Khabar Mantra
محاسبہ

یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

مارچ میں لوک سبھا انتخابات کی تاریخ کے اعلانات متوقع ہیں لیکن 2019 کے الیکشن کو محض چند ماہ رہ گئے ہیں تو بی جے پی کو شکست دینے کے لئے گٹھ بندھن کے نئے نئے منظر نامے ابھر رہے ہیں۔ مودی اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ریاست میں تیسری قیادت کا وجود ابھر رہا ہے۔ آندھرا میں چندر بابو نائیڈو، تلنگانہ میں کے سی رائو، تمل ناڈو میں اسٹالن تو بنگال، بہار، یوپی میں ممتا بنرجی، تیجسوی، اکھلیش، مایاوتی تک مہاگٹھ بندھن کے لہریے در لہریے نظر آ رہے ہیں۔ ملک میں ہر سمت مہاگٹھ بندھن کے چکر وہیو میں بی جے پی خود کو پھنستا ہوا دیکھ رہی ہے اور اس سے نکلنے کے لئے تابڑ توڑ فیصلے کر رہی ہے، منصوبوں کا پٹارہ کھول رہی ہے، سادھو سنتوں، کسانوں، اونچی ذات کے لوگوں کی ناراضگی دور کرنے کی سعی کر رہی ہے۔اسے خدشہ ہے کہ جس طرح راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کسانوں اور اونچی ذات کے ووٹروں نے بی جے پی کے اقتدار کا تختہ پلٹا ہے کہیں یہ تختہ پلٹ کا منظر 2019 میں بھی نہ ابھر جائے۔

چنانچہ وہ گٹھ بندھن کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی عجلت سے فیصلے کر رہی ہے۔ اونچی ذات کے غریبوں کے نام پر آناً فاناً 10فیصد ریزرویشن بل کو منظورکرانا، صدر کی منظوری لینا، گجرات میں اسے نافذ کرا دینا یہ اسی ہڑبڑی کی سیاست ہے لیکن عین الیکشن کے وقت لایا گیا بل اونچی ذات کے لوگوں کو کس حد تک متاثر کرے گا یہ بڑا سوال ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اس بل کو لے کر زیادہ پُر امید نہیں ہیں کیونکہ تمام تر ریزرویشن کے جھنجھنے کے باوجود اونچی ذات والوں اور کسانوں کے تیور ڈھیلے نہیں ہوئے ہیں۔ ریزرویشن بل اونچی ذات والوں کو دو خیموں میں منقسم کر چکا ہے۔ اونچی ذات والوں کی دو حصوں میں خیمہ زنی پارٹی کو مزید رسوا نہ کر دے، اس کے بھی خدشات ابھر رہے ہیں کیونکہ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ یہ بل راجیہ سبھا سے پاس ہی ہوا تھا کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی ڈال دی گئی اور تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اس معاملہ کو لے کر ہائی کورٹ جا پہنچی ہے۔ ریزرویشن بل قانونی پیچ و خم کا شکار نہ ہو جائے، ریزرویشن کا تیر بے کار نہ ہو جائے اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

لہذا بی جے پی اب اپنی بقا کے لئے یو پی، بہار میں اپنی سیٹوں کو بچانے کے لئے پوری قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ آر پار کی جنگ لڑنے کو تیار ہے۔ یو پی میں نفرت کی سیاست عروج پر ہے اور اب ممتا کے بنگال میں بھی بی جے پی اپنی سٹیں بڑھانے کے لئے کوشاں ہے تاکہ ہندی بیلٹ میں گنوا چکی اپنی سیٹوں کی کمی بنگال سے پوری کرے لیکن یہاں بھی بی جے پی کی بدقسمتی ہے کہ خود سپریم کورٹ نے نفرت کی لہر پیدا کرنے والی بی جے پی کی رتھ یاترا پر بریک لگا دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نارتھ ایسٹ میں بھی بی جے پی کی حالت خستہ ہے۔ آسام میں این آر سی اور شہریت ترمیمی بل کو لے کر لوگ سڑکوں پر ہیں۔ وہاں بھی بی جے پی دو خیموں میں منقسم ہے۔ کہتے ہیں کہ مصیبت جب آتی ہے تو چو طرفہ آتی ہے، ایک طرف آر ایس ایس وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، سادھو سنت سماج مندر بنانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں، سرکار کو لعن طعن کر رہے ہیں تو دوسری طرف پارٹی کارکنان اپنے لیڈران سے سخت خفا ہیں اور ان میں بد دلی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک تازہ ترین سروے کی رپورٹ کے مطابق سب سے بری حالت یوپی کی ہے۔ یہاں کے پارٹی کارکنان اپنے 60فیصد ارکان پارلیمنٹ سے ناراض ہیں۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ خطرہ اتر پردیش سے ہے کہ جہاں اکھلیش۔مایا کا اتحاد ان کے اقتدار کا گلا گھونٹ سکتا ہے تو رہی سہی کسر پارٹی کے بھتیر گھات سے بھی پوری ہو جائے گی۔ یوپی میں پارٹی کے اندر یوگی حکومت کے خلاف زبردست خلفشار ہے۔ کابینہ وزیر اوم پرکاش راج بھر نے یوپی کی 80 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کرکے بی جے پی کو ایک جھٹکا دیا ہے لیکن بی جے پی کو یوپی میں سب سے بڑا جھٹکا مایاوتی اور اکھلیش سے لگا ہے۔ پارٹی کارکنان و علاقائی لیڈران حوصلہ کھو رہے ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر راجناتھ سنگھ تو بہت قبل ہی اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ گٹھ بندھن سے بی جے پی کو بے حد نقصان ہو سکتا ہے، بی جے پی کے سینئر لیڈر سنگھ پریہ گوتم نے قیادت تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ آر ایس ایس نے بھی جو سروے کرائے ہیں، اس میں اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ بی جے پی کو یوپی میں بہت گہرا دھکا پہنچے گا، سیٹوں میں بہت کمی آئے گی۔ اگر سرکار بنتی بھی ہے تو مضبوط نہیں مجبور سرکار بنے گی۔

