Khabar Mantra
محاسبہ

قصّۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ایک طرف ہندوستان کے قدم چاند پر پہنچ چکے ہیں تو دوسری طرف یہاں کے لاکھوں شہریوں کے بے وطن ہونے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ آسام کے 19.6657 افراد کی شہریت پر تلوار لٹک چکی ہے، ان کے نام نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کی فہرست سے ہٹا دیئے جانے کے بعد وہ نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے، وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں یا غیرملکی ہیں، اگر وہ غیر ملکی قرار دیئے جائیں گے تو ان کا مسکن کہاں ہوگا، ان کا مستقبل کیا ہو گا؟

گوکہ 31 اگست 2019 کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آرسی) کی حتمی فہرست کی بے ضابطگی اور اعداد و شمار پر نہ صرف اپوزیشن نے سوال کھڑا کیا ہے، بلکہ آسام کی برسر اقتدار جماعت بی جے پی اور اس کی حامی جماعتوں نے بھی شدید اعتراض کیا ہے۔ کانگریس سے لے کر اے آئی یو ڈی ایف، آسام گن پریشد، آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (آسو) تک سبھی این آرسی کی مخالفت کر رہے ہیں، کیونکہ فہرست سازی میں حقائق کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے، اس سے این آرسی خود کٹہرے میں ہے۔ این آرسی سے آسام کے حقیقی شہریوں، نامور وکلاء، سیاستدانوں، فوجی افسروں، بڑے صحافیوں اور کئی پولیس افسران کے نام بھی غائب ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ سے بھی زائد لوگوں کے تصدیق شدہ کاغذات، دستاویزات وغیرہ این آرسی دفتر میں جمع کرائے گئے تھے، لیکن ان کے نام این آرسی سے خارج کر دیئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے رشتہ داروں، آسام کی سابق وزیراعلیٰ انورہ تیمور کے خاندان والوں، میگھالیہ کے سابق گورنر کے کرنل بیٹے اور ریزروبینک میں بڑے عہدے پر فائز پوتے کا نام بھی این آرسی سے خارج ہے۔ انڈین آرمی کے بڑے افسر محمد ثناء اللہ، سلچر کے معروف وکیل پردیپ سنہا کے علاوہ اے آئی یو ڈی ایف کے موجودہ ممبراسمبلی امت بابو مالو، سابق ایم ایل اے عطاء الرحمن کو بھی این آرسی میں جگہ نہیں ملی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی وضلعی سطح پر پارٹی کے سیکڑوں لیڈران وغیرہ کے بھی نام این آرسی سے غائب ہیں۔ غرض کہ تین لاکھ سے زائد ایسے افراد کے نام فہرست سے غائب ہیں، جو ریاستی وضلعی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا آسام میں این آرسی کو لے کر سیاسی کہرام مچا ہوا ہے اور ہر کوئی اس کی فہرست سازی کی حقیقت پر سوال کھڑا کر رہا ہے۔

اگرچہ سرکار نے وضاحت کی ہے کہ جن کے نام این آرسی میں درج نہیں ہیں، وہ 120 دنوں کے اندر فارمز ٹریبونل میں جمع کرکے اپیل درج کرا سکتے ہیں۔ حکومت نے اس کے لئے 1000 ٹریبونل کے قیام کا اعلان کیا ہے، فی الحال 100 ٹریبونل تیار ہیں، بقیہ کے قیام کی تیاری چل رہی ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ این آرسی کا دفتر جسے آسام میں 2013 میں قائم کیا گیا تھا، جہاں 62 ہزار ملازمین نے دن رات ایک کرکے چھ سالوں میں فہرست تیار کی تو کیا ٹریبونل صرف 120 دنوں میں متاثرین کو انصاف دلا سکے گیا؟ اور دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ تین لاکھ سے زائد افراد نے تمام تر کاغذات ہونے کے باوجود این آر سی کا فارم نہیں بھرا ہے، کیونکہ وہ آسام میں شدید سیلاب کے شکار تھے۔ پیسے کی کمی ودیگر وسائل کے فقدان کے تحت ان کے لئے این آرسی دفتر تک پہنچنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا ایسے تمام مصیبت زدگان افراد فکرمند ہیں کہ اب ان کا کیا ہو گا؟ اور ستم تو یہ ہے کہ ان میں اکثریت غریب مسلمانوں کی ہے۔ اگرچہ حکومت لاکھ یقین دہائی کرا رہی ہے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، قانونی راستے کھلے ہوئے ہیں، مگر فارنز ٹریبونل سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی دہلیز تک پہنچا ایک غریب آدمی کے لئے کتنا خرچیلا، کتنا پیچیدہ اور کتنا مشکل مرحلہ ہے، اس کا اندازہ کوئی درد منددل ہی لگا سکتا ہے۔

