Khabar Mantra
محاسبہ

کیرالہ کا سیلاب……..ایک ہوا ہندوستان

محاسبہ...........................سید فیصل علی

1924میں ملک میں جو سیلاب آیا تھا اس نے دنیا میں تباہی کی ایک تاریخ رقم کر دی تھی، لیکن کیرالہ کاحالیہ سیلاب اسے پس پشت کرکے تباہی و بربادی کو اس نہج پر پہنچاچکا ہے جس پر اقوام متحدہ تک میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے اور کیرالہ کی مدد کے لئے اقوام عالم سے اپیل کی جا رہی ہے۔ روس کے صدرپوتن نے بھی وزیر اعظم ہند کو خصوصی خط لکھ کر اپنے دکھ درد کا اظہار کیا ہے۔ شاید اسی عالمی درد کا نتیجہ ہے کہ کیرالہ کی مدد کے لئے سب سے پہلے متحدہ عرب امارات میدان میں اتر ا۔ قطر کے امیر نے 7 سو کروڑ کے راحت پیکج کا اعلا ن کیا ہے۔ چاروں خلیجی ممالک بھی قطر کی مدد کے لئے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ابو ظہبی کے ارب پتی شہری شمشیر نے 50 کروڑ کا اعلان کیا ہے وہ خود بہ نفس نفیس کیرالہ میں صحت، رہائش اور تعلیم پر اپنی رقم کو خرچ کریں گے۔ مگر یہ بھی عجیب بات ہے کہ مرکز سے اب تک صرف 5سو کروڑ راحت پیکج کا اعلان ہوا ہے کیرالہ میں جس طرح کی بھیانک تباہی آئی ہے اس کے مقابلہ میں یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔

کیرالہ کے سیلاب کے آگے 2013کے اترا کھنڈ کی تباہ کاریاں 2014 کے سری نگر کی تباہی 2015کے چنئی کے سیلابی یلغار اور 2017کے بہار کے سیمانچل علاقوں کی بربادی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے. چار سو سے زائد لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ہزاروں لا پتا ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کیرالہ میں 25 ہزار کروڑ کی املا ک کی تباہی ہوئی ہے۔ سیلاب نے وہاں کی سڑکو ں کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔ ریاست بھر میں ایک لاکھ کلو میٹر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں 134 پل بھی بہہ گئے ہیں کوچی کے ساتھ دیگر ایئر پورٹ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیرل میں سینکڑوں تعلیمی اداروں اور 26ہزار مکانات کو پانی نگل چکا ہے۔ 11سو سے زائد سرکاری دفاتر، تجارتی ادارے تنکے کی طرح پانی کے ریلے میں بہہ گئے ہیں۔ 46 ہزار سے زائد مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ 2 لاکھ پولیٹری کا پتا ہی نہیں ہے۔ غرض کہ دس دن کی مسلسل آسمانی بارش کے ریلے نے کیرالہ کا دیوالا نکال دیا ہے۔ یہاں کے 14اضلاع میں 12 اضلاع بالکل تباہ ہو چکے ہیں۔ کیرالہ ایک طرح سے آئی سی یو میں ہے جس کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کے صحت مندہونے میں کتنا عرصہ لگے گا کہانہیں جا سکتا۔ کہتے ہیں سو برسوں میں کیرالہ میں اتنی بارش نہیں ہوئی تھی اس مسلسل بارش نے تمام ندی، نالوں، جھیلوں، تالابوں سڑکوں سب کو یکساں کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے کم کرنے کے لئے ریاست کے 80 پشتوں کے دروازے کھولنے پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نشیبی علاقے بھی ڈوبتے چلے گئے آبی عفریت وایانڈ، ایڈو، منار، تھمر اسری، وانتھری، نرود امبڈی، ٹوہنور وغیرہ کو پانی کے نرغے میں آگئے اور یہاں ایسی تباہی مچی جو قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔

عالمی سطح سے لے کر قومی سطح اور ریاستی سطح کیرالہ کے متاثرین کا جو منظر نامہ ہے انہیں بچانے کا جو حوصلہ دکھایا گیا ہے وہی اصل ہندوستان کی تصویر ہے۔ ہیلی کاپٹر سے ہاسٹل کی لڑکیوں کو نکالنے کا منظر اپنی پیٹھ کو سیڑھی بناکر خواتین اور بچوں کو کشتی میں سوار کرنا انسانی خدمت کی بہترین مثال بھی ہے۔ بلا تفریق ومذہب وملت، محبت اور خدمت کے یہ جذبے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ابھی ہندوستان زندہ ہے۔ مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہندو مہا سبھا اور کچھ دیگر فسطائی تبظیموں نے کیرالہ میں بازآبادکاری اور راحت کاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیرالہ میں بیف کھانے والے لوگ رہتے ہیں اسی لئے یہ تباہی آئی ہے ان کی مدد نہ کی جائے۔ یہ ایک بے ہودہ قابل مذمت سیاست ہے، حالانکہ دس دن میں ہوئی ایسی بارش نے اہل کیرالہ کی اقتصادی کمر کو ایسا توڑا ہے کہ اسے درست کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔ اہل کیرالہ کی مدد فراہم کرنا بھی انسانی فریضہ ہے تو مصیبت کے مارے لوگوں کے لئے ہمدردی کے دو الفاظ بھی کہنا انسان ہونے کی دلیل ہے۔ کیرالہ کی تباہی کے تعلق سے میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ یہ قدرت کا قہر ہے میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس تباہی کے ذمہ دار خود اہل کیرالہ ہیں۔ وہاں کی شہری تعمیری خامیاں ہیں، جہاں پانی کی نکاسی کا ذریعہ نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ کیرالہ ہندوستان کی سب سے خواندہ ریاست ہے، جس پر ہندوستان کو ناز ہو سکتا ہے، چنانچہ نزاع کے عالم میں کیرالہ کو بچانا بھی انسانیت کی شناخت ہے۔