بلاشبہ یوپی بی جے پی کے لئے اقتدار کے دروازے کی کنجی ہے۔ ریاست کی 80 سیٹوں والے انتخابات دراصل بی جے پی کے لئے آئرن گیٹ ثابت ہوں گے، جن کو پار کرکے ہی دہلی کے قلعہ میں براجمان ہوا جا سکتا ہے۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق یوپی میں مہا گٹھ بندھن کے بعد ایس پی۔بی ایس پی نہ صرف ریاست میں سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے گی بلکہ بی جے پی کے کئی قومی اور قد آور لیڈروں کو عبرت ناک شکست سے بھی دو چار کرے گی۔ اگر 2014 جیسا ووٹنگ پیٹرن رہا تو حکومت ہند میں یوپی کے 12 وزراء میں سے کم از کم 8 بڑے وزیر شکست سے دو چار ہو سکتے ہیں کیونکہ اب یوپی میں پہلے جیسی لہر بھی نہیں ہے، اس کے علاوہ 2014 میں بی جے پی گٹھ بندھن کے تحت چناؤ میدان میں آئی تھی جبکہ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس وغیرہ الگ الگ لڑ رہے تھے اور اب تو اکھلیش-مایا ساتھ ساتھ ہیں اور یہ ساتھ بی جے پی کی بساط الٹ سکتا ہے۔ 2014 میں مودی لہر کے دوران این ڈی اے کا ووٹ شیئر 42.6 تھا۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں ووٹ شیئر 39 فیصد پر آ گیا۔ اگر ہم 2012 کے اسمبلی الیکشن میں سماج وادی پارٹی کا جائزہ لیں تو اس وقت ایس پی کو 29 فیصد ووٹ ملے تھے اور بی ایس پی کو 20 فیصد۔کانگریس کو 7 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اگر یہی منظر نامہ 2019 میں نظر آیا تو بی جے پی کی جھولی میں چند سیٹیں آجائیں تو غنیمت ہے۔

بہر حال، یوپی میں مایاوتی اور اکھلیش گٹھ بندھن سے قومی افق پر تیسری قیادت کی شفق پھیل چکی ہے اور آج کی سیاست کا نیا منظر نامہ ہے کہ ہر ریاست میں ایک مضبوط تیسری قیادت کا پلیٹ فارم بن رہا ہے اور بی جے پی کے قدموں میں بیڑیاں ڈالنے کی حکمت عملی بن رہی ہے۔ یہ حکمت عملی کانگریس کے لئے بھی ایک ہدایت ہے کیونکہ کسی زمانے میں کانگریس کا ریاستوں میں کوئی نہ کوئی مضبوط لیڈر ہوا کرتا تھا، جو پوری قوت اور حوصلہ کے ساتھ ریاست میں پارٹی کی کمان تھامے رہتا تھا لیکن ریاست کی طاقت کم کرکے ساری طاقت مرکز کے ہاتھ میں آنے سے کانگریس بہت نقصان میں ہے اور یہی نقصان جہاں بی جے پی کے فروغ کا سبب بنی ہے وہیں ریجنل پارٹیوں کی مضبوطی کا باعث بنی ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ ریجنل پارٹیاں پی ایم کے امیدوار کے نام پر کھل کر سامنے نہیں آ رہی ہیں۔ تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ جس پارٹی کے ارکان زیادہ ہوں گے وہی سکندر ہوگا۔ بہر حال یوپی میں اکھلیش مایا گٹھ بندھن نے بنگال کو بھی جلا بخشی ہے۔ کولکاتہ میں منعقد 20 پارٹیوں کی میگا ریلی بی جے پی کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اکھلیش یادو نے اس موقع پر اعلان کیا ہے کہ بنگال سے جو ہوا چلتی ہے، اس کے اثرات ملک پر پڑتے ہیں۔ یوپی میں ایس پی-بی یس پی گٹھ بندھن والا دلت مسلم، پسماندہ طبقات کا متحدہ پلیٹ فارم ایسا حوصلہ افزا ثابت ہوا ہے کہ لوگ ابھی سے ملک میں نئے وزیراعظم کا انتظار کرنے لگے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کو نئی صبح سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ بقول شہر یار:

اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close