیا ہے چنانچہ انہوں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم اپنے مقلدین کو یہ درس دیتا ہے کہ انسان اور فطرت کے درمیان کسی بھی قسم کی علیحدگی نہیں ہے اور انسان ہمیشہ سے ہی فطرت کی حدود میں زندگی بسر کرتا ہے۔ پرنس چارلس اس وقت آکسفورڈ سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز کی اس تقریب میں سامعین اور دانشوروں سے خطاب کر رہے تھے جو کہ ہمیشہ مذہبی ثقافت اور تہذیب کو بہتر طریقہ سے سمجھنے کی ترغیب دینے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ان کی تقریر میں مذہب کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کے دیگر موضوعات بھی شامل تھے۔ ماحولیات کے موضوع پر یہ تقریب اس تنظیم کی 25ویں سالگرہ پر منعقد ہوئی تھی، جس کے سرپرست اعلی (Patron) پرنس چارلس ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باعث تکلیف بات تو یہ ہے کہ ایک اچھے جواز کے ساتھ ہم بقیہ تخلیق کو اس کرۂ ارض سے منسوب کر دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اطراف میں زندگی کے پیچیدہ متوازن تانے بانے کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں اور اسلام نے ہمیشہ ہمیں اس بات کا درس دیا ہے اور اگر ہم نے اس درس کو نظر انداز کر دیا تو یہ تخلیق کے ساتھ ہمارے سمجھوتے کی عدم تعمیل یا کوتاہی تصور کی جائے گی۔ دنیا کے ماحولیاتی مسائل کے تعلق سے پرنس آف ویلس (Prince of Wales) نے روح (Soul) میں یقین کم ہونے کا الزام بھی عائد کیا تھا اور اس بات کی وضاحت کی تھی کہ کرۂ ارض اس آبادی کو برداشت نہیں کر سکتا ہے جس کی 40برسوں میں 9بلین تک آبادی ہو جانے کی توقع کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ بات حیران کن اور چونکانے والی ہے کہ بہت سے سائنسدانوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ خدائی نظام میں یقین رکھتے ہیں پھر بھی وہ معمولی طور پر ضرر رساں ہیں کیونکہ فطری دنیا کو نقصان پہنچانے میں سائنسی طریقہ ٔکار استعمال کیا جاتا ہے۔

