Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

وہ وقت بھی آنے والا ہے جو خون رلانے والا ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

دوسرے دور کے 18دنوں کے لاک ڈاؤن میں شدید ترین عوامی بے چینی کا ایسا منظرنامہ ابھرا ہے کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ عوام خاص کر غریب طبقہ اور مزدور پیشہ افراد 3 مئی تک کورونا کا مقابلہ کرنے کے بجائے کہیں بھوک سے پریشان ہوکر سڑکوں پر نہ اتر آئیں، حالانکہ اس کی شروعات ممبئی کے باندرہ، گجرات کے سورت، احمدآباد، حیدرآباد سے لے کر بہار کے نوادہ اور بنگال کے آسن سول سے ہوچکی ہے۔ سڑکوں پر اترنے والا یہ غریب طبقہ جس کی زندگی کا انحصار یومیہ کمائی پر ہے، وہ اب دانے دانے کے لئے محتاج ہے۔ لاک ڈاؤن کے تحت 3مئی تک گھروں میں قید رہنا ان کے لئے جان جوکھم بنا ہوا ہے۔ بھوک ودیگر مسائل سے پریشان لاکھوں مزدور اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں اور اپنوں کے درمیان رہنا چاہتے ہیں۔ چند دنوں قبل ممبئی کے باندرہ ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں مزدوروں کا اژدحام مایوسی کا بڑا تکلیف دہ منظرنامہ ہے، وہیں چند دنوں قبل دہلی کے آنند وہار میں بھی ہزاروں مزدور جمع ہوگئے تھے اور انہیں جیسے تیسے بسوں کے ذریعہ یوپی وغیرہ بھیجا گیا تھا۔ گجرات کے سورت اور احمدآباد وغیرہ میں مزدور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں گھر واپس بھیجا جائے، یہ مطالبہ روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے اوریہ حقیقت ہے کہ خالی پیٹ سے نہ دیش بھکتی ہے اور نہ قومی فریضہ ادا کیا جاسکتا ہے، اسی لئے بس اپنوں کے پاس جانے کی للک ہے۔ چنانچہ ایسے نازک دور میں جب پورا ملک لاک ڈاؤن کے نرغے میں ہیں، ان مزدوروں کو سختی سے روکنے کے بجائے، بڑی ہمدری، بڑے تحمل اور بہت ہی دوراندیشی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو تو سرکار ان مزدوروں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کا نظم کرے، بھلے ہی اپنے علاقوں میں پہنچنے کے بعد انہیں 14دنوں کے لئے کوارنٹین کر دیا جائے تاکہ کورونا کے خلاف لڑائی کمزور نہ کرے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آج ملک کو دوطرفہ محاذ پر سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف کورونا کی یلغار ہے تو دوسری طرف بھکمری، غذائی قلت اور معیشت کی تباہی کا منظرنامہ ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں پھنسے ہوئے لاکھوں مزدور آج کورونا سے زیادہ غذائی قلت کے شکار ہیں اور اسی کا ردعمل ہے کہ ان میں گھر لوٹنے کی خواہش شدت پکڑتی جا رہی ہے، ایسے ماحول میں خاص کر بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے یہ اپیل ہے کہ وہ مہاراشٹر، گجرات سے لے کر دہلی تک پھنسے لاکھوں بہار کے مزدوروں کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنائیں، کیونکہ نہ ان کے پاس راشن کارڈ ہے، نہ پیسے ہیں اور نہ ان کا کوئی سدھ بدھ لینے والا ہے، ان کے لئے کورونا سے زیادہ بھوک سے لڑنا اہم ہوگیا ہے، ایسے لوگوں کی راحت کاری کے لئے فوری قدم اٹھانا بھی نتیش کمار کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر راشن کارڈ کے، بغیر کسی دوسرے کاغذات کے ان غریبوں کو غذا فراہم کرانے کی صورت پیدا کریں۔

افسوس تو یہ ہے کہ ایک طرف بھوک سے پریشان مزدور طبقہ گھر واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے تو دوسری طرف کورونا کی لڑائی میں ذی ہوش طبقہ کا ردعمل بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں مرادآباد اور ٹونک میں جو کچھ ہوا وہ کم قابل مذمت نہیں ہے۔ مرادآباد میں پولیس ایک مشتبہ مریض کو لے جانے آئی تھی کہ اس پر پتھراؤ ہوگیا اور کل میٹرٹھ میں ایک ڈاکٹر کی پٹائی کا منظرنامہ بھی شرمشار کر رہا ہے، جب اسپاٹ پر پولیس، ڈاکٹروں اور نرسوں کی جانچ کی آمد کو لے کر اس طرح کا رد عمل ہوگا تو پھر ڈاکٹر بھی علاج کرنے سے منع کردیں گے، نرسوں نے پہلے ہی گھر گھر جاکر علاج کرنے سے منع کردیا ہے، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ نہ صرف اپنی کمیونیٹی کے لئے نقصاندہ ہیں، بلکہ کورونا سے لڑائی کو بھی ضرب پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل کہ فوج کمان سنبھالے، کورونا کے خلاف جنگ میں عوامی اتحاد اور میڈیل ٹیموں کا ساتھ دینا ضروری ہے اور ہمیں ہرحال میں یہ سوچنا ہے کہ عوام کا تحفظ کیسے ہو؟

