Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

فکری انقلاب کا محرک اسلام اور قرآن

قرآن کریم ایک آفاقی نظریات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے ہر مذاہب، ہر فلسفہ حیات اور ہر فکری نظریات پر حاوی ہے۔ یہی وجہ ہے آج قرآن کریم پر جتنی ریسرچ ہو رہی ہے اتنا کسی کتاب پر نہیں ہو رہی ہے اور اسی تحقیق و تفتیش کا ثمرہ ہے اسلام کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے قرآن کا معجزہ رہا ہے کہ جس نے بھی اس کی آیات سنیں وہ اس کی سمت کھنچا چلا آیا۔ حضرت عمر جیسی آہنی ہستی بھی قرآن کی صرف ایک آیت سن کر ایسی نرم ہوئی کہ بالا ٓخر مسلمان ہوگئے۔ قرآن کریم صوتی تاثر سے بھی مالا مال ہے اور اسی تاثیر کا نتیجہ ہے کہ ابتدائی دور میں عربی قبیلوں کے اہم قائد بڑی تعداد میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور پھر تجارت و دیگر مرحلہ زندگی اور خاص کر فروغ ذہن کے لئے مسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچنے لگے۔ وہ دنیا کے جس خطہ میں گئے، وہاں کی تہذیب و معاشرت میں گھل مل گئے مگر اس تہذیبی اشتراک کے باوجود اسلامی تشخص برقرار رکھا۔ انہوں نے وہاں مسجدیں بنائیں، مدرسے قائم کئے، وہیں مقامی لوگوں کو بھی اسلام کے قریب لانے کے جتن کئے۔ اسلامی پیغامات دیئے۔ خاص طور پر قرآن کی تعلیمات نے مقامی افراد کے اذہان کو حقانیت سے روشناس کیا اور اس طرح اسلام کا پرچم ہر ملک میں بلند ہوتا گیا۔ اس طرح اسلام عربوں سے نکل کر عجمی ملکوں میں بھی اپنی حقانیت کا پرچم بلند کرنے کی جد وجہد کرنے لگا۔ قرآنی تعلیمات نے اس جد وجہد کو کامیابی سے ہم کنار کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے اسلام کے تیزی سے بڑھتے اثرات اور اس کی حقانیت نے دیگر مذاہب کے سرخیلوں کو بھی خوفزدہ کر دیا۔ خاص کر یہو د ونصاریٰ اسلام کے کٹر مخالف بنے رہے اور آج کے جدید دور میں جب کہ اسلام اب صرف پیغامات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اللہ کی کتاب قرآن کریم اسلام کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت بن چکی ہے قرآن کے ہر لفظ سے سچائی عیاں ہو رہی ہے۔ قرآن کریم کی ہر آیت، معلومات کا عظیم خزینہ ثابت ہو رہی ہے، ایسے تحقیقی دور میں اسلام کے خلاف تعصب اور نفرت کی یلغار جاری ہے مگر تمام تر تعصب کے باوجود اسلام کا سفر جاری ہے اور اب تو یہ نوبت آگئی ہے کہ عیسائیت کے پیرو جن کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اسلام کے پیرو اس تعداد کو بھی پار کرنے والے ہیں۔ زیر نظر مضمون دور جدید میں دنیا میں اسلام کے بڑھتے قدم اور غیر مسلموں میں اسلام کے اثرات پر محیط ہے۔ اس مضمون میں خاص کر قرآن کریم کے تعلق سے جس طرح غیر مسلم دانشوروں نے تحقیق کی ہے اور اسلام اور قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا ہے، وہ نئے دور کے لئے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر مذہب کا مقلد اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے اور موازنہ ہو رہا ہے کہ اسلام کا چہرہ زیادہ روشن ہے۔ نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ سچائی کا یہ مذہب اپنی پوری توانائی کے ساتھ ہر سمت اپنا دائرہ بڑھا رہا ہے اور آج امریکہ میں اسلام وہاں کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا اور اب خود مغربی ماہرین دعوی کر رہے ہیں کہ جس تیزی سے اسلام امریکہ اور مغرب میں وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ اسلام ایک دن دنیا کا سب سے بڑا مذہب جائے گا اور بلاشبہ اہل مغرب کو اسلام سے قریب لانے میں قرآن کریم کا امتیازی کردار رہا ہے۔ کلام اللہ نے دنیا کے سامنے حقانیت کا آئینہ رکھ کر سب کو اپنا چہرہ دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے:

