Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

سمجھ رہا تھا کہ محفوظ اپنے گھر میں ہوں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

شہریت قانون این آر سی کے خلاف عوام کا سیلاب سڑکوں پر ہی ہے کہ اب این پی آر کا فتنہ تھیلی سے باہر آگیا ہے، جس سے ہر جمہوریت نواز فکر وشعور کو تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ آخر حکومت کی منشا کیا ہے؟ جبکہ حکومت ہر احتجاج مظاہرے کو دبانے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے کیونکہ اس احتجاج اور مظاہروں کا اثر نہ صرف ہندوستان پر پڑا ہے بلکہ دنیا بھی اس سے متاثر ہوئی ہے، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے لیکر مسلم ممالک تک شہریت قانون کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مگر تمام تر عوامی احتجاج اور ہنگاموں کے باوجود حکومت کان دبائے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ کولکاتہ میں ممتا بنرجی ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں، مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ، راجستھان میں گہلوت اور سچن پائلٹ نے احتجاج کیا ہے۔ ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جو شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف گرم نہ ہو، جامعہ میں طلباء کا احتجاج بدستور جاری ہے۔

اوکھلا شاہین باغ دہلی میں کڑاکے کی سردی کے باوجود خواتین کا دھرنا 15ویں دن بھی جاری ہے، مگر احتجاج کا سب سے خوفناک منظرنامہ یوپی کے یوگی راج میں نظر آرہا ہے۔ جہاں مظاہرہ کے دوران 19 افراد مارے جا چکے ہیں۔ 1100 سے زائد افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ 5558 زیر حراست ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق حفاظتی حراست میں لئے جانے والے افراد کی تعداد کشمیر میں زیر حراست 5161 سے کہیں زیادہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یوپی میں تشدد کے الزام میں 48 افراد کی املاک ضبطی کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔ سیکڑوں پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ بلاشبہ اترپردیش کی گرفتاریاں تاریخ کی سب سے بڑی گرفتاریاں ہیں۔ ایک طرح سے یوپی آئین اور جمہوریت کا مقتل بن چکا ہے، جہاں قانون کے محافظ خود لاقانونیت کا حصہ بن کر نازی دور کی یاد دلا رہے ہیں۔ لکھنؤ میں رپورٹنگ کے لئے گئے معروف انگریزی روزنامہ ’دا ہندو‘ کے نمائندے کو صرف اس لئے حراست میں لیا گیا کہ اس کا نام عمر تھا۔ شرمناک اور مسلم توہین کی بھی انتہا ہے کہ اب تک تو دہشت گردوں کے نام اور ان کی تصویریں مشتہر کی جاتی تھیں اب مظاہرین کی تصویروں کے اشتہار چوک چوراہوں پر چسپاں کئے جا رہے ہیں۔

پرینکا گاندھی نے پولیس کی شیطینت کا ایک دلسوز ویڈیو وائرل کیا ہے، جس میں میرٹھ کے سٹی ایس پی اکھلیش نارائن سنگھ پورے لاؤلشکر کے ساتھ کالی پٹیاں لگائے مظاہرین کو دھمکا رہے ہیں۔ ناشائستہ الفاظ ادا کر رہے ہیں، انھیں بڑی قیمت چکانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور پاکستان جانے کو کہہ رہے ہیں۔ یوپی پولیس کا یہ گھناؤنا روپ ویڈیو میں پورے ملک نے دیکھا ہے، جب ہر طرف سے لعن طعن ہونے لگی تو ایس پی صاحب بڑی ڈھٹائی سے بول رہے ہیں کہ چونکہ ہجوم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا تب میں نے یہ جملہ کہا کہ اگر اتنی نفرت ہے تو پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے، اگر یہ صحیح ہے تو پھر انہوں نے ملک دشمن نعرہ لگانے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کاٹجو نے یوپی پولیس کے اس گھناؤنے روپ کو دیکھ کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک نازی دور کی طرف جا رہا ہے۔

