Khabar Mantra
محاسبہ

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

جو چیز جتنی رفتار سے اوپر جاتی ہے، اس سے دوگنی رفتار سے نیچے بھی آتی ہے۔ یہ نیوٹن کی تھیوری ہی نہیں بلکہ قدرت کا نظام انصاف بھی ہے۔مودی کا اقبال جس تیزی کے ساتھ صرف ایک برس میں نصف النہار تک پہنچا تھا، اب اسی تیزی کے ساتھ زوال پذیر بھی ہے۔ پانچ ریاستوں کے الیکشن کے نتائج نے یہ منظر نامہ بھی جگ ظاہر کر دیا ہے اور یہ بھی اشارہ دے دیا ہے کہ اقتدار سے بی جے پی کی واپسی شروع ہو چکی ہے اور کانگریس کی آمد کی دھمک بھی ابھرنے لگی ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کے انتخابات نے بی جے پی کے وجے رتھ کو روک دیا ہے۔زہریلی سیاست کی ہوا نکال دی ہے۔ ہر ذی شعور کی تشویش کو راحت میں بدل دیا ہے۔ ہندوتو کا چولا پہنے لا قانونیت، دہشت اور آمریت کی جو چنگھاڑ تھی، اسے بھی خاموش کر دیا ہے۔ وقت کا یہ عجیب منظر نامہ ہے کہ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد تین دنوں تک بی جے پی ہیڈ کوارٹر پر ویرانی چھائی رہی۔ ٹی وی پر نہ امت شاہ نظر آئے اور نہ ہی جیٹلی۔ حتیٰ کہ سمبت پاترا جیسا ترجمان ٹی وی سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ حالانکہ رافیل پر آئے فیصلہ نے بی جے پی میں نئی جان ڈال دی ہے اور ٹی وی پر بی جے پی لیڈران پھر سے اچھلنے کودنے لگے ہیں۔

یہ کیسا روح افزا منظر نامہ ہے کہ ان انتخابات میں نہ صرف مذہبی جنون پیدا کرنے کے لئے، مندر نرمان، گئو کشی کے نعرے بے اثر رہے بلکہ فرقہ پرستی اور نفرت کی ہر سیاست، ہرفطینیت کو عوام نے ایسا نظر انداز کیا ہے کہ اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ پانچ ماہ بعد ہونے والے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ بی جے پی کے لئے ریڑھ کا درجہ رکھتی ہیں۔جب ان ریاستوں پر بی جے پی نے قبضہ کیا تھا تو امت شاہ نے بہ بانگ دہل اعلان کیا تھا کہ اب کانگریس مکت بھارت کا آغاز ہو چکا ہے، لیکن اب ان تین ریاستوں پر کانگریس کا قبضہ ہونے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ وسطی ہندوستان سے بی جے پی کا بوریا بستر گول ہونے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بے روز گاری اور مہنگائی خاص کر فرقہ پرستی سے عاجز عوام نے بی جے پی سے بڑا زبردست انتقام لیا ہے۔ خاص کر ہندو بھائیوں نے دھرم کی دہائی دینے والوں کو ان کا دھرم ہی نہیں بلکہ ان کو اوقات بتا دی ہے۔ نوٹ بندی کا جواب ووٹ بندی سے دیا ہے۔ بجرنگ بلی کو دلت ثابت کرنے کے باوجود دلتوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بھی انتقام لیا ہے اور بی جے پی کا ساتھ چھوڑا ہے۔ پانچ ریاستوں کے الیکشن نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ (Idea of India) آج بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ وہ دیرینہ بہورنگی تہذیب کے بجائے یک رنگی تہذیب کو اپنے دل میں جگہ نہیں دے سکتے۔ ہندوتو کی فکر، نفرت کی سیاست کو قبول نہیں کر سکتے۔ اقدار و سنسکار، رواداری، گنگا۔جمنی تہذیب اس ملک کا اوڑھنا بچھونا ہے، وہ اسے تیاگ نہیں سکتے، ہندوتو کے قالین پر وہ بیٹھ نہیں سکتے۔ پانچ ریاستوں میں بی جے پی کی ہار اسی عوامی فکر کا اظہار ہے اور قدرت کی ایسی مار ہے جو وارننگ دے رہی ہے کہ اب ملک میں نفرت کی سیاست نہیں چلنے والی، 2019 میں انسان کو انسان سے لڑانے والی سیاست کا جواب ملک کا اکثریتی طبقہ دے گا۔ عوام اچھے دنوں کا خواب دکھانے والوں کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ 2019 میں نفرت کی سیاست کرنے والے عبرت ناک شکست سے دو چار ہوں گے۔

