Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

پھولوں کی سیاست سے میں بے گانہ نہیں ہوں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک کی سب سے قدیم پارٹی اپنے عبرتناک دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے 135 سالہ وجود پر سوال کھڑا ہو گیا ہے۔ کانگریس کو آج باہری دشمنوں سے زیادہ اندرونی خلفشار سے خطرہ ہے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی کانگریس کو کچلنے کے لئے ہر طرح کی بساط بچھا چکی ہے، کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر انتقامی سیاست کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کانگریس میں سینئروں اور جونیئروں کا خیمہ آپس میں اس طرح برسر پیکار ہے کہ یہ تشویش پیدا ہونے لگی ہے کہ کیا گھر کے چراغ سے ہی گھر کو آگ لگ جائے گی؟

کانگریس کا انتشار صرف پارٹی میں ہی نہیں، بلکہ ہرذی شعور، ہرجمہوری اقدار، ہرسیکولر افکار کے آگے ایک پریشان کن سوال بن کر کھڑا ہے، کیونکہ ہندوستانی سیاست کو جمہوری اقدار دینے والے مہاتما گاندھی اور ہندوستان کے معمار کہے جانے والے جواہر لال نہرو آج سب سے زیادہ معتوب زمانہ ہیں۔ گاندھی جی کے قاتل ہیرو بنائے جا رہے ہیں، انگریزوں کی مخبری کرنے والے مجاہد آزادی کہے جا رہے ہیں۔ ایسے دور میں جب نئی فکروتہذیب کا ہر سمت غلغلہ ہے۔ کانگریس کا بحران، ملک کی خوفزدہ جمہوریت، خاص کر اپوزیشن کو متحد کرنے کی سیاست کے لئے بڑا جھٹکا ہے۔

پارٹی صدر کے عہدے سے راہل گاندھی کے مستعفی ہونے کے بعد کانگریس کے بحران کو سونیا گاندھی نے سنبھال لیا تھا، سونیا گاندھی کے ذریعہ کانگریس کی کمان سنبھالنے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ پارٹی کے اندر کی لڑائی تھم جائے گی اور لیڈر ایک جٹ ہوکر کام کریں گے، لیکن یہاں تو جوتیوں میں دال بٹنے لگی ہے۔ سینئروں اور جونیئروں کے ٹکراؤ نے کانگریس کی بقا پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ تقریبا ہر ریاست میں بوال مچا ہوا ہے۔

راجستھان میں پائلٹ اور گہلوت کے دبدبے کی سیاست، مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ، جیوتی رادتیہ سندھیا کی سرد جنگ اور کرناٹک میں اٹھاپٹک، بنگال کی خستہ حالی کی ایک بڑی وجہ کانگریس کا داخلی انتشار ہے۔ ہریانہ کانگریس کے سابق ریاستی چیف اشوک تنور مستعفی ہو چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کے حامیوں کا سیاسی قتل ہو رہا ہے۔ مہاراشٹر کے سنجے نروپم کا درد ہے کہ راہل گاندھی کے حامی حاشیہ پر دھکیلے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سینئر کانگریسی لیڈر سلمان خورشید نے تو راہل گاندھی کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے لیڈر ہی میدان چھوڑ کر چلے گئے ہیں، راہل گاندھی نے استعفیٰ دے کر مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ موصوف نے قبل ازوقت پیشین گوئی کردی ہے کہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں کانگریس کے جیتنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی کے خلاف سلمان خورشید کے ذریعہ اس طرح سے علم بلند کرنے پر پارٹی میں گھمسان مچا ہوا ہے۔ راشد علوی انہیں پارٹی سے نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔

راہل گاندھی کے خاص رفیق سمجھے جانے والے جیوتی رادتیہ سندھیا کے سر بھی بدل چکے ہیں، وہ بھی کانگریس کو احتساب کی تلقین کر رہے ہیں۔ پارٹی کے سینئر لیڈر ملک ارجن کھڑگے دوٹوک کہتے ہیں کہ نہرو خاندان نے پارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے اہم رول ادا کیا ہے، اس خاندان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، لیکن کچھ لوگ بی جے پی کے اشارے پر الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو کوئی کچھ نہیں بولتا، لیکن جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو یہ لوگ بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ میں کانگریس کے شاندار ماضی اور آج کی خستہ حالی کا جائزہ لیتا ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ عام ورکروں کو ہمت وحوصلہ دینے کے بجائے لیڈروں کی اپنے مفاد کی سیاست کانگریس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کمزور بنیاد پر بنی بلند عمارت ٹکاؤ نہیں ہوتی۔ سیاست بھی شطرنج کی طرح ہے، جہاں وزیر کے میدان سے ہٹ جانے کے بعد کھیل ختم ہونا ہی ہے، آزادی سے قبل کانگریس مکمل انقلاب کی سرخیل تھی، لیکن آج اپنوں میں ہی ذلیل ہو رہی ہے۔

