Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

جرمنی میں اسلام کی شان کولوگنے کی سینٹرل مسجد

اسلام کا فروغ ایک مشکل ترین جدو جہد پر محیط ہے، مسلمانوں کو ہر دور میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں، اسلامی تہذیب، تمدن، تشخص کو نئی معاشرت کے ساتھ بر قرار رکھنا مسلمانوں کے لئے ہر دور میں مشکل ترین مرحلہ رہا ہے مگر یہ اسلامی شعار و کردار کا ہی کرشمہ ہے کہ اسلام کے پیروؤں اور سنت رسول ؐ کی تقلید کرنے والوں نے ہر مخالف محاذ کو سر کیا ہے اور اسلام کا پرچم بلند کیا ہے۔ مسلمان جہاں بس گئے، دنیا کے کسی کونے میں مقیم ہوئے وہاں کی تہذیب کو گلے لگایا اور پھر اسی تہذیب کے درمیان اسلامی معاشرت کی خوشبو پھیلائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے تئیں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ مسلمانوں کا کردار و عمل دنیا میں اسلام کو معتبر کرنے میں اہم رول ادا کرنے لگا اور پھر جب آپسی ہم آہنگی کا ماحول قائم ہوا تو پھر دین کے فروغ کی راہیں بھی خود بخود ہموار ہونے لگیں اور اسلام کا دامن وسیع سے وسیع تر ہونے لگا۔ اسلام کے فروغ میں اسلامی تشخص اور اسلامی ثقافت کا اہم رول رہا ہے۔ وہیں دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مساجد نے بھی اہم رول ادا کیا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ مسجدیں دین کے فروغ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسجدوں نے ماضی میں بھی اسلام کے فروغ میں اہم رول نبھایا ہے اور آج بھی دین کا چراغ سے چراغ جلانے میں مسجدیں اپنا رول بہت منظم طریقے سے ادا کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں مساجد صرف عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں میں اسلام کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ مغرب میں مسجدوں کی تعمیر و تعداد کا سلسلہ جس تیزی سے دراز رہا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ مسجدیں آج کے دور میں اسلام کے فروغ میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیر نظر مضمون مغربی جرمنی میں اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی جدو جہد کی ایمان افروز داستان ہے، جہاں کے کولوگنے شہر میں ایک مسجد کی تعمیر کو لے کر کس طرح وہاں کے مسلمانوں نے حکمت عملی اختیار کی کہ مقامی انتظامیہ کو بھی مسجد کی تعمیر کو لے کر اعتراض نہیں ہوا۔ جرمنی کے سب سے بڑے اسلامی آرگنائزیشن ڈی آئی ٹی آئی بی نے اس مسجد کا تعمیری منصوبہ پیش کیا۔ 11 سال قبل اس مسجد کی تعمیر کی منظوری اور پھر جب جرمنی کی اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو دنیا حیران رہ گئی۔ اپنے دامن میں 2000 نمازیوں کے ذریعہ نماز ادا کرنے کی گنجائش رکھنے والی یہ مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد بن کر اور اس کی فن تعمیر اور خوبصورتی کو دیکھ کر معروف زمانہ ماہر تعمیرات مِریم برنٹ نے کہا تھا کہ یہ مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہو گی۔ کولوگنے کے میئر فرٹز شراما نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ مسجد ایک دن کولوگنے سٹی کے ثقافتی ورثہ سے منسوب ہو جائے گی۔ بہرحال جرمنی میں اسلامی تہذیب کی خوشبو جس تیزی سے پھیل رہی ہے وہ بلاشبہ مسجدوں کی مرہون منت ہے کولوگنے سٹی جہاں 1990 میں صرف 3 مسجدیں تھیں۔ آج 159 سے زائد مسجدیں ہیں اور ان مسجدوں کی تعمیر کو تقویت دینے میں کولوگنے کی مسجد ایک قائد کی حیثیت رکھتی ہے:

مغربی جرمنی میں کولوگنے (Cologne) ایک ایسا عظیم ترین شہر ہے، جس کا آبادی کے لحاظ سے اس ملک میں چوتھا مقام ہے۔ یہاں پر ترک نژاد مسلمانوں کی بھی کثیر آبادی ہے لیکن نماز ادا کرنے کا مسئلہ ہمیشہ ان کے سامنے رہتا تھا۔ مسلم باشندے اکثر و بیشتر عمارتوں کے فلیٹوں اور گوداموں میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے ڈی آئی ٹی آئی بی (Diynet Isleri Turk Islam Birligi) جوکہ ترکی حکومت کے مذہبی امور کی ایک اتھارٹی ہے اور جرمنی میں واقع سب سے بڑا اسلامی آرگنائزیشن ہے نے ایک مسجد تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ مسلمانوں نے جب مسجد تعمیر کرانے کا اپنا موقف ظاہر کیا تھا تو اس وقت حالات ساز گار نہیں تھے۔ بہت سے عام شہری اور چند ارباب اقتدار اس کی تائید کرنے میں پس و پیش کر رہے تھے لیکن جب خدا وند قدوس کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ ان کے قلوب میں مثبت نظریات داخل کر دیتا ہے اور ان کی مذاحمتی طبع کو نرم خو میں تبدیل کر دیتا ہے۔

اسی طرح کی روش اس مسجد کو تعمیر کرانے سے قبل اختیار کی گئی تھی۔ بہت سے شہریوں کے ذریعہ مذاحمت کئے جانے کے باوجود کولوگنے کی سٹی کونسل نے مسجد تعمیر کرانے کی 11سال قبل منظوری دے دی تھی۔ آج یہ مسجد جرمنی میں واقع بڑی مسجدوں میں سب سے بڑی مسجد ہے۔چنانچہ ترکی اسلامک گروپ کو منظوری ملنے کے بعد 177 فٹ اونچی 2 میناروں والی مسجد تعمیر کرانے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ یہ مسجد اہرین فیلڈ (Ehrenfeld) ضلع میں واقع ہے۔ اس تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ فوری طور پر اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے گا اور 2010 تک اسے مکمل کر لیا جائے گا۔ اس مسجد میں بیک وقت 2000 نمازیوں کے ذریعہ نماز ادا کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

تقریباً 20 برسوں تک ڈی آئی ٹی آئی بی نے گودام کو عبادت گاہ میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ لہذا اسے منہدم کرکے نئی عمارت تعمیر کرائی گئی تھی۔ زبردست احتجاجی تحریک کے باوجود اس مسجد کا تعمیری کام جاری رکھا گیا تھا۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ سٹی کونسل اسی وقت اس پروجیکٹ کی منظوری دے سکتی ہے جب ڈیزائنر اس مسجد کی میناروں کی اونچائی کم کرنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن اس پروجیکٹ کے ماہرین فن تعمیرات کابینہ کی روح رواں مِریم برنٹ (Miriam Bernatt) نے کہہ دیا تھا کہ اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”منصوبہ کے مطابق میناروں کی اونچائی وہی رکھی گئی اور جرمنی میں یہ سب سے بڑی مسجد ہو گی۔ جلد ہی تعمیراتی کام شروع کر دیا جائے گا اور ایک یا دو سال میں اسے مکمل کر لیا جائے گا۔“

کولوگنے کے میئر فرٹز شراما (Fritz Sehramma) نے اس پروجیکٹ میں ایک نقیب کے طور پر اپنا رول ادا کیا تھا۔ اپنا جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس شہر کے تقریباً 12,000 مسلمانوں کا ایک مناسب عبادت خانہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”اس کام میں کچھ وقت ضرور لگ جائے گا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ جب یہ مسجد کولوگنے کے ثقافتی ورثہ سے منسوب ہو جائے گی۔“ امیگریشن اور یکجہتی جرمنی میں بہت ہی حساس موضوعات رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پر 3.5 ملین مسلمان رہائش پذیر ہیں اور ان میں اکثریت ترک نژاد لوگوں کی ہے۔ 1990 میں جبکہ یہاں پر صرف تین مسجدیں تھیں ان کے مقابلے میں آج 159 سے زیادہ مسجدیں ہیں۔