ظہور اسلام کے بعد رفتہ رفتہ پوری دنیا میں مذہبی انقلاب آگیا تھا اور یہودیوں و عیسائیوں کے ساتھ ساتھ بت پرستی کرنے والی اقوام کو یہ انقلاب پسند نہیں آیا تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ پر جب اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین کتاب قرآن کریم کا نزول ہوا تھا تو اللہ جل شانہ، کے احکامات کی تبلیغ و ترسیل کرنے میں حضور پاکؐ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت آپؐ پر ہمیشہ سایہ فگن رہتی تھی۔ قرآن کریم کی آفاقی آیات میں وہ تاثیر ہے کہ عربی قبیلوں کے افراد جوق در جوق اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد عجمی ممالک میں نہایت جفاکشی سے اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا تھا لیکن دیگر غیر مسلم اقوام خصوصی طور پر یہود و نصاریٰ اسلام کے آغاز سے متعصب رہے اور جدید دور میں بھی بہت سے غیر مسلم ممالک میں اسلام کی تنقید کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بہت سے مصنفین نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اپنی تصنیف کردہ کتابوں کا سہارا لیا اور بہت سے کارٹونسٹوں نے اپنے کارٹونوں سے اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے کا قبیح عمل انجام دیا۔ غیر مسلم ممالک کے سیاستدانوں نے اسلام کو دہشت گر دی سے منسوب کر دیا۔ بہت سے ممالک میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے گئے لیکن جس تناسب میں اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی کوششیں کی گئیں اسی تناسب میں اسلام کو فروغ ملتا گیا۔ آج دنیا کا ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے، جہاں پر فرزندان توحید یا اسلام کے پیروکار نہ ہوں۔ چنانچہ ان کی کاوشوں کو اللہ تعالیٰ نے ثمر آور کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ کے غیرمسلم دانشوروں نے اب قرآن کریم اور اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے۔

اسلام پر چاروں جانب سے حملے اور تنقید کئے جانے کے باوجود دور جدید میں بہت تیزی کے ساتھ اس کے مقبول ہونے اور فروغ حاصل کرنے کی بات نہایت مسحور کن ہے۔ سچائی کا مذہب اسلام اپنی توانائی کے ساتھ دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل رہا ہے۔ اس کے مقلدین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سیکڑوں اور ہزاروں غیر مسلم اور ملحدین سکون و سچائی کی تلاش میں گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکل کر اسلام کی آغوش میں پناہ لے رہے ہیں۔ صرف متحدہ ہائے امریکہ میں ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 17000 افراد مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں۔ مذہبی امور کے ماہرین کے مطابق امریکہ میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ جس زمانے میں وہاں پر مسلمانوں کی آبادی 5 سے 6 ملین تک تھی اس وقت وہاں پر یہودیوں کی آبادی تخمیناً 4.5 ملین تھی۔ اسی لئے تقریباً 12 سال قبل امریکہ کی سینسیٹر ہلیری کلنٹن نے یہ بیان دیا تھا کہ ’اسلام امریکہ میں تیزی کے ساتھ فرو غ پانے والا مذہب ہے جو کہ ہمارے بہت سے باشندوں کے لئے استحکام کا رہنما ستون ہے۔

اسلام نہ صرف امریکہ میں پنپ رہا ہے بلکہ اس کا پیغام دیگر ممالک میں بھی پہنچ رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک امریکی جریدے ’یو ایس اے ٹو ڈے‘ نے لکھا تھا کہ ”مسلمان دنیا میں نہایت تیزی کے ساتھ فروغ پانے والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔“ اس کے بعد عیسائیت کے اہم مرکز ویٹیکن نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مقلدین کے حساب سے اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن گیا ہے اور اس کے عقیدت مندوں کی تعداد رومن کیتھولک عیسائیوں سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ویٹیکن کے ایک اخبار کا یہ کہنا تھاکہ ”تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ اب ہم بلندی پر نہیں ہیں، ہمارا مقام اب مسلمانوں کے پاس چلا گیا ہے۔“مو نسگنور وٹورئیوفورمینٹی (Monsigner Vittorio Formenti) جوکہ ویٹیکن کی سالانہ میگزین کو مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے ویٹیکن کے اخبار L’Osservatore Romano کو انٹرویو دیتے وقت اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کیتھولک عیسائی دنیا کی آبادی میں 17.4 فیصد ہیں جوکہ ایک مستحکم فی صد ہے جبکہ مسلمان 19.2 فیصد ہیں۔ انہوں
نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ اعداد وشمار یکجا کئے گئے تھے تو انہیں اقوام متحدہ (UNO) کو فراہم کرا دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ ویٹیکن صرف اپنے اعدادو شمار کے بارے میں ہی انکشاف کر سکتا ہے لیکن انہوں نے مزید کہا تھا کہ جب صرف کیتھولک عیسائیوں کی نہیں بلکہ تمام عیسائیوں کی بات کہی جاتی ہے تو دنیا کی آبادی میں عیسائی 33 فیصد ہیں لیکن ویٹیکن اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ یہ رپورٹ ان لوگوں کے لئے چشم کشاں ہے جو اسلام کو مختلف طریقوں سے بدنام کرتے ہیں۔ اس میں برائیاں تلاش کرتے ہیں اور اسے دہشت گردی سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ جو لوگ اس کی حقانیت میں یقین رکھتے ہیں، بدنام کرنے والی تحریکوں سے ان کا عقیدہ متزلزل نہیں ہوا تھا۔

