Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

قطب شمالی میں گونجتی صدائے توحید

یوں تو اللہ تعالیٰ اپنی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہے، لیکن اس نے انسان کو تمام جانداروں میں اشرف بنایا ہے۔ انسان ہی کی خاطر کائنات کی تخلیق کی، اسے عقل، شعور اور خوبصورتی عطا کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ تمام جانداروں میں انسان سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اگر اللہ کا بندہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرے، اللہ کی مہربانیوں کو تسلیم کرے، اس کی عظمت کے لئے عبادت کرے تو اللہ کو یہ بندگی بڑی پسند ہے۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور ایمانی حمیت اور حوصلے سے نوازا۔ یہ اس حوصلے اور ایمانی حمیت کا کرشمہ ہے کہ قطب شمالی جیسے برفیلے اور دشوار ترین مقام پر رہنے والے مسلمان بھی جب ایک مسجد تعمیر کرانے کا خواب دیکھتے ہیں تو اس خواب کی تعبیر اللہ تعالیٰ کس طرح پوری کرتا ہے۔ زیر نظر مضمون اسییقین محکم اور اللہ پر بھروسہ کی روداد بیان کرتا ہے اور یہ تلقین کرتا ہے کہ اگر مسلمان حوصلہ کے ساتھ عزم کرے تو اسے منزل ضرور ملتی ہے۔ اللہ پر کامل بھروسہ کرنے والوں کو اللہ کبھی مایوس نہیں کرتا۔ قطب شمالی کے دور دراز علاقہ انووک میں مقیم وہاں کے مسلمانوں نے کس طرح مسجد تعمیر کی اور کس طرح انہوں نے ناممکن کو ممکن بنایا۔ یہ مضمون اسی پر روشنی ڈالتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے انووک کے مسلمانوں کی جدوجہد کی ایمان افروز داستان:

اللہ پر جب مکمل بھروسہ ہو، ایمان میں حرارت ہو، جذبے مخلص ہوں اور دل میں حوصلوں کا طوفان ہو تو ہر منزل طے کی جاسکتی ہے۔ یہ اللہ پر اعتماد کا کرشمہ ہی تو ہے کہ مسلمانوں کے قدم اس خطے تک بھی پہنچ چکے ہیں، جہاں کوئی بسنا تو دور جانے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتا۔ قطب شمالی پر مسلمانوں کی سکونت اللہ کی قدرت کا انوکھا نمونہ ہے، جو انسانی ہمت کی داد بھی دیتا ہے، جہاں سرد ترین، تاحد نظر برف ہی برف، کہیں کہیں برفانی، آواز ہی زندگی کی علامت ہو اس جگہ کی اقامت ایک عجوبہ سے کم نہیں۔ شاید اسی حوصلے اور اسی ایمانی جذبے کے تحت اقبال نے کہا ہوگا:

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

بلاشبہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے عشق کرنے اور مسلمان قطب شمالی کے علاقہ میں اسلام کا ایسا چراغ روشن کیے ہیں جس پر آنکھیں حیرت زدہ ہیں، عمارتیں بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، پانی کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے خیموں میں ہی زندگی محفوظ رہتی ہو، اس برفیلے انووک میں رہنے والے مسلمانوں نے مسجد کو تعمیر کرنے کے لئے کیا کیا منصوبے نہیں بنائے، کیا کیا جدوجہد نہیں کی تب جاکے اس علاقہ میں بڑی مسجد کا قیام عمل آسکا۔ قطب شمالی کی مسجد نومبر 2010 میں یہاں کے مسلمانوں کے لئے عبادت کے لئے کناڈا کے شمال مغربی خطہ میں انووک ٹائون میں قائم کی گئی تھی۔ اس مسجد کے قیام کے لئے یہاں کے مسلمانوں نے جس صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا وہ ان کی ایمانی حرارت کی ایک تاریخی مثال ہے۔ ذرا سوچئے! یہاں پر مسجد کے قیام کے لئے اول 4 ہزار کلو میٹر دور کناڈا میں مسجد تعمیر کی گئی اور بری اور بحری سفر کے ذریعہ چھوٹے سے شمالی ٹائون انووک لائی گئی۔ مسلمانوں کی عبادت کے لئے چار ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے آنے والی مسجد کی آمد بھی بڑی ایمان افروز ہے۔ انووک میںیہ مسجد صرف دنیا کی سب سے طویل سفر کرنے والی عمارت بلکہ یہ امریکہ میں شمالی خطے کی نہایت دور دراز ایک ہی مسجد ہے جس کی تعمیر سے لے کر قیام تک میں نہ صرف انجینئرنگ کا کمال ہے بلکہ یہ انووک کے مسلمانوں کی اللہ پر یقین کامل کی دلیل بھی ہے۔ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے بہت سے صحافیوں اور ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں نے مقامی باشندوں کے ساتھ تاریخی مسجد کی شاندار افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی۔ انجینئرنگ اور بے پناہ حوصلے کی علامت اس مسجد کی تعمیر کے لئے زبیدہ طلاب فائونڈیشن کے سربراہ حسین گشتی نے خصوصی رول ادا کیا۔

