Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ہمالیہ کی گود میں اسلام کے نقوش

ہمالیہ کی حسین وادیوں کے زیر سایہ نیپال ہندوستان کا سب سے قریبی دوست اور پڑوسی ملک ہے، جس کا رقبہ 147.181 مربع کلو میٹر ہے، جس کی تہذیب وثقافت پر ہندوستانی کلچر کی زبردست چھاپ ہے۔ نیپال میں شروع سے ہی راجاؤں کی حکومت تھی، لیکن ماؤنوازوں کی تحریک کے بعد نیپال میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ نیپال کے راجہ سے مسلمانوں کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ راجہ مسلمانوں کے علم وہنر اور ایمانداری، وفاداری سے متاثر تھا۔ چنانچہ یہاں پر مسلمانوں کو تجارت سے لے کر انتظامی امور کے اہم مراکز پر سرفراز کیا گیا۔ راجہ کی اسی فیاضی اور وسیع النظری سے مسلمانوں کی معیشت اور دینی خدمت کو فروغ ملا۔ نیپال میں مسلمانوں نے بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کیے تو ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دین وعلم کا مینار بھی تعمیر کرایا، مسجدیں بھی بنوائیں۔ ایک ہندو اسٹیٹ میں مذہبی رواداری کی یہ شاندار مثال نیپال کی ثقافت کا جلوہ ہے۔ اگرچہ بعد میں سیاسی بحران سے مسلمانوں کی معیشت کو تھوڑا نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود وہاں کے مسلمان ترقی کی نئی منازل بھی طے کر رہے ہیں۔ حالات خراب ہونے کے باوجود وہاں کے مسلمان نئی حکمت عملی کے ساتھ ملک وملت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ زیر نظر مضمون نیپال کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ وہاں کے مسلمانوں کی جدوجہد کو بھی اجاگر کر رہا ہے اور ہمیں تلقین کر رہا ہے کہ ایک مسلمان خواہ وہ یوروپ، امریکہ میں رہتا ہو یا نیپال میں مقیم ہو، وہ روزگار کی حصولیابی کی مشقت کے ساتھ ساتھ دین کے فروغ کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے۔ نیپال کے نئے سیاسی منظر نامہ میں وہاں کے مسلمانوں کی یہ جدوجہد ان کی ایمانی حمیت کی روشن مثال ہے:

نیپال ہندوستان کا سب سے قریبی ملک ہے جو دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی۔ ہند-نیپال میں تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تہذیبی وثقافتی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ ہندومیتھولوجی کے مطابق یہاں کا شہر جنک پور کافی اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ شہر راجہ جنک کی راجدھانی تھی۔ راجہ جنک مہارانی سیتا کے والد تھے۔ مریادا پرشوتم شری رام نے ایودھیا سے جنک پور تک کا سفر طے کرکے وہاں منعقد سوئمبر کے مقابلہ میں حصہ لیا تھا اور فاتح ہوئے تھے۔ مہابھارت کی پرانی کتھائوں میں بھی نیپال کے کئی شہروں کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوروؤں سے شرط ہارنے کے بعد پانڈو نیپال کی ہی کسی نامعلوم جگہ پر روپوش ہوئے تھے۔ چنانچہ اس ملک میں ہندو رسم و رواج اور ثقافت آج تک مضبوط ہے، جس کی وجہ سے نیپال دنیا کی واحد ہندو ریاست کہی جاتی ہے۔ نیپال، اترپردیش اور بہار کی سرحدوں پر واقع ایک چھوٹا پہاڑی ملک ہے اور ہمالیہ کی گود میں واقع ہے۔ ہندوتہذیب وثقافت کے علمبردار نیپال میں بہت سارے مندروں کے ساتھ ساتھ کئی آستانے بھی موجود ہیں، یہاں پر کچھ بودھ مذہب کے پیروکار بھی نظر آتے ہیں۔ شاید بدھوں کی سکونت چین کے پڑوسی ہونے کا نتیجہ ہے یا پھر ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والے بودھوں کے نیپال میں سکونت پذیر ہونے کی وجہ سے بھی ہے، لیکن اس کی ایک تاریخی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نیپال کے مغربی ترائی میں کپل وستو کے راجہ سدھارتھ تھے جنہوں نے نروان کی تلاش میں اپنی حکومت کو خیرباد کہہ دیا تھا اور گیا کی طرف چل پڑے تھے، جنہیں دنیا گوتم بودھ کے نام سے جانتی ہے۔ چنانچہ نیپال کی تاریخی وراثت کے طور پر گوتم بودھ کا ایک بڑا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ بہرحال نیپال میں مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی آبادی بھی موجود ہے۔ یہ مسلمان مشرقی اترپردیش اور بہار کے سرحدی علاقوں سے نقل مکانی کرکے صدیوں پہلے نیپال پہنچے تھے اور انہوں نے اس ہندو ریاست میں اسلام کا چراغ روشن کیا تھا۔ اگرچہ یہاں بہت سارے نسلی گروپ بھی موجود ہیں، لیکن یہاں ہندوؤں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہاں کی فکر وثقافت میں ہندوازم کا بول بالا ہے۔