جرمنی کی سب سے بڑی مسلم ایسوسی ایشن کے چیئر مین سعدی ارسلان (Sadi Arsalan) نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کسی کو بھی مسجد کے قیام سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہم کولوگنے میں نہ صرف مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں بلکہ کولوگنے کے تمام باشندوں کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ مسجد رواداری، اعتماد اور امن کی علامت ثابت ہوگی جوکہ بقائے باہم کے علاوہ بین عقائد مذاکروں کا بھی ایک مرکز ہو گی۔ لیکن اس وضاحت کے باوجود اس پروجیکٹ کے تعلق سے کولوگنے شہر کے لیڈروں کے درمیان ایک تنازع پیدا ہو گیا تھا اور یہاں کے بہت سے مقامی باشندے مسجد تعمیر کرانے کی سخت مخالفت کرنے لگے تھے جس کا ڈیزائن ایک مقامی ماہر فن تعمیرات پال بوم (Paul Bohm) نے تیار کیا تھا۔ اس مسجد کو تعمیر کرانے کی جب تجویز پیش کی گئی تھی تو اس وقت جرمنی کے معروف یہودی مصنف رالف جیورڈانے (Ralph Giordane) نے زبردست طریقہ سے تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس مسجد کے قیام سے یہ تاثر ملنے لگے گا کہ ”ہمارے ملک میں اسلام اپنی جڑیں جمانے لگا ہے“ اسی طرح کولوگنے کے رومن کیتھولک لیڈر، آرک بشپ جو اشیئن مینرنر(Joachian Meisner) اس مسجد کے قیام کے سخت ترین مخالف تھے۔ اس تنازع کے ابھرنے پر جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس مسجد کے قیام سے کیوں خوفزدہ ہیں تو انہوں نے کہاکہ ”میں بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوں بلکہ ایک طرح کی بے چینی محسوس کر رہا ہوں۔“ اس طرح کے بیانات نے جرمن۔ ترکی لیڈروں کو ایک طرح سے پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا جوکہ طویل عرصہ سے ایک مسجد تعمیر کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب ڈی آئی ٹی آئی بی کے ایک لیڈر بکیر البوگا (Bekir Alboga) کا کہنا تھا کہ کولوگنے کے 120,000 مسلمانوں کے پاس ایک بھی ایسی جگہ نہیں ہے جس کے بارے میں وہ فخر کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ وہ ان کے عقیدہ کی علامت ہے۔

44 سالہ ترکی امام البوگا اس وقت جرمنی میں منتقل ہو گئے تھے جب ان کی عمر 18 سال کی تھی اور وہ روانی کے ساتھ جرمن زبان بولنے لگے تھے چنانچہ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس مسجد کی تعمیر ایسے نادر موقع پر ہو رہی ہے، جس سے مذہبی رواداری کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مینرنر کی بات سے بہت دکھ ہوا ہے کیونکہ جرمنی کے کیتھولک کلیساؤں اور پروٹیسٹینٹ کلیساؤں نے مسجد تعمیر کرانے کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے مزید وضاحت کے ساتھ کہا کہ ڈی آئی ٹی آئی بی ایک ایسا آرگنائزیشن ہے جو کہ شدت پسندی اور دہشت گردی پر لگام کسنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ بہرکیف کولوگنے شہر کے افراد اور ڈی آئی ٹی آئی بی اس بات پر رضامند ہو گئے کہ یہ مسجد یکجہتی اور اعتماد کو فروغ دینے میں ہی نہ صرف اہم رول ادا کرے گی بلکہ جرمن زبان و ثقافت کو فروغ دینے میں بھی قابل قدر کردار ادا کرے گی۔ شراما (Sehramma) کے مطابق مسجد میں جو بھی خطابات کئے جائیں گے ان کا ترجمہ کرایا جائے گا۔ انہوں نے اپنے اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ”ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مسجد کے اندر کیا ہو رہا ہے، کیا تعلیم دی جا رہی ہے اور وہاں پر کس نوعیت کی تلقین کی جا رہی ہے۔“

