Khabar Mantra
محاسبہ

نہ خدا ہی ملا نہ ہی وصال صنم

محاسبہ...........................سید فیصل علی

نوٹ بندی پر ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ قومی معیشت پر ایک ایسی ضرب کاری ہے ،جس کے اثرات ملک میں کب تک رہیںگے کہا نہیں جا سکتا ۔آر بی آئی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ نوٹ بندی کا عمل پوری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔8نومبر 2016کو ہوئی نوٹ بندی سے جس ٹارگیٹ کو پورا کرنے کی امید تھی اس امید پر پانی پھر گیا ہے ۔بینکوں میں 99.3فیصدنوٹ واپس آچکے ہیں ،15لاکھ31 ہزار کروڑ روپے جو 500 اور 1000کے کرنسی کی شکل میں تھے وہ واپس آچکے ہیںحالانکہ ان کو نظام میں نہیں آنا تھا مگر یہ نوٹ بینکنگ نظام کا حصہ بن چکے ہیں ۔بلیک منی کا کوئی اتا پتا نہیں ہے ،جبکہ صرف .07فیصد نوٹ واپس نہیں آئے ہیں ۔لیکن یہ10 ہزار کروڑ نوٹ بینکوں میں واپس نہیں آئیں گے یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ ابھی این آر آئی کی رقمیں باقی ہیں ۔نیپال وغیرہ سے آنے والی کرنسی کا لیکھا جوکھانہیں ہے ،بستروں کے نیچے سے اور کئی ٹرکوں سے ضبط کئے گئے نوٹو ں کا حساب کتاب ابھی باقی ہے ۔ماہرین معاشیات جو نوٹ بندی کو پہلے ہی ملک اور معیشت کے لئے بڑا خطرہ بتا رہے تھے ،آج بھی وہ حیران ہیں کہ آخر یہ قدم اٹھایا ہی کیوں گیا ؟

کیا نوٹ بندی کے ذریعہ کچھ خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا یا ان کے کالے دھن کو سفید کرنے کی حکمت عملی تھی ۔یا پھر یہ عمل ایک غلط قدم تھا ۔وزیراعظم بھی چپ ہیں ،وزیرخزانہ بھی چپ ہیں حالانکہ آر بی آئی کی بھی کچھ نہیں چلی ۔ نوٹ بندی کے معاملہ میں وزیرخزانہ کا کوئی رول ہی نظر نہیں آتا۔نوٹ بندی کے فیصلہ میں صرف ایک شخص کا فیصلہ تھا ۔ماہرین حیران ہیں کہ نوٹ بندی کا معاملہ وزارت خزانہ کے تحت آتا ہے لیکن اعلان وزیراعظم نے کیا ۔آر بی آئی کا رول بھی اس معاملہ میں قابل تشفی نہیں رہا ۔آج وزیرخزانہ نوٹ بندی کے بجائے رافیل سودے پر بول رہے ہیں ۔جبکہ اس معاملہ پر جواب وزیردفاع کو دینا چاہیے ۔رافیل کا معاملہ بھی بڑ اپیچیدہ ہے مگر ملک میں تو اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔جس کو جواب دینا چاہیے وہ چپ ہے ،جس کو نہیں دینا چاہیے وہ دلائل پیش کر رہا ہے ۔ملک کی صورت نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے جس طرح بگاڑی ہے، اسے دیکھ کر نہ صرف قومی معیشت کی آنکھوں میں آنسو ہیں تو عام لوگوں کی بے بسی مت پوچھئے۔بنیادی مسائل سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے ،ہندوتو کی گنگا بہائی جا رہی ہے ۔اور اب تو پہلی بار او بی سی طبقہ کی الگ سے گنتی کی حکمت عملی بن رہی ہے ۔