2011 میں نیپال کی مردم شماری کے مطابق اس ملک کی مجموعی آبادی میں 4.4 فیصد مسلم آباد ہیں، لیکن ایک دوسرے سروے کے مطابق اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 5 سے 10 فیصد تک بتائی جاتی ہے جن میں تقریباً 97 فیصد مسلمان اس ملک کے نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں، جبکہ دیگر 3 فیصد مسلمان پہاڑی علاقوں خاص کر راجدھانی کاٹھمنڈو و دیگر مغربی پہاڑیوں میں آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 ملین ہے۔ نیپالی مسلمانوں کی جن اضلاع میں اکثریت ہے ان میں روتھاٹ (Rauthat) 17.2فیصد بارا) (Bara) 11.9 فیصد اور پرسا (Parsa) میں 17.3 فیصد ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو بہار کی سرحد پر واقع نیپال کے وسطی ترائی والے خطے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ترائی میں واقع کپل وستو (Kapil Vastu) میں 16.8 فیصد، بانکے (Banke) میں 16 فیصد اور نیپال کے مشرقی ترائی والے خطے سراہی میں (Sirahi) میں 7 فیصد، سنساری (Sansar) میں 10 فیصد اور سپتاری (Saptari) میں 10 فیصد مسلمان آباد ہیں، جن کا پیشہ زراعت وتجارت ہے، لیکن براٹ نگر، راج براج، انروا، جنک پور اور بیرگنج وغیرہ میں بھی مسلمانوں کی ایک آبادی ہے جو خصوصی طور پر مشرقی یوپی کے گورکھپور، دیوریا اور لارسے صدیوں پہلے تجارت کی غرض سے نیپال میں سکونت پذیر ہوئی تھی۔ لار کے مسلمانوں نے راجاؤں کے دور میں نیپال میں اپنی صلاحیت اور دانشمندی کا زبردست مظاہرہ کیا تھا، بڑے بڑے انتظامی امور میں لار کے مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا۔ راجہ سے ان کے خاص مراسم رہے، ان مراسم سے نیپال میں مسلمانوں کی تجارت میں فروغ کی راہیں ہموار ہوئیں اور وہ ترقی کے منازل طے کرتے گئے اور پھر سیاست میں بھی انہوں نے حصہ لینا شروع کیا، لیکن نئی حکومت میں ان کی وہ قدر نہیں ہوئی جو سابقہ حکومتوں میں تھی۔ اس کے باوجود یہاں کے مسلمان نیپال کی سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی قیادت نیپال کے مسلمانوں کے لیے کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی قوت کا نتیجہ ہے کہ نیپال کے سرحدی علاقوں میں کئی اہم دینی مدارس بھی قائم کیے گئے ہیں تو کئی علاقوں میں عصری تعلیم کے بھی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ جھنڈا نگر میں مدرسہ سراج العلوم توبیر گنج میں مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیاگیا میڈیکل کالج نہ صرف نیپال میں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بھی بڑے تعلیمی ادارے کے طور پر معروف ہوچکے ہیں۔

نیپال میں مسلمان دور قدیم سے ہی سکونت پذیر ہیں، جیساکہ میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ صدیوں قبل مشرقی یوپی کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نیپال پہنچی تھی اور ترائی کے علاقوں میں مقیم ہوئی تھی۔ انگریز حکومت سے بغاوت کے بعد لکھنؤ سے بیگم حضرت محل خفیہ طور پر نیپال تشریف لے گئی تھیں اور ایک عرصہ تک وہاں مقیم تھیں۔ نیپال وہ ملک ہے جس پر انگریز لاکھ کوششوں کے باوجود قبضہ نہ کر سکے تھے۔ وفاداری، ایمانداری اور سادہ لوحی اس ملک کے خمیر میں شامل ہے۔ اسی مٹی کا اثر تھا کہ بیگم حضرت محل کو نیپال میں ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا اور وہ انگریزوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ بہرحال نیپال کے مسلمانوں نے ہندو اکثریت ماحول میں کئی تاریخی نشیب وفراز بھی دیکھے ہیں۔ انہوں نے اس ہندوملک میں اپنے کردار و عمل سے تجارت کو بھی ہموار کیا ہے اور اسلامی تشخص کا بھی چراغ جلاکر اپنی مضبوط شناخت قائم کی ہے۔ نیپال کی ترائی میں رہنے والے دیگر طبقہ کے لوگوں کی طرح نیپال کے مسلمانوں نے بھی سرحد پار سے یعنی ہندوستان سے اپنے رشتے کی ڈور کو بڑی مضبوطی سے باندھے رکھا ہے۔