آسام میں حکومت کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود این آرسی کو لے کر شہریوں میں ایک دہشت کا عالم ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق غریبی کی وجہ سے لوگ این آرسی دفتر جانے سے مجبور ہیں۔ این آرسی میں نام نہیں آنے کی وجہ سے بوگائی گاؤں کے عبدل اور سائرہ سمیت اب تک 50 سے زائد افراد خودکشی کر چکے ہیں۔ غریبی، سیلاب اور وسائل کی کمی کی وجہ سے لاکھوں افراد تمام تر کاغذی ثبوت کے باوجود اپنی شہریت ثابت کرنے سے بے بس ہیں۔ آسام اپنے دور کے ایک بڑے انسانی المیہ کے دہانے پر کھڑا ہے، مگر اس انسانی المیہ پر بھی سیاست کے روٹیاں سیکی جا
رہی ہیں، اسے ہندو، مسلم عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ مجبور اور بے بس غریب مسلمانوں کی طرف توجہ نہیں ہے، جو آج بھی سیلاب کا شکار ہوکر ٹریبونل جانے سے مجبور ہیں۔ بارپیٹا ضلع کی سیکر ندی کے کنارے پر واقع گاؤں، تیج پور کے برہم پتراندی کے کنارے بسے درجنوں مسلم اکثریت والے گاؤں ہیں، جو ٹریبونل جانے سے قاصر ہیں۔

بارپیٹا ضلع کے گاماگڑی گاؤں کے نذرالاسلام کا کہنا ہے کہ ہمارا سب کچھ سیلاب میں برباد ہوگیا اور اب این آر سی ہمیں برباد کرنے پر تلی ہے۔ ہمارے دادانے 1931 میں زمین خریدی تھی، مگر اب اس پر ندی بہہ رہی ہے۔ 1951سے لے کر اب تک کے کاغذات موجود ہیں، مگر پھر بھی ہم لوگ غیرملکی قرار دیئے گئے ہیں، اب ہمارے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، ہم بے وطن ہونے سے پہلے مر جانا پسند کریں گے، یہ درد نذرالاسلام کا ہی نہیں ہے، بلکہ برہم پترندی کے کنارے بسے سیکڑوں گاؤں کے مسلمانوں کا درد ہے، جن کے کاغذات این آرسی میں جمع ہوئے، مگر وہ غیرملکی قرار دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ ان غریبوں اور مجبوروں کو قانونی مدد دلانے کے لئے جمعیۃ علما ہند، مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف اور دیگر مسلم تنظیموں نے بھی کافی محنت کی ہے اور انہوں نے اس معاملے کو ہندو، مسلم کی عینک سے نہیں دیکھا ہے، لیکن ستم سیاست تو یہ ہے کہ آج بی جے پی و دیگر پارٹیاں این آرسی پر اعتراض صرف اس لئے کر رہی ہیں کہ ان میں ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہے، جنہیں این آر سی سے خارج کیا گیا ہے۔ اس طرح بنگلہ دیشی دراندازوں کی تحریک چلانے والی تنظیموں کی بھی ہوا نکل گئی ہے، جو عرصہ دراز سے یہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ آسام میں چالیس لاکھ مسلم بنگلہ دیشی موجود ہیں۔

آج آسام میں این آرسی کو لے کر جو دہشت اور افراتفری کا ماحول ہے، اس کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑ رہا ہے، کیونکہ آسام کے معاملے کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا این آرسی کی فہرست ویریفائی ہوگی؟ اگر ایسا ہوا تو این آرسی سے خارج افراد عدالت کے پیچیدہ خرچیلے مرحلے سے بچ جائیں گے۔ سوال تو یہ بھی ہے بہت سارے مسلمان غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے ٹریبونل جانے سے محروم ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ایم سی اور کانگریس سمیت کئی پارٹیاں این آرسی کی فہرست کی ازسر نو ویریفائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، مگر سیاسی انتقام کا جو منظرنامہ ہے، اس میں ٹی ایم سی اور کانگریس کی بھلا کون سنے؟ بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو حکومت اس معاملے میں الگ سے ایکٹ لاسکتی ہے۔ حالانکہ شہری ترمیمی بل مودی کی گزشتہ حکومت میں لوک سبھا میں پیش کیا جا چکا ہے، جس کی شدید مخالفت ہوئی تھی، جس میں یہ تجویز تھی کہ جو بھی غیرمسلم چھ سالوں سے ہندوستان میں رہ رہا ہے، اسے شہریت دی جائے گی۔ اسدالدین اویسی نے اسی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بی جے پی شہریت ترمیمی بل لا سکتی ہے، جس کی رو سے این آرسی سے غائب غیرمسلم ہندوستان کے شہری ہوں گے، مگر مسلمان اس اعزاز سے محروم رہیں گے، پھر وہ کہاں جائیں گے؟ اس پر ارباب واقتدار خاموش ہیں اور یہی وہ خوف ہے، جو آسام کے مسلمانوں کے دل وذہن پر سوار ہے اور وہ گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ جبکہ اجمیر میں آرایس ایس کا سالانہ جلسہ ہوا، جس میں این آرسی سے باہر تمام ہندوؤں کو ہندوستانی شہری بتایا گیا ہے۔

بہرحال جو لوگ واقعی غیرملکی ہیں، انہیں یقینا ملک سے نکال دینا چاہیے، لیکن جو حقیقی ہندوستانی شہری ہیں، ان کے پاس کاغذات موجود ہیں، لیکن انہیں مذہب کی بنا پر نظرانداز کرنا ملک کے جمہوری وسیکولر اقدار کے منافی ہے، ان کی قانونی مدد سرکار کی ذمہ داری ہے، بقول علامہ اقبال:

ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close