8 نومبر2016کو سرکار نے رات 8بجے500 اور 1000کے نوٹوں کوکالعدم قرار دیا تھا ۔اس وقت ملک میں 500 اور 1000کے 15لاکھ41 ہزار کروڑ روپے کے ویلیو کی کرنسی عمل میں تھی۔ماہرین کو امید تھی کہ اس میں تقریباً ڈھائی لاکھ کروڑ کے نوٹ نہیں آئیں گے ۔اس امید کی بنیاد یہ تھی کہ بڑی تعداد میں بلیک منی بڑے نوٹوں کی شکل میں ہوتی ہے اوربڑے نوٹ جمع کرانے کا حوصلہ کالے دھن والے نہیں کریں گے ۔چنانچہ500 اور 1000 کے نوٹ بے کا ر ہو جائیں گے ،بینکوں میں جمع نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا ۔یہ امید تھی کہ ڈھائی لاکھ کروڑ جب نظام میں واپس نہیں آئیں گے تو اس کا معیشت پر بڑا ہی خوشگوار اثر پڑے گا۔لیکن یہ بھی نوٹ بندی کا المیہ ہے کہ صرف 10ہزار 7 سو بیس کروڑ روپے کی کرنسی ابھی تک واپس نہیں آئی ہے اور یہ واپس نہیں آئے گی ۔نوٹ بندی ایک ایسا عذاب ثابت ہوئی جس نے عوام کی کمر توڑ دی اور دھنا سیٹھوں کو مزید فربہ کر دیا۔نوٹ بندی سے تو ایک نیا کاروبار ہاتھ آگیا ۔دھنا سیٹھوں اور کاروباریوں نے اپنی بلیک منی کو سفید کرنے کے لئے اپنے نوکروں ،مزدوروں وغیرہ کو لائن میں لگا کر اکائونٹ میں رقم جمع کرائی ۔ان کا کالا دھن سفید ہوا جبکہ عام وخاص سبھی پیسوں کو جمع کرنے کے لئے لائن میں کھڑے ہوئے ۔لائن میں کھڑے ہونے سے 144 لوگوں کی جانیں گئیں۔کئی کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں ،لاکھوں بے روز گارہو گئے ۔چھوٹی صنعتیں اور چھوٹے تاجر وں کا کاروبار لڑکھڑا گیا ۔نوٹ بندی سے سب سے زیادہ پریشان بلڈر طبقہ بھی ہوا ۔ان کی کمپنیوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور جو گائووں سے آتے تھے پھر گائوں لوٹنے لگے۔ریئل اسٹیٹ کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔

عام آدمی سے لے کر ماہرین معاشیات سبھی سوچ رہے ہیں کہ آخر نوٹ بندی کا کھٹراگ کیوں پیدا کیا گیا ؟جس نوٹ بندی سے کالا دھن اوردہشت گردی ختم کرنے کا دعوی کیا گیا وہ تو ہوا نہیں بلکہ نوٹ بندی ہندوستانی معیشت کے گلے کی ایسی ہڈی بن گئی ہے جسے نگلنا بھی مشکل ہے اور اگلنا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا ہے ۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آخر نوٹ بندی کیوں ہوئی ،جو آج قومی معیشت کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے ۔دنیا کے ماہرین معاشیات آج بھی حیرت زدہ ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں نوٹ بندی کا مقصد کیا تھا ؟حالانکہ خود وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ نوٹ بندی کو لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں ۔انہوں نے 13نومبر 2016 کو یعنی نوٹ بندی کے پانچویں دن جب پوار اہندوستان لائن میں بینکوں کے آگے کانسہ لیے کھڑا تھا تب انہوں نے کہا تھا کہ مجھے 50دن کی مہلت دیجئے ،نوٹ بندی اگر غلط ثابت ہوئی تو وہ چوراہے پر سزا کے مستحق ہوں گے ۔مگر ایک سال نو مہینے کے بعد آر بی آئی کی رپورٹ نے نوٹ بندی کے فوائد و مقاصد کی ہوا نکال دی اور ملک دنیا کے سامنے شرمندہ ہو گیا ۔