گشتی کہتے ہیں کہ جب یہ مسجد تعمیر ہوئی اور اسے 4 ہزار کلو میٹر کے برّی اور بحری راستے کے ذریعہ انووک لایا جا رہا تھا تو ایک جگہ مسجد پل سے ٹکرا کر نیچے گرگئی پھر بھی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور خصوصی ٹریلر کے ذریعہ دوبارہ مسجد کو لادا گیا اور پل پار کرایا گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں اللہ کی مدد ملی اور یہ انووک کے مسلمانوں کے دلی جذبے کی تکمیل کا ہی نمونہ تھا کہ تمام تر دشواریوں، پریشانیوں کے باوجود یہ مسجد بالآخر منزل پر پہنچ گئی۔ اس تاریخی موقع پر انووک شہر کا ایک ایک مسلم فرد اس مسجد کو دیکھنے اور اس کا استقبال کرنے کے لئے بندرگاہ پہنچ گیا تھا۔ اپنی مسجد میں اللہ کی عبادت کرنے کی یہ للک ہی تھی کہ 80 نفوس پر مشمل مرد و خواتین اور بچے ساحل پر پہنچ گئے تھے۔ یہ ایسا پہلا موقع تھا جب پورے انووک میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نہیں تھا۔ اس قصبہ میں اس وقت چند چھوٹی گاڑیاں تھیں، جو مسلمانوں کے ذریعہ چلائی جارہی تھیں، جب مسجد بحری جہاز کے ذریعہ انووک پہنچ گئی تب ایک مقامی باشندے عامر سلیمان نے بے ساختہ کہا تھا بے شک یہ ایک شاندار مسجد ہے او راب ہر مسلمان کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ یہاں اجتماعی نماز ادا کرے گا، یہاں دین کی تعلیم بھی دی جاسکے گی۔ انووک 3ہزار نفوس پر مشتمل ٹائون ہے۔ کناڈا کے شمالی خطہ میں واقع انووک میں مسلم آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور تقریباً سو کا اضافہ ہوگیا ہے، یہاں کے مسلمان 3×7 میٹر کے رقبہ والی ایک جگہ پر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کے مسلمانوں کی بڑی خواہش تھی کہ کاش کوئی ان کی مسجد ہوتی، لیکن یہاں مسجد بنانا بھی ایک جہد مسلسل سے کم نہیں ہے۔

مسجد کمیٹی کے رکن عامر سلیمان نے مسجد کی تزئین میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نئی مسجد کا بڑا ہال لال سرخ قالین سے مزین ہے۔ انووک کے شہریوں کی دینی تعلیم کے لئے اس میں ایک لائبریری کا بھی قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ مسجد میں ایک مطبخ بھی ہے۔ سلیمان کہتے ہیں کہ اس مسجد کو ٹنڈرا مسجد کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ آسمان حالانکہ سیاہی مائل سفید رنگ کا ہے تاہم اس مسجد کے مینار چمکدار ہیں، باہر کی جانب زیادہ سردی بھی نہیں ہے۔ لوگوں کی کثیر تعداد بھی اس مسجدمیں نماز پڑھنے کے لئے آرہی ہے۔ مسجد کے مقامی پروجیکٹ کے کوآرڈی نیٹر احمد الخلف کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں میں اس قصبہ میں نئی مسجد تعمیر کرانے کی گنجائش نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خطے میں تعمیری اشیا کی قیمت بہت زیادہ تھی، لیکن یہ انووک کے مسلمانوں کا ایمانی جذبہ ہی تھا جو اللہ کو پسند آیا۔ انہیں منی ٹوبا میں ایکایسا سپلائر مل گیا جو پہلے سے تیار شدہ عمارت سپلائی کر سکتا تھا، اس سے رجوع کیا گیا اور پھر نصف قیمت ادا کرنے پر اس سپلائر نے بذریعہ بحری جہاز مسجد کی عمارت کو انووک کے اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ داری لے لی، جہاں اسے قائم کرنا ہے۔ الخلف بڑی مسرت سے کہتے ہیں کہ مقامی باشندوں نے بھی 140 مربع میٹر اراضی خریدنے کے لئے چندہ جمع کیا اور اسے پیش کیا۔