روس جیسے ملک میں جہاں پر روسی انقلاب کے دوران اور اس کے بعد بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سنگین ترین اقدامات کے تحت ظلم ڈھائے گئے تھے، وہاں بھی اس مذہب نے قابل قدر فروغ حاصل کیا تھا اور مسلمانوں کی تعداد 20 ملین تک پہنچ گئی تھی۔ اس وقت یہاں پر مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد روس کے پووولزی (Povolzhye) ریجن میں مقیم تھی جو کہ تقریباً 17 فیصد تھی۔ روس کا جنوبی خطہ ایسا دوسرا مقام تھا جہاں پر مسلمانوں کی آبادی 9 فیصد تھی جبکہ وسطی روس اور اس کے دور دراز علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 1 فیصد تھی۔ چین میں ساتویں صدی سے ہی مسلمان کبھی کبھی حالات مخالف ہونے کے باوجود اپنے عقیدہ پر قائم رہے تھے۔ حالانکہ چین میں اسلام کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا تاہم اس وقت وہاں کے ایغور مسلمانوں کا دائرہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ اسلامی عقیدہ پر ضرب لگاتے ہوئے اس نے مسجدوں میں تالے لگوا دیئے تھے لیکن اب ایسی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ جب سے کورونا وائرس نے چین کو اپنی زد میں لیا ہے تب سے وہاں کی حکومت نے مسجدوں کے تالے کھلوانے شروع کر دیئے ہیں۔ اس ملک میں 12 سال قبل مسلمانوں کی آبادی 200 ملین تھی۔ چینی مسلم سوسائیٹی کے نائب صدر نے ال دعوۃ (Al dawa) کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ چین میں تقریباً 3500 مسجدیں ہیں اور اماموں کی تعداد 4000 ہے۔ اس وقت انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ نئی مسجدیں بھی تعمیر کرائی جا رہی تھیں۔ اس طرح سے مسجدوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ مسجدوں کے علاوہ چین میں 19 اسلامی یونیورسٹیاں بھی ہیں اور ہر مسجد سے ملحق قرآن کریم کی درس و تدریس کے اسکول بھی ہیں۔

امریکہ میں مسلمان ثابت قدمی کے ساتھ اپنی پوزیشن میں بہتری لا رہے ہیں۔ امریکہ کے ایک اسلامی رہنما کا کہنا تھا کہ یہاں کے میڈیا نے دہشت گردوں کے ساتھ مسلمانوں کے مشتبہ تعلقات میں جو پروپیگنڈا کیا اس سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مجروح ہوگئی تھی۔ ایک امام یحیٰ ہیندی (Yahya Hendi) جوکہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی (Georgetown University) میں لیکچرر بھی تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ 11ستمبر 2001 میں جب امریکہ کے شہروں میں حملے ہوئے تھے ان کی وجہ سے امریکہ کے باشندوں کو اسلام کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی تاکہ وہ امریکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کو سمجھ سکیں اور جیسے ہی کسی نے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا یا اسلامی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو پھر اس نے واپس مڑکر نہیں دیکھا اور وہ عقیدت مند ہوگیا۔ فلسطین نژاد ہیندی جب سعودی عرب کے دورہ پر آئے تھے تو انہوں نے سعودی ماہرین تعلیم کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ حقیقت پسندی سے کام لینے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل سلیم عطا کی ہے۔لہذا ہمارا مستقبل روشن ہے۔“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ دوسری اور تیسری نسل کے لوگ نہایت سنجیدگی کے ساتھ سیاسی نظام کا ایک حصہ بننے کی کاوش کر رہے ہیں لیکن ہمارے سامنے میڈیا اور کچھ ان انتہا پسندعیسائیوں کا چیلنج ہے جو کہ امریکہ میں اسلام کی موجودگی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔“