نوٹ بندی ملک کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہو چکی ہے ،معیشت کی آنکھوں میں مایوسی بھر دی ہے۔آج پورا ملک سوال کر رہا ہے کہ آخر نوٹ بندی کیوں نافذ کی گئی ؟کیوں اتنی بڑی تعداد میں نوٹ واپس آگئے اور پھر قانونی بھی ہوگئے ۔کیا صرف .07ہی ملک میں کالا دھن ہے۔نوٹ بندی کا قدم تو ایسا ہی ہے جیسے چوہا مارنے کے لئے پورے کھیت کو ہی جلا دیا جائے۔دنیا میں معاشیات میں ایک اہم مقام رکھنے والے ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ نوٹ بندی ایک منظم لوٹ ہے ،ایک قانونی ڈاکہ ہے جو عوام کی جیبوں پر ڈالا گیا ہے ۔انہوں نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے دو فیصد جی ڈی پی بھی گر جائے گی ،جو آج حقیقت بن چکی ہے ۔2014میں مودی نے ہندوستانی عوام کی آنکھوں میں ایسے سپنے ڈال دیئے تھے جو آج منگیری لال کے سپنے ثابت ہو رہے ہیں ۔نہ تو ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کی نوکریوں کا اتا پتا ہے ،نہ ہی کسانوں کے اجناس کی لاگت کے پچاس فیصد زائد رقم دینے کا چرچا ہے ،نہ ہی غیر ملک سے بلیک منی واپس آئی ،نہ کسی کے بینک کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ آئے ،ملک میں100 اسمارٹ سٹی بنانے کا کام کاغذ سے اترا ہی نہیں،گنگا آج بھی اتنی ہی میلی ہے جیسے پہلے تھی اس کی صفائی کا خیال تک نہیں آیاہے ۔رام مندر بنا نہیں ،دفعہ 370 کو بدلنے کا وعدہ بھی فلاپ ہو چکا ۔

لوکپال کی تشکیل کا معاملہ بھی کھٹائی میں ہے اور سب سے بڑی بات جو 2014میںکہا گیا تھا کہ ڈالر کو 40 روپے پر لائیں گے مگر ڈالر آج 71 کو پار کرکے نئی تاریخ رقم کر چکا ہے ۔پٹرول ڈیژل کی قیمتیں کسی مہاجن کے سود کی طرح روز بڑھتی جا رہی ہیں ۔نہ باہر سے کوئی کالا دھن آیا نہ عوام سے کئے گئے وعدے نبھائے گئے ،پورے ملک کو غیر ضروری ایشوز میں الجھا دیا گیا ہے ۔بنیادی مسائل پس پشت کر دئے گئے ہیں ۔اگر آپ ان موضوعات پر بات کریں گے ،کچھ بولیں گے ،کچھ لکھیں گے تو دیش دروہی کہلائیں گے ۔نفرت کی سیاست آج تمام تر ایشوز پر حاوی ہے ۔اس کے باوجود طرہ یہ ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ نوٹ بندی تو ایسا نشتر ہے جس نے ہندوستان کے عوام کے جسم پر ایسا زخم دیاہے جس کا بھرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے ۔حالانکہ کہا جا رہا ہے کہ نوٹ بندی سے ٹیکس دہندگان کی شرح بڑھی ہے ،لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ نوٹ بندی کے اغراض و مقاصد بتائے گئے تھے ،کالے دھن پر ضرب اور دہشت گردی کا خاتمہ یہ دونوں چیزیں موجود ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہو گیا ہے۔ نوٹ بندی کے تحت ملک کی جو حالت ہوئی ہے، اس کو لے کر عام لوگوں سے لے کر دانشور طبقہ تک سوچ رہا ہے کہ الٹی گنگا کیوں بہائی گئی ،جس نے ہندوستان کی معیشت کے قدموں میں زنجیریں ڈال دیں ۔نوٹ بندی سے بقول شاعر :

نہ خدا ہی ملانہ وصال صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close