Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

یوں بھی ملتا ہے کبھی ظلم کے پتھر کا جواب

محاسبہ…………….سید فیصل علی

شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف جامعہ سے ابھری احتجاج کی چنگاری نے ملک کے عوام کے غم وغصے کو شعلہ فشاں بنا دیا ہے۔ احتجاج کی آگ میں پورا یوپی جھلس گیا ہے۔ گورکھپور، لکھنؤ، کانپور سے لے کر میرٹھ تک 28 اضلاع پرتشدد مظاہروں کے شکار ہیں، 15 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، لکھنؤ میں پولیس چوکی جلائی گئی ہے، عوامی غم وغصے کا عالم یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی مظاہروں، دھرنوں، جلسے جلوسوں کی آماجگاہ بن چکی ہے اور تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ بھی ہوا ہے کہ جامع مسجد دہلی سے نکلے جلوس کی قیادت ایک ہندو چندر شیکھر آزاد نے کی، جس میں لاکھوں مسلم اور غیر مسلم شامل ہوئے۔ جامع مسجد سے لے کر اوکھلا، بٹلہ ہاؤس جعفرآباد، سیماپوری وغیرہ سورش زدہ اور حساس علاقے قرار دیئے گئے ہیں اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ جب دہلی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں نیٹ سروس اور موبائل خدمات معطل کر دی گئیں اور دفعہ 144 نافذ کی گئی، مگر تمام تر پابندیوں کے باوجود عوام کو سڑکوں پر اترنے سے روکا نہیں جا سکا ہے۔ دہلی سمیت ملک کی ہر ریاست احتجاج اور مظاہروں کے دور سے گزر رہی ہے۔

تامل ناڈو میں لیفٹ فرنٹ کی قیادت میں مظاہرہے ہو رہے ہیں تو بہار میں تیجسوی یادو کی قیادت میں آرجے ڈی نے صوبہ کو ٹھپ کردیا ہے۔ بہار بند اور عوامی مظاہرے سے ثابت ہوتا ہے کہ بہار سے اٹھی آواز اقتدار وایوان وسیاست کو نیا چیلنج دے رہی ہے۔ وہاں کے عوام کو مودی سے زیادہ نتیش کمار کے منافقانہ رویہ سے ناراضگی ہے۔ اہل بہار نے بی جے پی کے قدم روکنے کے لئے لالو نتیش اتحاد کو ووٹ دیا تھا، مگر نتیش کمار نے نہ صرف عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے بی جے پی سے مل کر حکومت بنالی، بلکہ شہریت قانون پر مودی سرکار کی حمایت کرکے اپنا دوسرا چہرہ بھی عیاں کر دیا، لہٰذا اب بہار میں جو جلسے جلوس نکل رہے ہیں، اس میں مرکزی حکومت کی پالیسی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ نتیش کمار کی منافقانہ سیاست کی مذمت بھی ہو رہی ہے۔ بہار کے دبے کچلے عوام خاص کر مسلمان جو کبھی ’نتیش کمار زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے تھے، اب ’نتیش کمار توبہ توبہ‘ کے نعرے لگا رہے ہیں، وہ ان کے اس بیان پر بھی بھروسہ نہیں کر رہے ہیں کہ ”بہارمیں این آرسی نافذ نہیں ہوگا“۔

ادھر پولیس کی بربریت کے باوجود جامعہ ملیہ ہی کے طلباء کا حوصلہ اور عزم پست نہیں ہوا ہے، وہاں شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ جامعہ کے سنسکار اور کردار کا ہی اثر ہے کہ ملک کی 32 سے زائد یونیورسٹیوں کے طلباء واساتذہ اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ جامعہ کی حمایت میں اب بیرون ملک سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی گریز نہیں کہ شہریت قانون، این آرسی کے خلاف ایسا ملک گیر پرجوش عوامی احتجاج 1975 کے بعد نظر آیا ہے۔ 44 برسوں کے بعد عوامی غم وغصے کا یہ عالم نئی تبدیلی کا محرک نظر آ رہاہے۔ دہلی سے لے کر کیرالہ تک کون سا صوبہ نہیں ہے، جہاں لوگ سڑکوں پر نہیں آئے ہیں۔ کون سا بڑا تعلیمی ادارہ نہیں ہے، جہاں کے طلباء نے اس کالے قانون کے خلاف آواز بلند نہیں کی ہے اور خوشگوار منظرنامہ تو یہ ہے کہ شہریت کے کالے قانون کے خلاف برادران وطن بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اپنی خاموشی توڑ کر مسلمانوں کی توہین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ سیکڑوں ہندو دانشور 800 فلمی ہستیاں، پروفیسر، ماہرین قانون حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ججوں تک نے اسے آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔ برادران وطن کی صدائے احتجاج نے ملک کی دم توڑتی ہوئی تہذیب اور گم ہوتی رواداری کے قدموں کو رکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ جن لوگوں نے آزادی کے وقت پاکستان کو وطن قرار دیا، اب انہیں ہی ہندوستان کے شہری کی شکل میں واپس بلایا جا رہا ہے، استقبال کیا جا رہا ہے، لیکن ان مسلمانوں کا جنہوں نے ’ٹو نیشن تھیوری‘ کو خارج کیا اور ہندوستان کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا، آج ان کو ہی حاشیہ پر ڈھکیلا جا رہا ہے، ان کی شہریت پر سوال اٹھ رہے ہیں، یہ گاندھی اور بابا صاحب کے خوابوں کا بھارت نہیں ہے۔ برادران وطن اسی فکر کے ساتھ مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