آپ نیپال جائیں گے تو آپ کو اترپردیش اور بہار کی ثقافت کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ کہیں کہیں بنگلہ دیشی مسلمان بھی نظر آئیں گے، جو 1971 کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے نیپال آ بسے ہیں۔ نیپال میں مسلمانوں کی تاریخ دراصل 4 مختلف گروپوں پر مشتمل ہے۔ اوّل تو تبت، کشمیر، چوریٹ اور مدھیشی باشندوں کی تاریخ پر مبنی ہے۔ مدھیشی مسلمان جو نیپال کی سیاست کا بھی ایک بڑا حصہ ہے، وہ بانکے، کپل وستو، روپا ندیہی، پرسا، بارا اور روتھاٹ جیسے ترائی والے اضلاع میں مقیم ہیں، یہاں پر کچھ مسلمان اس وقت بھی موجود تھے، جب نیپال متحد تھا، جب کہ دیگر 19ویں صدی میں بطور مزدور یا تجارت کی غرض سے ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ترکی، عرب، تبت، مصر اور ایران سے ترک وطن کرکے یہاں آئے تھے۔ ان میں سے بہت سارے مسلمان زراعتی پیشے سے جڑے تھے اور آج بھی ان کی اچھی خاصی تعداد کاشتکاری میں بطور مزدور مصروف کار ہے۔ یہ مسلمان اپنے گھروں میں اردو زبان بولتے ہیں، لیکن مغربی وسطییا مشرقی ترائی والے علاقوں میں اودھی، بھوجپوری، میتھلییا نیپالی زبان بھی ماحول کے اعتبار سے بولتے ہیں، یہاں انہوں نے مسجدیں بھی قائم کی ہیں، مدارس بھی کھولے ہیں، مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے ملی تنظیمیں بھی قائم کی ہیں۔ مجموعی طور پر نیپال کے مسلمان دنیا کے ساتھ ساتھ دینکی خدمت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

وامشا والس (Vamshavalis) کے مطابق کشمیری مسلمان راجہ راما ملا (1484- 1520) کے دور اقتدار میں کاٹھمنڈو آئے تھے۔ انہوں نے ایک مسجد ’کشمیری تکیہ‘ تعمیر کرائی تھی اور مختلف پیشوں سے منسلک ہوئے تھے، مثلاً دہلی سلطنت کی مناسبت سے کاتبوں، عطر بنانے والوں، موسیقاروں اور چوڑیاں فروخت کرنے والوں کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا تھا۔ یہ تارکین وطن کشمیری کاٹھمنڈو میں رہتے تھے، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ وہ تعلیمیافتہ بھی ہوتے تھے اور اپنے گھروں میں اکثر کشمیری زبان کے بجائے ملی جلی نیپال ییا اردو زبان بولتے تھے۔ 1970 کی دہائی میں پہلی مرتبہ یہاں کشمیری تاجروں کی آمد ہوئی، جنہوں نے کاٹھمنڈو کے سیاحتی مقامات پر نوادرات، قالین، شال ودیگر کشمیری ملبوسات کی دکانیں کھولی تھیں۔ نیپال میں مقیم ہونے والا مسلمانوں کا دوسرا گروپ 17 ویں صدی کے درمیان شمالی ہند کے مختلف حصوں سے یہاں آیاتھا، جنہیں پہاڑی حکمرانوں نے فوجی ساز وسامان بنانے کے لیے مدعو کیا تھا۔ ان تارکین وطن کے ورثا کو حالانکہ یہاں پر چو روٹ (Churaute) یا چوڑی فروش کے طور پر جانا جاتا ہے، تاہم ان میں سے اکثریت نے اب کاشتکاری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ گورکھا، تناہو، کاسکی، سیاہ گنجا، پالپا، ارگاکھانچی، پیوتھان اور ڈیلکھ جیسے نیپال کے بستی اور مغربی اضلاع میں بھی ان پہاڑی مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ یہ تبت نژاد مسلم تارکین وطن ہیں جو لداخ اور تبت سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبت سے زیادہ تر مسلمان 1959میں چینی قبضے کے بعد یہاں آبسے تھے۔ چنانچہ زبان اور لباس کے تعلق سے تبتی مسلمانوں کا طرز معاشرت اپنے بودھ ساتھیوں سے زیادہ الگ نہیں ہے، لیکن ان کے اندر ایمان کی جو پختگی ہے وہ ان کی پیشانیوں اور چھوٹی داڑھیوں سے عیاں ہوتی ہے۔