عامر سلیمان انووک میں کثیر جہتی ثقافتی میلے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال تک مسجد کے لئے فنڈ جمع کرنے کے بعد مسجد کے انووک صحیح سلامت پہنچنے پر بھی ایک اضطراب کا عالم تھا، لیکن مسجد کا قیام ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ سوڈان سے تعلق رکھنے والے اور قصبہ میں ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے محمود الحرادی کا کہنا ہے کہ اب مسلمانوں کے لئے ایک عبادت کی جگہ مل گئی ہے۔ ہر ایک کے دل میں اطمینان ہے کہ اب اسے عبادت اور اجتماعی نماز ادا کرنے کے لئے جگہ بھی دستیاب ہے۔ چنانچہ ہم یہ منصوبہ بنا رہے ہیں کہ اس مسجد کو کمیونٹی سینٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جائے۔

انووک کی اس تاریخی مسجد کی تعمیر و قیام تک کا سفر بھی بڑا حیرت ناک ہے۔ اگست کے اواخر میں اس زردی مائل مسجد نے اپنے بحری سفر کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے کناڈا سے ایک بہت بڑے ٹرک کے ذریعہ ساحل تک لانے کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ مغربی کناڈا کے وسیع سبزہ زاروں اور جنگلات سے ہوتے ہوئے یہ ٹرک شمالی مغربی علاقہ کے Great Slave Lake کے ساحل تک پہنچنے کے لئے کئی دشوار کن مراحل سے گزرا۔ یہ مسجد Hay River تک پہنچی پھر اسے سامان ڈھونے والی بڑی کشتی میں منتقل کیا گیا، وہاں سے اسے انووک تک Mckenzie River تک لایا گیا جوکہ قطب شمالی علاقہ میں تقریباً 200 کلو میٹر شمال میں ہے۔ اس مسجد کے دس میٹر لمبے مینار کو مقامی طور پر ہی تیار کیا گیا ہے، جو اس سفر میں شامل نہیں تھا اسے مسجد کے انووک پہنچنے پر فٹ کردیا گیا تھا۔ حیرت ناک بات تو یہ ہے کہ جب یہ مسجد ایک زیر تعمیر تنگ پل کے نیچے سے گزر رہی تھی تب اس کا فلیٹ بیڈ (Flatbed) ندی میں گرگیا تھا۔ مسجد اپنی آخری کشتی سے بھی محروم ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ Hay River میں طغیانی کے سبب کشتیوں کے کام میں بھی تاخیر ہو رہی تھی۔

بہرحال اس مسجد میں عبادت کرنے والے زیادہ تر لوگ سوڈان، لبنان اور مصر کے تارکین وطن ہیں۔ الحرادی کہتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں سے زائد عرصہ سے انووک کے مسلمان اس بات کے لئے دعاگو تھے کہ 3×7 میٹر کے ایک کمرے کے بجائے ایک نئی خوبصورت مسجد یہاں تعمیر ہوجائے اور وہ وہاں اللہ کے دربار میں سربہ سجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کی لاج رکھ لی۔ انجینئرنگ نے کمال دکھایا، مسلمانوں کے صبر اور حوصلے کی وجہ سے کناڈا میں تعمیر مسجد انووک 4ہزار کلو میٹر کا بری اور بحری سفر کرکے بالآخر اپنی منزل تک پہنچی تو انووک کے مسلمانوں نے ساحل پر ہی نئی مسجد کا استقبال کیا اور شکرانے کے طور پر وہیں سربہ سجود ہوگئے۔ اب یہاں کے مقامی مسلمان نہ صرف یہاں اجتماع پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں بلکہ نماز عیدین کا بھی بہترین نظم کرتے ہیں۔ اس موقع پر وہ خوشیاں مناتے ہیں اور انووک کے لائونج میں دعوت عام کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