دراصل مرکزی لیڈروں سے لے کر اب پولیس کے گلیاروں تک جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ جامعہ ملیہ میں پولیس بربریت اور پھر پولیس کے جھوٹ کا بھی ویڈیو دنیا نے دیکھا۔ این آر سی پر امت شاہ کی پارلیمنٹ میں دھمکیاں بھی سب نے دیکھیں اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ رام لیلا میدان میں مودی نے کتنی معصومیت سے کہا کہ این آر سی کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں چل رہا ہے، لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ کون گمراہ کر رہا ہے، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جھوٹ کی سیڑھی سے بلندی طے کرکے سچ پر قابو پانا ممکن ہی نہیں ہے۔ شہریت قانون، این آر سی اور اب این پی آر کا مکڑ جال ہر ذی شعور کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے، جس کے شکار صرف مسلمان ہوں گے، لہذا مسلمانوں کا سڑکوں پر آنا فطری ہے۔ مگر یہ بڑے حوصلے اور امید کا منظرنامہ ہے کہ اب ہندو بھائی اور طلباء بھی ہمارے حق کی لڑائی لڑنے میں آگے آچکے ہیں، مگر اسٹوڈینٹس ایجی ٹیشن ہندو بھائیوں کی تحریک میں شمولیت خاص کر خواتین کے سڑکوں پر اترنے سے حکومت اندر سے پریشان ضرور ہے اس کے تیور ڈھیلے ضرور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ ہار ماننا نہیں چاہتی، چنانچہ وہ نئی بساط کے ساتھ نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے ساتھ تال ٹھونک رہی ہے۔

شہریت قانون این آر سی کے بعد اب این پی آر بھی سوالوں کے مکڑجال میں دکھائی دے رہا ہے۔ ماہرین قانون سے لے کر اپوزیشن لیڈران تک اس پر سوال کھڑا کر رہے ہیں۔ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ ملک کو گمراہ کیا جا رہا ہے این پی آر این آر سی کی طر ف پہلا قدم ہے۔ حالانکہ این پی آر ہندوستان کے مکینوں کا رجسٹر ہے یہاں رہنے والے خواہ ملکی ہوں یا غیر ملکی سب کی رہائشی کیفیت اس رجسٹر میں درج ہونا لازمی ہے۔ 2010 میں اس کا آغاز ہوا تھا جس میں 15 نکات تھے، لیکن اس بار این پی آر میں مزید 7 نکات شامل کرکے ایک بار پھر شہریوں کو لائن میں کھڑا کرنے کا کھیل کیا جا رہا ہے اور عام خدشہ یہ ہے کہ یہ این آر سی کی ہی ایک شکل ہے تاکہ این پی آر کے ڈیٹا کا استعمال این آر سی کے لئے ہوسکے اور خود وزارت داخلہ نے 2018-19 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں وضاحت کی ہے کہ این پی آر این آر سی کا پہلا مرحلہ ہے، لیکن امت شاہ سے لیکر پرکاش جاوڈیکر تک یہی کہہ رہے ہیں کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے کسی کی شہریت نہیں جانے والی ہے۔ لیکن این آر سی اور این پی آر کو لیکر خود حکومت کے اندر ہی متضاد بیانات اور کنفیوژن ہے۔

بہرحال شہریت قانون این آر سی کے بعد این پی آر کا فتنہ کیا قہر ڈھائے گا یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن ملک کی معیشت جس طرح زبوں حالی کی ڈگر سے گزر رہی ہے، اس پر حکومت کی توجہ مرکوز نہیں ہے۔ آربی آئی نے بھی انتباہ دیا ہے کہ ملک مزید برے دور سے گزرنے والا ہے۔ جی این پی اے 2019 میں 9.3 تھا اب 9.9 پر پہنچ گیا ہے۔ جی ڈی پی 4 فیصد پر آچکی ہے۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری پر توجہ دینے کے بجائے حکومت نئی نئی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ جس کا ملک کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آج این پی آر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے 3941 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لئے اسکیم نہیں بن رہی ہے، بلکہ شہریت جاننے کے لئے لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی حکمت عملی بن رہی ہے۔ مگر بقول راہل گاندھی ”تعصب، نفرت اور بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سیاست کامیاب نہیں ہوگی“۔ شہریت قانون این آر سی اور اب این پی آر کے خلاف ہمارے ہندو بھائی بھی سامنے آگئے ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی برادران وطن بھی لڑ رہے ہیں اور ملک میں امید کی جوت پیدا ہو رہی ہے کہ مذکورہ بالا قانون واپس لئے جائیں گے، مگر اس کے باوجود ہندوستانی مسلمان بہر حال ہراساں و پریشاں ہے۔ بقول حفیظ میرٹھی:

سمجھ رہا تھا کہ محفوظ اپنے گھر میں ہوں
مگر یہ گھر نے بتایا کہ میں بھنور میں ہوں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close