نیپال میں مسلم اقلیت کا وجود کیسے ہوا اس سلسلے میں جنوبی ایشیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی ہند کی نیپال سے سرحد ملحق ہے۔ سرحد کی ایک خاص ثقافت دونوں طرف ملتی ہے۔ شمالی ہند کے بہت سارے سرحدی خطوں پر سیکڑوں برسوں سے مسلمان آباد ہیں، جن کی آمدورفت نیپال میں ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے نیپال کو ہی اپنا وطن بنائے رکھا۔ معروف مصنف ویسلے کواتو (Wesley kawato) نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ تاریخی ریکارڈوں سے اس بات کی جانکاری ملتی ہے کہ 1400کی آخری دہائی میں راجہ مالیا کے دور اقتدار میں مسلمانوں کا ایک گروپ نیپال میں آباد ہوا تھا۔ راجہ بڑا فراخ دل اور وسیع نظر تھا، چنانچہ مسلمانوں کا ایک گروپ نیپال میں مقیم ہوگیا، وہ سب ہندوستان اور پاکستان کے تاجر تھے۔

1524 میں راجہ مالیا نے نیپال میں بسنے کے لیے مسلمانوں کے دوسرے گروپ کو مدعو کیا، جو علم وہنر میں بھی آگے تھا۔ یہ تمام لوگ فوجی مشیر تھے، جو اس بات سے اچھی طرح سے واقف تھے کہ بندوقوں کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ یہ لوگ نیپالی فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے بلائے گئے تھے۔ راجہ مالیا کا ان مسلم فوجی مشیروں پر بڑا اعتماد تھا۔ راجہ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے اکثر سازشیں ہوتی رہتی تھیں، لیکن مسلم فوجی مشیروں کے کردار وعمل اور حوصلے سے راجہ مالیا مطمئن تھا کہ یہ مسلم مشیر نہ صرف اسے تحفظ دیں گے بلکہ تختہ پلٹنے کی سازشوں کو بھی ناکام کریں گے۔ حالانکہ ایک دور ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوئے۔

1774 میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نیپال سے چلی گئی۔ 1857 میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کا آغاز ہوا، برطانوی تسلط سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے اس جنگ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوگئی، لیکن یہ جنگ ناکام ہوگئی۔ چنانچہ ہندوستان میں باغیوں کے طور پر گرفتاری اور انگریز حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے بہت سارے مسلمان نیپال کے ترائی والے علاقوں میں آکر مقیم ہوگئے۔ حالانکہ ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ 1857 کی آزادی کی پہلی جنگ جسے غدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اسے ناکام کرنے میں نیپال کا بھی اہم رول تھا۔ نیپال کے راجہ نے انگریزوں کو مددکے لیے اپنی فوج بھیجی تھی اور انگریزوں نے بطور انعام ترائی کی سلطنت کو نیپال میں شامل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی گرفت سے دور نیپال میں ایک بڑی مسلم اقلیت مقیم ہوئی اور رفتہ رفتہ اس نے اپنے کردار وعمل اور صلاحیت سے دنیا کی واحد ہندو اسٹیٹ میں اپنی جگہ بھی بنالی۔

1947 کے بعد نیپال میں مسلمانوں نے ترقی کا عروج بھی دیکھا، وہ نیپالی راجہ کے دور میں بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز بھی رہے۔ ایک ہندو اسٹیٹ میں مسلمانوں نے بڑے بڑے چمڑے کے کارخانے (ٹینریاں) بھی قائم کیے۔ دیگر ممالک سے ایکسپورٹ کا کام شروع کیا، ہندوستان سے تجارت شروع کی اور نیپال کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کیا، لیکن وقت کی کروٹ سے اب نیا منظر نامہ ابھر رہا ہے۔ نیپال میں راجہ کے زوال کے بعد اب جو نئی حکومت کا اقبال بلند ہوا ہے، اس دور میں اگرچہ پہلے والی بات نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود نیپال میں مسلمان دینی ودنیاوی میدان کو سر کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ دراصل ان کا گہرا رشتہ ہندوستان سے جڑا ہوا ہے، یہی رشتہ ان کے حوصلے کو تقویت دے رہا ہے۔ اگر آپ سیاحت کی غرض سے نیپال جائیں تو کاٹھمنڈو اور پوکھرا وغیرہ کے قدرتی مناظر آپ کو لطف اندوز کریں گے، لیکن وہاں کے مسلمانوں کے دینی وعصری تعلیمی اداروں سے بھی آپ متاثر ہوں گے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close