پانچ ریاستوں کے انتخابات نے مودی کی مقبولیت کے جادو کو ناکام کر دیا ہے۔ جسے’پپو‘ کہا جاتا رہا تھا اس ‘پپو’ کو مودی پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہندوستان کے عوام کا یہ سیاسی شعور وقت کا یہ عجیب و غریب انتقام ہے۔ مودی کی خطابت، جس کا دنیا بھر میں شہرہ ہے، یوگی آدتیہ ناتھ جن کی شعلہ بیانی بڑے بڑے دہریوں کو بھی ہندو مذہب سے جوڑ دیتی ہے، ان دونوں نے پانچوں ریاستوں میں اپنی خطابت کی جادو گری دکھائی۔ زہریلی سیاست کے ہر تیر کا استعمال کیا، ہنومان جی کو بھی دلت بنایا گیا، لیکن عوام پر نہ مودی کا جادو چلا، نہ یوگی کا ہندو تیر کام آیا بلکہ جہاں جہاں یہ دونوں گئے، وہاں وہاں بی جے پی کی مٹی پلید ہوگئی۔ بی جے پی کو 81 سیٹوں کا نقصان ہوا، جس کی وجہ سے وہ کسی ریاست میں سرکار نہ بنا سکی، لیکن راہل جہاں جہاں گئے عوام کو ان میں اپنا مسیحا نظر آیا اور کانگریس وہ تمام سیٹیں جیت گئی۔ صرف مودی، یوگی اور راہل کی ریلیوں کے تناظر میں جیت ہار کا جائزہ لیا جائے تو بلا شبہ راہل مودی پر بھاری ثابت ہوں گے۔ انہوں نے خطابت اور سیاست میں بھی مودی کو پٹخنی دے دی ہے۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ اس پٹخنی اور عبرت ناک شکست پر تجزیہ کے بجائے ٹی وی پر یہ طوفان اٹھایا جارہا ہے کہ تین ریاستوں میں جب وزیر اعلی کو لے کر کھینچ تان چل رہی ہے تو پھر کانگریس ملک کو کیا چلائے گی؟

بہر حال، ملک کا منظر نامہ بدل چکا ہے۔ سیاسی افق پر امید کی نئی کرن پھوٹ چکی ہے۔ عوام نے جس طرح راہل گاندھی کو مودی پر ترجیح دی ہے، اس سے اب مہا گٹھ بندھن کو نئی طاقت، نئی زمین مل چکی ہے۔ اپوزیشن نے ایک سُر میں راہل گاندھی کی جیت کا خیر مقدم کیا ہے۔ مہا گٹھ بندھن کی قیادت کی کمان سے کانگریس کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ لالو یادو کی راشٹریہ جنتا دل نے پی ایم کے طور پر راہل کے نام پر ابھی سے مہر لگا دی ہے۔ اپوزیشن دیکھ چکا ہے کہ کس طرح بی جے پی نے راہل کو گھیرنے کے لئے چکر ویو تیار کیا تھا۔ کبھی وہ دھرم کے تیر چلا رہے تھے، مندر نہ بنانے کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ کبھی کانگریس کی خامیاں، کمزوریاں، ناکامیاں شمار کرا کر ووٹروں کا رخ اپنی سمت موڑ رہے تھے لیکن راہل پر بی جے پی کا چوطرفہ وار ناکام رہا۔

کانگریس سے گٹھ بندھن نہ کرکے بہو جن سماج پارٹی و سماج وادی پارٹی کو بھی اس الیکشن میں پتہ چل گیا کہ جب عوام مودی کو بھائو نہیں دے رہے ہیں تو انہیں کیا دیں گے۔ بلا شبہ اس الیکشن نے اپوزیشن کو بھی درس دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ تین ریاستوں کی جیت کے بعد کانگریس نے ملک کی جغرافیائی سیاست پر اتنا تو قبضہ کر ہی لیا ہے کہ اس کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مہا گٹھ بندھن کی ضرورت اپوزیشن کی مجبوری بھی ہے اور کانگریس کو بھی چاہیے کہ وہ بھی تھوڑا وسیع القلبی کا مظاہرہ کرے۔ 2019میں لالو جی، بہن جی اور اکھیلش سے زیادہ مول تول نہ کرے انہیں آگے رکھے کیونکہ مہا گٹھ بندھن کے ذریعہ 2019 کو فتح کرنا زیادہ آسان ہے۔ بقول فیض احمد فیض:

گلوں میں رنگ بھرے بادِنو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close