ہیندی کے مطابق اس نظریہ کے برعکس پھر بھی یہاں مسلمانوں کی آبادی 7سے 9 ملین تک بتائی گئی تھی جوکہ وطن پرستی (Nationalising) پر عمل کر رہے ہیں۔” اسلام امریکی معاشرہ کا ایک حصہ ہونے کے ناطے دیگر مسلم ممالک کو اقتصادی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ 13-12سال قبل ایک مسلم شخص پہلی مرتبہ امریکی کانگریس کے رکن کے طور پر منتخب ہوا تھا اور اس کے بعد یہ امید کی جانے لگی تھی کہ 2015 تک امریکی کانگریس میں تین یا چار مسلم اراکین اور پورے ملک میں کم از کم 30مسلم میئر ہو جائیں گے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 11ستمبر کے حملوں سے قبل امریکہ میں 9 مسلم وکلاء تھے بعد میں جن کی تعداد حیرت انگیز طور پر 400 ہوگئی تھی۔“ ہیندی نے مزید کہا تھا کہ”امریکہ میں ہر سال تقریباً 17000 لوگ مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔“ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ قرآن کریم اور اسلام کی حقانیت کا خندہ پیشانی سے اعتراف کرنے لگے ہیں۔ ’اے بی سی پرائم ٹا ئم‘ کی ستائش کرتے ہوئے کیر (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائیرکٹر نہاد عواد (Nihad Awad) نے کہا تھا کہ:”اسلام، پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ اور قرآن کریم کے بارے میں درست جانکاری دینے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ’اے بی سی پرائم ٹائم‘ (ABC Prime time) نے ایک جامع اسٹوری نشر کی تھی، جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کو سمجھنے میں بہت معاونت کی تھی جس کی وجہ سے خیالی حکایات (Myths) اور بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئی تھیں۔ امریکہ کے مسلمانوں اور دیگر با شعور لوگوں نے اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کے نظریہ میں تبدیلی لانے کے لئے اور تمام عقائد سے تعلق رکھنے والے شہریوں جوکہ اسلام اور مسلمانوں سے تعصب رکھتے تھے، انہیں وسیع القلب کرنے کے لئے ’اے بی سی پرائم ٹائم‘ کا شکریہ ادا کیا تھا۔“

نہاد عواد نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کے تحقیقی مرحلہ کے دوران CAIR نے ABC کو تعاون دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی ملاقات کی تھی تاکہ وہ اے بی سی کی اس اسٹوری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے تعصبات کی مزاحمت کریں اور آپسی رواداری کے جذبہ کو ہر ممکن طریقہ سے فروغ دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس امرکی وضاحت کرنا بھی برمحل ہے کہ صدیوں سے امریکہ اور یوروپی ممالک نے سیاہ فام لوگوں کو غلام بنائے رکھا تھا، جس کا سلسلہ کچھ حد تک ہنوز جاری ہے۔ ریگستانی ملک عرب میں ظہور پذیر ہونے والے اس آفاقی مذہب کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا تھا بلکہ اس کی راہ میں دشواریاں بھی پیدا کر دی گئی تھیں لیکن سچائی اور حقانیت کے حامل مذہب اسلام نے نسلی تفریق کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس نے سیاہ فام لوگوں کو اپنے گلے لگا لیا اور ان میں سے چند شخصیات تو ایسی تھیں جو صحابہ کرام کے مرتبہ سے سرفراز ہو گئی تھیں جبکہ یہود ونصاری کی مذہبی عصبیت روز اول سے ہی جاری ہے پھر بھی مسلمانوں نے یہ سوچ کر ان کے ساتھ رواداری کا جذبہ دکھایا کہ وہ بھی تو اہل کتاب ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے بارے میں انہوں نے اس کے برعکس نظریہ اختیار کیا۔ ایک غیر مسلم مذہبی اسکالر نے کہا تھا کہ اسلام امن و آشتی اور رواداری والا مذہب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریگستانی ملک میں ظہور پذیر ہونے والا یہ آفاقی مذہب ایک صدی میں ہی نصف کرہ ارض پر ضیاء فگن ہوگیا تھا اور بڑی بڑی حکومتیں بھی اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام کی آغوش میں آ گئی تھیں اور اس کی وجہ سے دنیا میں ایک نیا مذہبی انقلاب رونما ہو گیا تھا۔

اہل اسلام کسی بھی ملک میں مذہبی مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مذہب اسلام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی نہ کی جائے کیونکہ کوئی بھی مسلمان رسالت مابؐ کی توہین برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ امریکہ کے ٹریڈ سینٹروں پر دہشت گردانہ حملے ہونے کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کی ایک تحریک نما منظم کوششیں کی گئیں تھیں لیکن امریکہ اور یوروپ کے غیر مسلم دانشوروں نے اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے عمیق مطالعہ اور ریسرچ کرنی شروع کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اس حقیقت سے آشنا ہوگئے ہیں کہ اسلام میں دہشت گر دی کی قطعی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ تو امن و آشتی، رحم دلی اور رواداری کا درس دینے والا مذہب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام کے تعلق سے اہل مغرب کے منفی نظریہ میں زبردست پیمانے پر تبدیلی رونما ہوتی جا رہی ہے اور اسلام کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close