Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

محاسبہ…………….سید فیصل علی

امریکہ میں کورونا وائرس کا طوفان ابھی تھما بھی نہیں کہ وہاں زبردست عوامی مظاہرہ اور احتجاج کی ایسی شدید آندھی چلی ہے کہ جس نے نہ صرف امریکہ کے اقتدار و سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلکہ نسلی تفریق، فسطائی فکر و نظر اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو بھی دہشت زدہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں 52 سال کے بعد ایک نئے انقلاب کی باز گشت گونج رہی ہے۔ امریکہ میں کورونا متاثرین کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن کورونا سے لڑنے کے بجائے وہاں انسانیت کو بچانے کے لئے ہر شہری احتجاج کا مظہر اور مظاہروں کا منظر بنا ہوا ہے۔ نئے سماج کو بانٹنے والے نظریات اور گورے کالے کے بھید بھاؤ سے عوام اتنے بکھرے ہوئے ہیں کہ اب امریکہ میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے، کئی شہروں میں تشدد کا بازار گرم ہے، تجارتی اداروں میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی ہے، امریکہ کے کئی پولیس اسٹیشنوں کو جلا دیا گیا ہے، دکانیں بند ہیں، نیویارک، فلاڈلسیا، منہٹن، شیکاگوہ سے لے کر واشنگٹن تک 17 شہروں میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوئے ہیں۔ امریکہ زبردست اقتصادی خسارے سے دوچار ہے۔ احتجاج کی شدت کا عالم یہ ہے کہ تقریباً 11 روز سے عوام سڑکوں پر ہیں، واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس مظاہرین کے نرغے میں ہے، ہر سمت ٹرمپ حکومت کی لعنت و ملامت ہو رہی ہے، وائٹ ہاؤس پر بوتل، جوتے اور چپل پھینکے جا رہے ہیں اور یہ بھی تاریخ کا عبرتناک واقعہ ہے کہ عوامی مظاہرے سے دنیا کا سب سے طاقتور لیڈر ٹرمپ کو بنکر میں چھپنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

سیاہ فاموں کے خلاف گورے چمڑے والوں کے نفرت انگیز رویہ اور حقارت آمیز سلوک کے خلاف پورا امریکہ سلگ رہا ہے، 25 مئی کو 4 پولیس افسروں کے ذریعہ ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے بعد وہاں عوام کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا ہے، عوام سڑکوں پر اتر آئے ہیں، عوامی مظاہرے امریکہ کے 140 شہروں تک پھیل چکے ہیں، مظاہروں کے دوران 12 سے زائد افراد کی اموات ہو چکی ہیں، 10 ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور 40 شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ 1968 کے بعد مارٹن لوتھر کی جونیئر کے قتل کے بعد امریکہ میں یہ سب سے بڑا عوامی مظاہرہ ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ دنیا کا چودھری ٹرمپ اتنے بڑے مظاہرے کو کچلنے کے لئے فوج اتارنے کی دھمکی دے رہا ہے، پولیس کی کارروائی کو درست قرار دیتے ہوئے امریکہ کی ’انٹیفا‘ کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے رہا ہے۔ ’انٹیفا‘ امریکہ کی ایک ایسی تنظیم ہے، جو ہمیشہ انسانیت کی بقا کی بات کرتی رہی ہے۔ فاشزم، مذہبی تعصب، نسلی تفریق اور کالے گورے کے بھید بھاؤ کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ امریکہ میں عوامی مظاہرے کی شدت کا اثر ہے کہ وہاں کی پولیس گھٹنے ٹیک کر عوام سے معافی مانگ رہی ہے۔ ہیوسٹن کے پولیس چیف کی جرأت بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے ٹرمپ کے رویہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب امریکی صدر ٹرمپ اچھی بات نہیں کہہ سکتے تو چپ ہی رہیں، منفی رویہ نا اپنائیں۔ لیکن کیا بھارت میں بھی کوئی پولیس افسر ایسا حکومت کے خلاف حق کی آواز اٹھاتے ہوئے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کیونکہ اگر وہ حق گوئی کرے گا تو یا تو اسے برخاست کیا جائے گا اور یا پھر اسے جیل کی ہوا کھانی پڑے گا، گجرات فساد کے خلاف آواز اٹھانے والے سنجیو بھٹ کی مثال سامنے ہے۔