کیرالہ کی مجموعی آبادی 3.48کروڑ ہے، جس میں27فیصد مسلم آبادی ہے۔ ملک کی یہ واحد ریاست ہے جہاں 94فیصد افراد خواندہ ہیں۔ 56فیصد سے زیادہ افراد اعلی تعلیم یافتہ ہیں جہاں کے اسی فیصد مسلمان مرد تعلیم یافتہ ہیں جہاں 70 فیصد عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں یہاں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں رہتی ہے اور اپنی صلاحیت کے جوہر دکھا رہی ہے۔ شاید انہی خدمات کا اثر ہے کہ خلیجی ممالک و مسلم ممالک کی ہمدردیاں بھی اہل کیرالہ کے ساتھ ہیں۔ کیرالہ کی معیشت بھی اور دیگر ریاستوں سے بہتر ہے۔ تادم تحریر 54,000 مکانات کو سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔ دولت و حشمت اور خوش حالی کے ماحول میں رہنے والے10لاکھ سے زائد افراد آج دانے دانے کو محتاج بے سر وسامان کیمپوں میں پڑے ہیں۔ نجی و سرکاری املاک کی بربادی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ریاستی سرکار 20,000کروڑ کے نقصان کا دعوی کر رہی ہے۔ انفرا اسٹرکچر خاص طور سے صحت و تعلیم کا نظام چرمرا گیا ہے اب کیرالہ کو شدید خطرہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کا نظم کیا ہوگا۔ سیلاب اترنے کے بعد وہاں وبائی امراض کی یلغار کو روکنا سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے موقع پر اشد دھیان دینے کی ضرورت ہے اہل کیرالہ غیر معمولی صبر اور مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر فوجی جوانوں، ماہی گیروں، سماجی تنظیموں کی خدمات دلوں کو چھو رہی ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کا خوشنما منظر نامہ اس سیلابی ماحول میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیا ہندوکیا مسلمان ایک ہے ہندوستان کا روافزا منظر بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے کیرل کی راحت کاری کے لئے پورا ملک صدا لگا رہا ہے۔ راہل گاندھی اس المیہ کو قومی آفت قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیرل کی تباہی پر ہندوستان اشک آلود ہے۔ یہاں کے لوگوں کو فی الحال گھریلو اشیا خاص کر اشیائے خوردنی اور دوائوں کی ضرورت ہے تاکہ کسی وبائی امراض کے یلغار کو روکا جا سکے اور اہل کیرل کی زندگی پٹری پر آس کے علاوہ دس لاکھ لوگوں کی بازآبادکاری بھی ایک چیلنج ہے اور سیلاب اترنے کے بعد وبائی بیماریوں سے جنگ لڑنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔

کیرالہ میں بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن میں بھی کیرالہ اہم رول ادا کرتا ہے مگر آج کیرالہ میں سب کچھ پانی کی نذر ہو گیا ہے۔ کیرالہ سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ قدرت سب سے برتر ہے۔ اس کا ہلکا سا اشارہ دنیا کو زیر و زبر کر سکتا ہے۔ آخر میں میرے قلم کا درد یہی ہے کہ قدرت سے چھیڑ چھاڑ بہتر نہیں۔ آلودہ فضا، پیڑوں کی کٹائی، عمارتوں کے جنگلات، گاڑیوں سے نکلتے دھوئیں سب کسی نہ کسی حد تک فطرت کو للکار رہے ہیں۔ آفات یونہی نہیں آتیں، آپ راجستھان کی دھول بھری آندھی کو مت بھولیے جس سے اہل دہلی کا دم گھٹنے لگاتھا۔ گزشتہ مہینے امریکہ کے کئی علاقے سیلاب کی نذر ہو گئے۔ کیرالہ میں سیلاب بھی جغرافیائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اور ہمیں سبق دیتا ہے کہ ترقی کے نام پر ماحولیات کو زخمی کرنے کا کتنا بھیانک نتیجہ ہوتا ہے۔ کیرالہ کا المیہ اہل ہند ہی کو نہیں دنیا کو بھی سبق دیتا ہے کہ ماحولیات میں توازن ضروری ہے۔ فطرت سے گریز کا بھیانک نتیجہ نکلتا ہے۔

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close