نئے شہریت قانون کے مطابق ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھسٹ جو افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں، اب گھس پیٹھئے نہیں ہوں گے، انہیں ہندوستانی شہریت ملے گی، تمام مراعات دستیاب ہوں گی، مگر مسلمانوں کو شہریت نہیں ملے گی، ان پر مقدمہ چلے گا، یہی وہ شیطانی تفریق ہے، جس سے ہندوستان کے سنسکار، سیکولر کردار اور آئین کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا ہے کہ وہ شہریت قانون کے بعد این آرسی لائے گی۔ ظاہر ہے کہ این آرسی کا شکار ہندوستان کا وہ طبقہ ہوگا، جس کے پاس اپنے باپ دادا کی زمین وجائیداد کے کاغذات نہیں ہوں گے، یہ مظلوم طبقہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے نوٹ بندی کی طرح دفتروں کے آگے لائن لگاکر کھڑا ہوگا، امیر طبقہ تو پیسے کی بدولت نوٹ بندی کی طرح اس میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔ کجریوال کے مطابق ملک کے 70 فیصد عوام اپنے اجداد کے کاغذات سے محروم ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کی شطرنجی بساط کے تحت ان کو غیرمسلموں کو بھی شہریت ملے گی، جن کا نام این آرسی میں نہیں آئے گا، مگر مسلمان کہاں جائے گا؟

شہریت قانون نے مسلمانوں کو بدسے بدتر بنا دیا ہے، اگر این آرسی میں ان کا نام نہیں آیا تو وہ گھس پیٹھئے قرار دیئے جائیں گے اور وہ ڈٹینشن سینٹر میں بھیج دیئے جائیں گے۔ شہریت قانون اور این آرسی کا یہی تال میل ہندوستان کی پرانی تہذیب اور موجودہ آئین کے تقدس کو پامال کر رہا ہے اور اسی تقدس کو بچانے کے لئے برادران وطن بھی جی جان سے اس کالے قانون کے خلاف سینہ سپر ہو چکے ہیں۔ اس ہندو، مسلم ایکتا نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب وہ اس قانون میں ترمیم کے مشورے مانگ رہی ہے۔ احتجاج سے گھبرائی سرکار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ سی اے اے اور این آرسی سے کسی بھی مسلمان یا غریب کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ حکومت اس قانون کے فوائد گنوا رہی ہے، لیکن سرکار پر اب عوام کا بھروسہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ وہی سرکار ہے، جس نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بے شمار فائدے گنوائے تھے۔ سرکار اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔ چانچہ بی جے پی اعلیٰ کمان نے اسی پالیسی کے تحت اپنے لیڈروں کو اپنے علاقہ کے عوام کے درمیان جانے کی ہدایت دی ہے، مگر بی جے پی کے لیڈران خود عوام میں جانے سے ڈر رہے ہیں، آسام میں بی جے پی خود اس قانون کی مخالف ہے، وہاں کئی بی جے پی ایم ایل اے روپوش ہو چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔

2019 سے امید تھی کہ نئے بھارت کا چہرہ مزید روشن ہوگا، مگر نئے قانون نے یہاں کے شہریوں کو ان کی اوقات بتا دی ہے، لیکن دیر سے ہی سہی ہندوستانی عوام اب ملک کے چہرے کو روشن کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ ہندوستان نے باغیانہ تیور اپناتے ہوئے سرکار کی ملک مخالف، عوام مخالف، آئین مخالف، جمہوریت مخالف، غریب طبقہ مخالف، دلت مخالف اور مسلم مخالف، قانون کے خلاف احتجاج کا جھنڈا بلند کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ جھنڈا اس وقت تک بلند رہے گا، جب تک شہریت کا کالا قانون واپس نہیں لیا جاتا، کیونکہ قانون سب کے لئے یکساں ہوتا ہے، مگر یہ واحد قانون ہے، جس کا مقصد دلوں کو باٹنا ہے۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر بننے والا یہ قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے، چنانچہ سرکار کو اب نہیں بھولنا چاہے کہ اب آئین کے تقدس اور جمہوریت کو بچانے کے لئے عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ حالانکہ عوام کو پھر گمراہی کی افیون چٹانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے، ملت کے کچھ نام نہاد قائد اس میں پیش پیش ہیں۔ مگر جب عوام بیدار ہو جاتے ہیں تو ملت فروشوں کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ آج عوام قیادت کے بنا سڑکوں پر ہیں اور کامیاب ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج خواتین بھی سڑکوں پر ہیں۔ شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف جس طرح خواتین نے اپنے آنچل کا پرچم بنایا ہے، اسے دیکھ کر اب نئے دور کی آمد کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ڈکٹیٹرشپ، نفرت کی سیاست اور دلوں کو باٹنے کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ نیا سال ملک کی تہذیب اور آئین کو سرخ رو کرنے والا سال ثابت ہونے والا ہے۔ بقول شاعر:

یوں بھی ملتا ہے کبھی ظلم کے پتھر کا جواب
آئینہ ٹوٹ کے خنجر میں بدل جاتا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close