پرنس چارلس نے گیلیلیو (Galileo) کی تھیوری پر بھی کچھ اعتراضات ظاہر کئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ عدم توازن جہاں پر پہلے سے ہی میکانکی (Mechanistic) نظریہ غالب ہے تو کم وبیش گیلیلیو کے ذریعہ اس بات کو تسلیم کئے جانے کی جانب ہماری توجہ ہو جاتی ہے کہ فطرت (Nature) میں مقدار اور تحریک (Quantity and Motion) کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جس نے مسلسل یہ تصور باور کرا دیا ہے کہ جس کے مطابق آج دنیا میں معمولات زندگی ہو گئے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس طرح کے حالت میں ہم کس طرح سے اپنی جگہ بنائیں۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فطرت مکمل طور پر تجسیم (Objectified) ہو گئی ہے۔ یقیناً وہ تجسیم ہو گئی ہے اور اس نے ٹھوس شکل اختیار کر لی ہے اور گیلیلیو کی تھیوری کے مطابق ہمیں حقیقت میں اس مادہ پرستی کے پہلو کی جانب توجہ مرکوز کرنے کے لئے مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس نظریہ کے برعکس پرنس نے یہ کہا کہ وہ گرین تکنالوجی ’’Green Technology‘‘ میں یقین رکھتے ہیں لیکن تن تنہا کوئی بھی شخص عالمی ماحولیات کے مسائل حل نہیں کر سکتا ہے، لہذا مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے لوگوں کو ’’روح کے عمیق اور داخلی بحران‘‘ کے تعلق سے کچھ غور ضرور کرنا چاہیے کیونکہ مغربی ممالک مادہ پرستی کی وجہ سے ’روحانیت‘ سے عار ی ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں ماحولیات کے تحفظ کے تعلق سے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ دنیا کی مقدس ترین روایات سے ملنے والے دروس سے بالکل مختلف ہیں۔ اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لئے روحانی تعلیمات کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کئی سال قبل بار بار انہوں نے اس جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ ہمارے ماحولیاتی مسائل حل کرنے میں گرین تکنالوجی نے کسی حد تک اہم رول ادا کیا ہے لیکن محض اسی تکنالوجی کے توسط سے تمام ماحولیاتی مسائل حل نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ایک مثال بھی دی تھی کہ کنویں کے بغیر پمپ (Pump) نصب کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی تناسب میں تعمیرات کرائے جانے کے تعلق سے بھی انہوں نے انتباہ دیا تھا۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ تعمیرات کرانے میں اگر سست روی سے کام لیا جائے تو ماحولیات کے تحفظ میں یقینی طور پر اس سے مدد ملے گی۔ انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (Institute for Environment and Development) کے ذریعہ جو سروے کرایا گیا تھا اس کے مطابق آبادی میں زبردست اضافہ ہونا ماحولیاتی مسائل پیدا ہونے کا ایک سب سے بڑا سبب ہے۔ لندن میں واقع تھنک ٹینک نے یہ دعوی کیا تھا کہ غریب ممالک آبادی میں زبردست اضافہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی نظام میں تبدیلی رونما کرنے میں معمولی طور پر مددگار ہوں گے، چنانچہ دولت مند ممالک میں زیادہ مصارف کی وجہ سے اہم مسئلہ(Main Problem) سے روگردانی کی جائے گی۔ 1950میں دنیا کی آبادی 2.5بلین سے بڑھ کر 2009 میں 6.8بلین ہو گئی تھی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہر سال 75ملین آبادی کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ 2050تک آبادی 9بلین سے تجاوز کرجائے گی۔ 2050 تک آبادی میں اضافہ کی زبردست شرح کے حساب سے 10میں سے 9ممالک افریقہ میں واقع ہیں۔

پرنس چارلس نے اپنے خطاب میں اس نکتہ پر بھی روشنی ڈالی کہ دنیا اس وقت ’’غلط راستہ‘‘ پر ہے اور حقائق تسلیم کرنے میں ’احمقانہ‘ روش اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ درست اقدامات کی جانب توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں فطری نظام کے خلاف نہیں بلکہ فطری تقاضوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

پرنس چارلس نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کے ماحولیاتی اور اقتصادی بحران کو حل کرنے کے لئے مذہب کی ضرورت ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقتصادی فائدہ کی جستجو میں روحانیت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا تھا کہ کرۂ ارض چونکہ ’ہم سب‘ کی کفالت نہیں کر سکتا ہے لہذا شرح پیدائش کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، خصوصی طور پر ایسی حالت میں جبکہ قدرتی وسائل تناسب کے اعتبار سے مغربی ممالک میں زیادہ استعمال کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ پیدائش کی شرح کنٹرول کرنے کے ساتھ ہی آبادی کے اضافہ کو محدود کئے جانے پر کئی دشوار کن اخلاقی سوالات بھی پیدا ہو جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ زندگی میں مقدس ’فطرت‘ میں توازن برقرار رکھنے کا نظریہ مذہبی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے جو کہ فطرت کی فیض رسائی اور سخاوت کی حدود میں زندگی گزارنے کا انسان کو درس دیتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پرنس چارلس نے اپنے خطاب کے دوران ماحولیات کے تعلق سے جو نظریہ پیش کیا تھا، اس میں سب سے پہلے قرآنی تعلیمات کے تحت فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کا پیغام دیا تھا۔ چنانچہ ماحولیات کے تعلق سے پوری دنیا میں آج جو اضطراب دیکھا جا رہا ہے اس کا صرف اور صرف ازالہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ اسی لئے اسلام کے روحانی اصولوں کے مطابق عمل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close