Khabar Mantra
محاسبہ

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

’سنگھ کی رتھ یاترا‘ دہلی کے جھنڈے والان سے شروع ہوچکی ہے۔ یہ رتھ یاترا 9 دنوں تک چلے گی۔ دہلی کے گوشے گوشے میں جا کر ہندوئوں کے دلوں میں رام مندر تعمیرکی جوت جگائے گی۔ 9 دسمبر کو اس یاترا کا اختتام وی ایچ پی کی ’دھرم سبھا‘ میں ہوگا۔ 10 دسمبر کو آر ایس ایس کے تحت وی ایچ پی، سنت سماج اور آر ایس ایس کے لیڈر وں کی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوگی، جہاں یہ حکمت عملی طے ہوگی کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں سرکار پر ایسا دبائو بنایا جائے کہ حکومت آرڈیننس یا قانون بنا کر مندر تعمیر کی راہ ہموار کرے۔ مگر دہلی میں پہلے ہی دن آر ایس ایس کی رتھ یاترا فلاپ ثابت ہوئی ہے۔ اس میں بمشکل 100 افراد ہی شامل نظر آئے۔ دہلی کے ’فلاپ شو‘ کے بعد اب اجودھیا میں گیارہ ہزار سادھو سنت مندر کے لئے ’اشومیگھ یگیہ‘ کی تیاریاں کررہے ہیں، حالانکہ مندر نرمان پر 25 نومبر کے اجودھیا دھرم سبھا کا رنگ بھی پھیکا رہا، بنارس میں منعقد دھرم سنسد بھی بے معنیٰ ثابت ہوئی، وہاں سادھو سنتوں نے گنگا کی صفائی اور گائے کی حفاظت کا ایشو اٹھا کر حکومت کو آئینہ دکھا دیا۔ غرض یہ کہ آر ایس ایس کی رتھ یاترا کی ناکامی اور اجودھیا بنارس میں آر ایس ایس کو اہمیت نہ ملنے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے عوام سب سمجھ رہے ہیں نعروں کے جادو سے نکل رہے ہیں۔ یہ رجحان ملک کے لئے بے حد خوش آئند ہے تو ہندوتو کے لئے انتہائی پریشان کن بھی۔ چنانچہ اب پوری قوت سے ملک کو زہریلا بنانے کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ ملک کی سیکولرزم، جمہوریت اور رواداری کو کچلنے کے لئے نفرت کے اس کھیل میں نہ زبان کی شائستگی کا لحاظ رکھا جارہا ہے نہ ملک کی مریادا کا خیال ہے، نہ یہاں کی بے مثال تہذیب وتاریخ کے تقدس کی پرواہ ہے اورنہ ہی قانون کا خوف ہے، شرمناک بات تو یہ ہے کہ اب ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی بخشا نہیں جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر اجودھیا معاملے میں فیصلہ نہیں دے سکتے تو استعفیٰ دو گھر جائو۔ آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر نے سپریم کورٹ کی اس سہ رکنی بینچ کے فیصلے کی کھلی مذمت کی ہے، جس نے اجودھیا معاملے کی سماعت سے انکار کردیا ہے۔ آر ایس ایس کے اس لیڈر کا دعویٰ ہے کہ مرکز اجودھیا پر قانون لانے کو تیار ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ کوئی سرپھرا اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا اور سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اسے اسٹے کردے گا۔