لیکن لاک داؤن کی تمام تر سختی اور ہاٹ اسپاٹ بنائے جانے کے باوجود حکومت کو بھی چاہیے کہ ایک ٹھوس اسٹریجٹیجی کے تحت عوامی بے چینی کو دور کرے، کیونکہ غریب طبقہ جان پر کھیل کر سڑکوں پر آنے کے لئے بھی آمدہ ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے پریشان 5 بچوں سمیت ایک ماں نے گنگا میں ڈوب کر جان دے دی۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ میڈیا اس قیامت کی گھڑی میں بھی نفرت کا کرتب دکھانے سے باز نہیں آ رہا ہے۔ ٹی وی اینکروں کو بھی بھوک سے پریشان عوامی بھیڑ میں سازش نظر آ رہی ہے، حالانکہ دہلی کے آنندوہار سے لے کر ممبئی کے باندرہ تک ہزاروں مزدوروں کی بھیڑ اس بات کا غماز ہے کہ بھوک کی آگ سے بوکھلا کر لوگ اپنے گھروں تک پہنچنا چاہتے ہیں، ان کی نظر میں تو اب پہلے اپنی جان ہے، پھر جہان ہے۔

لاک ڈاؤن کو 25 روز سے زائد ہوچکے ہیں، متاثرین کی تعداد 14 ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے، حالانکہ ہیلتھ سیکرٹری لواگروال نے کہا ہے کہ اب مریضوں کی تعداد کی رفتار آدھی ہو چکی ہے، مگر کیا کورونا سے لڑنے کا حل صرف لاک ڈؤان ہے؟ اس پر راہل گاندھی نے بھی سوال کھڑے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن ایک ’پاگ بٹن‘ کی طرح ہے، جس کا مقصد ٹالنا ہے، مگر ٹالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کورونا سے لڑنے کے لئے خاص اسٹریٹیجی بنانی ہوگی، کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک بھیانک معاشی تباہی کی طرف گامزن ہے۔

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اسے دوطرفہ فرنٹ پر لڑنا ہے۔ اولاً تو اسے میڈیکل فرنٹ پر کامیابی حاصل کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ کرانی ہے، دوئم ملک کی گرتی معیشت کو بھی تھامنا ہے۔ خاص کر کورونا کی وجہ سے ملک میں بھوک وافلاس اور بدامنی کا جو ماحول پیدا ہوا ہے، اسے نئی حکمت عملی کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آنے والا دور کافی پریشان کن ہے۔ ایسے میں حکومت ریاستوں کو خاطر خواہ فنڈ فراہم کرے تاکہ ریاستیں بھی اپنی سطح پر غریبوں کی راحت کاری کرسکیں۔ بلاشبہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب عوام مزدور طبقہ بدظنی اور مایوسی کے دہانے پر ہیں، ان کی گھر واپسی کا مطالبہ اسی مایوسی کا ردعمل ہے، اس لئے ہم سب کو مل جل کر کورونا سے لڑنے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے کے دکھ درد کو بھی بانٹنے کی ضرورت ہے۔ راشن کارڈ، آدھار کارڈ کی جانچ کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کے چند بول، غذائی راحت کاری اور دیگر سہولتیں بے کسوں کے لئے مرحم ثابت ہوں گے، جو آج کورونا کے بجائے بھوک سے لڑ رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ لاک ڈاؤن میں راحت کاری کے لئے آج خصوصی کابینہ کی میٹنگ کے تحت کئی اہم فیصلے لئے جانے کے امکانات ہیں۔ کاش حکومت کے فیصلے اور اس کی کارکردگی کورونا متاثرین ہی نہیں، بلکہ غریبوں کے زخموں پر بھی مرحم ثابت ہوسکے، حالانکہ جو منظرنامہ ہے بقول شاعر:

وہ وقت بھی آنے والا ہے جو خون رلانے والا ہے
جب لاشوں پر مزدوروں کی بے دردی سوگ منائی جائے گی

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close