28 دسمبر 1885 کو کانگریس وجود میں آئی تھی، دادا بھائی نوروجی، بدرالدین طیب جی کے بعد، اے او ہیوم، سرفیروز، گوکھلے، راس بہاری گھوش، پنڈت مدن موہن مالویہ، وغیرہ کے بعد 1919 میں کانگریس کی کمان پنڈت موتی لال نہرو نے سنبھالی اور پھر ہندو، مسلم اتحاد کا شاندار دور شروع ہوا۔ 1923 میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1936 میں جواہرلال نہرو کانگریس کے صدر بنائے گئے، ان کی حمایت سے 1940 میں پھر مولانا آزاد کو کانگریس کی قیادت ملی اور آچاریہ کرپلانی، ڈاکٹر سیتارمیاّ سے لے کر آزاد ہندوستان کی دو دہائی تک کانگریس نہرو خاندان کے ابروئے ہدایت وسیاست کی مقلد رہی، پورے ملک میں کانگریس کا ڈنکا بجنے لگا، پھر کانگریس کا تیسرا دور شروع ہوا، اندرا گاندھی کا عروج وقتل، راجیوگاندھی کی حکومت اور قتل کے بعد ملک نے نہروخاندان کی خدمات اور شہادت کو سر آنکھوں پر رکھا۔ کانگریس کی سیاسی تاریخ ایک روشن باب سے متعارف ہوئی۔

آزادی سے لے کر 2019 تک 17 عام پارلیمانی انتخابات میں کانگریس نے 6 میں اکثریت حاصل کی، 2 میں تو اس کی مقبولیت ویسی تھی جو آج مودی کی ہے، 4 مرتبہ کانگریس نے گٹھ بندھن کا ساتھ دیا۔ 49 برسوں تک کانگریس مرکزی حکومت کا حصہ رہی۔ 1947 سے 1965 تک ملک کے پہلے وزیراعظم نہرو تھے، ڈاکٹر منموہن سنگھ 2004 سے 2014 تک کانگریس کے آخری وزیراعظم تھے۔ کانگریس نے آزادی کے بعد 16ویں اور 17 عام چناؤ میں سب سے خراب مظاہرہ کیا۔ 2014 میں وہ صرف 44سیٹیں جیت پائی اور 2019 میں 52سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔ مگر وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ 135 سالہ پرانی کانگریس، نہرو خاندان کی پروان چڑھائی کانگریس، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی شہادت سے مزین کانگریس کو آج اپنے چوتھے دورمیں بدترین صورتحال کا سامنا ہے، اس کی جڑوں میں خود اپنے ہی نمک ڈال رہے ہیں، جو جس ڈال پہ بیٹھا ہے، اسے ہی کاٹ رہا ہے۔

میں اس تصور ہی سے لرز جاتا ہوں کہ اگر ملک میں اپوزیشن ہی نہیں رہا تو ہندوستان بدترین انانیت کے نرغے میں آجائے گا۔ گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار ورواداری کی خوشبوئیں سب گم ہو جائیں گی۔ خاص کر آئین وقانون وعدلیہ کا وقار سب کچھ یرغمال ہو جائے گا، اس لئے اپوزیشن کی طاقت خاص کر کانگریس کی بقا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ لالو پرساد یادو جیل میں ہیں، چدمبرم بھی جیل میں ہیں، ڈی شیو کمار بھی جیل میں، ممتا نشانے پر ہیں، چندرا بابو نائیڈو کی سیاست دم توڑ چکی ہے، بہن جی بھی موقع محل دیکھ کر کچھ بولتی ہیں اور ایسے عالم کانگریس کا انتشار عروج پر ہے۔ راہل گاندھی اپنوں کے ہی نشانے پر ہیں، جو یقینا کانگریس کے مفاد میں نہیں ہے اور قومی سیاست کے بھی منافی ہے۔ اس عمل سے عام ورکروں میں انتہائی غلط پیغام جائے گا، بددلی پیدا ہوگی اور یہ بددلی کانگریس کے بوڑھوں کو بھی پرسکون نہیں رہنے دے گی۔

کانگریس آج ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اس کے افکار، اس کی خدمات بھلے ہی پس پشت ہوگئے ہیں، لیکن آج بھی اس کی خوشبو نئے دور کی وحشت کو زائل کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ بقول شکیل بدایونی:

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچاکر
پھولوں کی سیاست سے میں بے گانہ نہیں ہوں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close