آج عالم یہ ہے کہ ہندوتو کی بساط پر بیٹھا ہر مہرا 52 گز کا بنا ہوا ہے۔ ملک کی سیکولر تہذیب اور رواداری کی بات کرنے والا سرپھرا کہا جا رہا ہے، حق گوئی کو دیش دروہ کا نام دیا جارہا ہے نفرت کے سودا گر اس کھیل میں کامیاب ہوں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اجودھیا میں رام مندر تعمیر کے طوطے میں ہی بی جے پی کی جان ہے۔ چنانچہ بی جے پی کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے اجودھیا ایشو کا طوفان اٹھانا بھی فسطائی سیاست کی ضرورت اور ملک کو مذہبی جنون میں مبتلا کرنا واحد مقصد ہے کہ اس کے ہتھیار سے 2019 کی مہابھارت کو فتح کیا جاسکے لیکن ستم سیاست تو یہ بھی ہے کہ اب ملک کے عوام خاص طور پر اکثریتی طبقہ مندر نرمان کی بات کو محض جملہ ہی سمجھ رہا ہے اوراس حقیقت کو ہندوتو کے علم بردار بھی سمجھ رہے ہیں، چنانچہ نئے پلان کے تحت یہ نعرہ دیا جارہا ہے کہ اس بار مندر نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ آر ایس ایس نے کہا ہے کہ رام مندر بن کر رہے گا، رام مندر قانون کا مسودہ تیار ہے، اور تو اور آئینی منصب پر سرفراز ایک مرکزی وزیر نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہم اپنی آستھا کا کسی قانون سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ملک میں 30 لاکھ مسجدیں بن سکتی ہیں تو مندر کیوں نہیں بن سکتا؟ مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی زہر افشانیاں تو حد کو پار کرچکی ہیں، مسلمانوں کو پاکستان جانے کی بات کرنے والے گری راج نے اب دارالعلوم دیوبند کی حب الوطنی پر گاج گرائی ہے، اور جس طرح اسے نشانہ پر لیا ہے، اسے گری راج کی پست ذہنی اور تاریخی حقائق کی آبروریزی نہ کہیں تو کیا کہیں؟ گری راج فرماتے ہیں کہ’ گروکل‘ میں کوئی دہشت گرد نہیں بنتا لیکن دارالعلوم دیوبند سے حافظ سعید اور بغدادی جیسے لوگ نکلتے ہیں، گری راج نے دیوبند جاکر دارالعلوم دیوبند کی حب الوطنی کو جس طرح للکارا ہے اور یوگی سے دیوبند کا نام ’دیوورند‘ کرنے کی اپیل کی ہے، اس اندازِ تکلم پر ہم اہل دیوبند کے صبر وتحمل کی بھی ستائش کرتے ہیں کہ انھوں نے بڑے تحمل اور شائستگی سے گری راج کو دارالعلوم کی تاریخ کا آئینہ دکھایا ہے کہ دارالعلوم دیوبند ہندوستان کا واحد ادارہ ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور یہ مدارس ہی ہیں جن کے لاکھوں علمائ کو حب الوطنی کی پاداش میں انگریزوں نے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دہلی سے لیکر شاملی تک 1857 میں جدھر دیکھئے علمائ کے کٹے ہوئے سر نظر آتے تھے۔ جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبند نے جتنی قربانیاں دی ہیں وہ قربانیاں کسی ’گروکل‘ نے نہیں دی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی قومی، ملی، دینی و سماجی خدمات تاریخ کا ذریں باب ہے۔ Two Nation Theory کی سب سے زیادہ مخالفت اسی ادارے نے کی۔ تقسیم ہند کے خلاف سب سے بلند آواز اسی عظیم ادارے سے اٹھی، مدارس کے بطن سے شیخ الہند محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، ذاکر حسین، علی برادران وغیرہ وغیرہ عظیم مجاہدین آزادی کی قطار در قطار نکلتی رہی ہے، دارالعلوم کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے والے گری راج خود آتنک پھیلارہے ہیں۔ اگر چہ یہ بات سن سن کر ہندوستان کا مسلمان تنگ آچکا ہے کہ مدرسے دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی تو یہ الزام لگاتی تھی اور اب تو مرکز میں مودی وزیر اعظم اور یوپی جہاں سب سے زیادہ مدارس ہیں وہاں یوگی وزیر اعلیٰ ہیں۔ دونوں جگہ بی جے پی سرکار ہے چنانچہ ایک بار سی بی آئی، ای ڈی، این آئی اے یا کسی بھی جانچ ایجنسی سے جانچ کرالی جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اور یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ مدارس دین کے قلعے ہی نہیں حب الوطنی کے امین بھی ہیں۔

مجھے بے حد خوشی ہے کہ جس طرح اجودھیا کی دھرم سبھا، بنارس کی دھرم سنسد اور دہلی میں سنگھ کی رتھ یاتراپر ہندو بھائیوں نے توجہ نہیں دی، اسی طرح گری راج کے بیان کو بھی برادران وطن خارج کردیں گے۔ کیونکہ وہ روز مدرسوں کے سامنے سے آتے جاتے رہتے ہیں وہ مدرسوں کے کردار و عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گری راج جھوٹ بول رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ملک کے اندر بڑھتے نفرت کے طوفان کو خود یہاں کے عوام برداشت نہیں کریں گے۔ جس طرح انتہا پسند تنظیموں کے کال پر زیادہ تر ہندو بھائیوں نے توجہ نہیں دی ہے، اس کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ملک میں فرقہ پرستی کا تیر بے اثر ہورہا ہے، نفرت کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے اور اس سیاست کو مزید جھٹکا پانچ ریاستوں کے اس اسمبلی انتخابات کے نتائج کے وقت لگے گا، کیوں کہ جو منظر نامہ ابھر رہا ہے، وہ تبدیلی کا منظرنامہ ہے۔ شاید اسی تبدیلی کے منظرنامہ نے ہندوتو کے علمبرداروں کو بوکھلا دیا ہے اور وہ بے لگام ہوچکے ہیں، عدلیہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں سیکولر زم کو روند رہے ہیں، ملک کی دیرینہ تہذیب پر ہندوتو کی تہذیب چڑھانے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا رہے ہیں لیکن نفرت کی سیاست دیر پا نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ زہریلی سیاست ہندوستان کی فضا کو راس آتی ہے بقول اقبال

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close