الحرادی کہتے ہیں کہ ہم نماز ادا کرنے کے لئے انووک کی مسجد میں جاتے ہیں، اپنی تقریبات کا اہتمام بھی وہیں کرتے ہیں، اب ہمیں ایک بہتر اور بڑی جگہ دستیاب ہوگئی ہے۔ انووک کے ایک دیگر مسلمان کیری القادری کے مطابق اس مسجد کا نام ابتدا میں ٹنڈرا رکھا گیا تھا، لیکن باقاعدہ کسی نام کا انتخاب نہیں ہوا تھا، لیکن اب اس مسجد کو مسجد فضل الٰہی (Graceful Mosqe) کے نام سے منسوب کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ مسجد اللہ کے فضل سے ہی اپنے 4 ہزار میل کے سفر کے نشیب وفراز سے گزر کر وجود میں آئی ہے۔ مسجد کا ایک بڑا اسٹرکچر تیار کرانے اور اسے انووک تک لانے میں زبیدہ فائونڈیشن کا اہم رول ہے۔ مسجد کو نئے خدوخال دینے میں اسے 200,000 ڈالر کی بچت بھی ہوئی ہے۔ فائونڈیشن مسجدوں کی تعمیر کے لئے فنڈ جمع کرتی ہے پھر اسے تعمیر کراتی ہے اور جس جگہ اسے فٹ کرنا ہے وہاں لے جاتی ہے۔ 2007 میں بھی فائونڈیشنونی پیگ سے تھا مسن تک مسجد لاکر اسے قائم کرچکا ہے۔ فائونڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے جتنے بھی پروجیکٹ اپنے ہاتھ میں لئے ان میں تھامسن میں واقع مسجد (زبیدہ طلاب مسجد) سب سے بڑی اور سب سے شاندار مسجد ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کناڈا حکو مت نے بھی فائونڈیشن کی مالی حالت کے استحکام کے لئے تعاون دیا تھا۔

2007 میں کل محصولات کا 90 فیصد حصہ دیگر کاوشوں سے جمع ہوا اور اس رقم سے سینی ٹوبا میں شمالی ٹوبا کے شمالی گوشے میں پانچویں مسجد تعمیر کرائی گئی۔ سینی ٹوبایہیہ واحد ایسی مسجد ہے جو یہیں کی زمین پر تعمیر کرائی گئی اور اس کو غیر عیسائی مذہبی عمارت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ سینی ٹوبا اور اسلامک ایسوسی ایشن کو منظر عام پر لانے والے تھامسن کے مسلمانوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے یہ مسجد ایک ریکارڈ مدت میں تعمیر کی گئی تھی۔ سٹی آف تھامسن کے ساتھ اراضی خریدنے کا یہ معاہدہ 18جنوری 2007 کو ہوا اور 40 دنوں کے اندر اراضی خریدنے کی پیشکش بھی کردی گئی۔ اس کا سائٹ پلان، فلور پلان، بلیوپرنٹ، تعمیراتی نقشہ اور ڈیولپمنٹ کا معاہدہ بھی تیار ہوا۔ ایک ماہ بعد مسجد کی تعمیر کرانے کے لئے وینی پیگ میں تیاریاں شروع ہوگئیں اور پھرایک ماہ میں تھامسن میں زمین کھودنے کا کام بھی شروع ہوا۔ انووک میں مقیم درجنوں مسلم خاندانوں نے کناڈا کے کسی علاقہ میں رہنے کے لئے اپنے بچوں کو بھیج دیا تھا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انووک میں نہ کوئی مسجد تھی اور نہ کوئی اسلامی تعلیم کا مرکز تھا۔ لہٰذا اسی آرزو کے تحت انووک کے مسلمانوں نے مسجد تعمیر کرانے کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کیا تھا، لیکن وہاں پر شروع میں صرف 100 افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا مسلم طبقہ تھا، جبکہ اسلامک فائونڈیشن کو وینی پیگ میں اس مسجد کو تعمیر کرنے کے لئے اسے بذریعہ بحری جہاز لانے میں تقریباً 3000,000 ڈالر کا صرفہ تھا۔ اسی کی وجہ سے انووک کے اسلامی کمیٹی کو مزدوری اور سامان کی قیمت میں 10ہزار ڈالر کی بچت تھی۔

زبیدہ طلاب فائونڈیشن کے سربراہ حسین گشتی کہتے ہیں کہ جب یہ مسجد 4 ہزار کلو میٹر کا بری و بحری دشوار ترین سفر کرکے یہاں پہنچی تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے۔ مسجد کی آمد کا یہ دلفریب منظر تھا۔ فائونڈیشن کو ایک تاریخ ساز حصولیابی کا احساس ہوا تھا، حالانکہ اس منصوبہ کی ہر سمت مخالفت ہوئی۔ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ یہ کام ناممکن ہے۔ ایک دوردراز علاقہ میں مسجد تعمیر کرکے دوسری جگہ پہنچانا بھی کوئی آسان نہیں ہے، لیکن اللہ کی مہربانی اور حوصلے سے ہم نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ در اصل یہاں کے ہر شخص نے فراخ دلی اور ہمت کا جو مظاہرہ کیا اس سے مسجد کے قیام میں بڑی مدد ملی، جو انسانی حوصلے کی ایک بڑی مثال کہی جاسکتی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close