آج امریکہ میں ہر سطح پر ٹرمپ کی پالیسی اور فکر و نظرکی مذمت ہو رہی ہے، خود امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے احتجاج کو دبانے کے لئے فوج کو اتارنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کے سابق وزیردفاع نے کہا ہے کہ ٹرمپ ’نازی عزم‘ سے متاثر ہیں، عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کی سوچ کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ٹرمپ کے آمرانہ ٹوئٹ کی ہر سمت مذمت ہو رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب سفید فاموں کی بھی ایک بڑی تعداد نسلی تفریق کے خلاف میدان میں اتر آئی ہے۔ واشنگٹن میں مقیم ایک ہند نژاد شہری راہل نے 75 سیاہ فام مظاہرین کو اپنے گھر میں پناہ دینے کا جو حوصلہ دکھایا ہے، اس کی ہر سمت ستائش ہو رہی ہے اور بھارت کا نام روشن ہو رہا ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا بھارت بھید بھاؤ کی سیاست سے مبرہ ہے؟ امریکہ میں نسلی تعصب کا بول بالا ہے تو وہیں بھارت میں بھی نام نہاد ہندوتو کے ذریعہ ذہنیت کو زہریلا بنایا جا رہا ہے، مغرب میں نسلی تعصب انسانیت کا گلا گھونٹ رہی ہے تو وہیں بھارت میں زہریلی سیاست کے ذریعہ گنگا جمنی تہذیب کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، سماج کو بانٹنے کا کھیل امریکہ میں بھی ہو رہا ہے اور بھارت میں بھی۔

امریکہ میں نسلی تفریق اور سیاہ فاموں پر مظالم کے خلاف اٹھی احتجاج کی آگ اب برازیل، بیلجئم، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے لے کر ہانگ کانگ تک پہنچ کر فسطائی فکر و نظر کے آگے چیلنج بن کر کھڑی ہے، خاص کر بھارت کو بھی ایک درس عبرت دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ عوام کی آواز سب سے بڑی طاقت ہے، اس سے سبق لینا چاہیے۔ ادھر پیرس میں بھی 28 مئی کو نسلی تفریق کا واقعہ پیش آیا ہے، جس نے عوام کو مزید مشتعل کر دیا ہے، بیلجئم پولیس پر بھی ایسا ہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے ایک سیاہ فام کے گلے، جبڑے اور سینے کو گھٹنے سے دبا کر اذیت پہنچائی، ہانگ کانگ میں بھی نسلی تفریق کے خلاف جانچ چل رہی ہے اور قانون بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

بہرحال امریکہ میں احتجاج اور مظاہروں کے درمیان جو پرتشدد واقعات ہوئے ہیں، وہ بے شک قابل مذمت ہیں، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی، لیکن وہاں انسانیت کے تحفظ اور محبت واتحاد کی فضا کو قائم کرنے کے لئے جس طرح سڑکوں پر عوامی سیل رواں دواں ہے، وہ تاریخی ہے۔ بھارت کو بھی امریکہ سے سبق لینا چاہیے اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب عوام کی آندھی اٹھتی ہے تو سرکار کے مکھیا کو بھی بنکر میں چھپنا پڑتا ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قدرت نے ہرکام کا اختیار انسان کو نہیں سونپا، اگر ایسا ہوتا تو انسانیت طاقت اور دولت کی چکی میں پس کر کہیں گم ہوگئی ہوتی اور فرعونیت کا راج عام ہو جاتا۔ قدرت کا یہ حسنِ قوت دیکھئے کہ اس نے ایک معمولی مچھر کو ’دیوقامت‘ ہاتھی کو پچھاڑنے کا ہنر دے رکھا ہے، انسان لاکھ صاحب اختیار ہو قدرت کے پہاڑ کے نیچے آہی جاتا ہے۔ ایک معمولی سیاہ فام کے قتل نے جس طرح امریکہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور ایک نئے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے، یہ فسطائی فکر و نظر کے تاجروں اور زہریلی سیاست کے بازی گروں کے لئے ایک زبردست وارننگ بھی ہے، درس عبرت بھی ہے اور نصیحت بھی۔ بقول ذوق دہلوی:

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close