ڈی آئی ٹی آئی بی کے اٹارنی محمد گنیٹ (Mehmet Gunet) کا خیال تھا کہ شیشے والی عمارت کے ڈیزائنوں سے شہر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم ایک شفاف مسجد چاہتے ہیں، محض ایک تعمیراتی ڈھانچہ نہیں چاہتے ہیں، ہم ہر پہلو سے شفافیت چاہتے ہیں تاکہ ہر کوئی یہ دیکھ سکے کہ مسجد کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ جہاں تک یوروپ میں مسجدوں کا سوال ہے تو ان پر زبردست مباحثے ہوئے ہیں۔ درحقیقت یہ بحث عمارتوں کے تعلق سے نہیں ہوتی تھی بلکہ ان لوگوں کے بارے میں ہوئی تھی، جو وہاں پر عبادت کرتے ہیں۔ابھی حال ہی میں اس پروجیکٹ کے منصوبہ کے تعلق سے لندن میں مقامی کونسلر کی قیادت میں اس کے رقبہ اور وسعت کے سلسلے میں زبردست احتجاج ہوا تھا کیونکہ بنیادی طور پر اس بات کا انکشاف کر دیا گیا تھا کہ یہ یوروپ میں سب سے بڑی مسجد ہوگی۔

فرانس کا مارسلے (Morseille) یہاں کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں پانچ شہریوں کے درمیان ایک مسلمان ہے، اس کے باوجود یہاں پر کوئی مسجد نہیں ہے۔ تقریباً 200000 سے زائد مسلمان مارسلے شہر کے مختلف علاقوں میں عبادت کرتے ہیں۔ بہت جلد ہی یہ منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا کیونکہ مسلم طبقہ کو اب 8600 مربع میٹر رقبہ کی اراضی موصول ہوگئی ہے اور اس پروجیکٹ کی منظوری بھی مل گئی ہے تاکہ تجدید شدہ مقام کو مسجد میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس کا صدر دروازہ سمندری ساحل کی جانب ہوگا اور اس میں دو ایسی میناریں تعمیر کرائی گئی ہیں جو بحری جہازوں سے سفر کرنے والے مسافروں کو دور سے ہی نظر آنے لگتی ہیں۔ یوروپ میں تعمیر ہو ے والی زیادہ تر نئی مسجدوں کا ڈیزائن اس طرح کا ہے کہ وہ مسلمانوں کی روحانی اور مادیاتی ضروریات کو پورا کر سکیں، میونخ (Munich) کی مسجد کی عمارت دو منزلہ ہے جہاں گراؤنڈ فلور کو ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے مختص کر دیا گیا ہے جبکہ اوپری منزل صرف نماز ادا کرنے کے لئے محفوظ کر دی گئی ہے۔

ایمسٹرڈم (Amsterdam) کی جو نئی مسجد کا پلان تیار کیا گیا تھا وہ کچھ زیادہ ہی وسیع ترین تھا۔ اس کے قیام کا مقصد صرف مذہبی امور کی ادائیگی تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ شہر کے 4000 مسلمانوں کے لئے ایک ثقافتی اور سماجی سینٹر قائم کرنا بھی تھا۔ علاوہ ازیں نیدر لینڈس (Netherlands) میں رہنے والے مسلمانوں، غیر ممالک سے آنے والے لوگوں اور طلبا کے لئے اسے ہیڈ کوارٹر بنانا بھی تھا۔ اس مسجد کا ڈیزائن کچھ اس طرح سے تیار کیا گیا تھا کہ اس میں نہ صرف اسلامی طرز تعمیر کے ورثہ کی روایتی جھلک نظر آئے بلکہ موجودہ دور میں اسلام کے متحرک رجحان کی بھی عکاسی ہو جائے۔ یہ سینٹر اسلامی کلچر، تہذیب و تمدن کا ایک ایسا شاہکار ہے جو کہ عمومی طور پر ہالینڈ کے باشندوں میں بھی مقبول ہے۔ 5 ملین ڈالر کے صرفہ سے تعمیر کرایا گیا ایمسٹرڈم کا یہ سینٹر سٹی کونسل کے ذریعہ عطیہ کردہ 1.7 ایکڑ رقبہ پر محیط پلاٹ پر تعمیر کرایا گیا تھا۔ حالانکہ اس مسجد میں 900 نمازیوں کے ذریعہ بیک وقت نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ تاہم اس کو ضرورت کے مطابق اس سے متصل آڈیٹوریم، جمناجیم اور صحن تک وسیع کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے 3400 نمازیوں کے لئے گنجائش نکل آتی ہے۔ ایمسٹرڈم سینٹر میں لیکچر اور اسپورٹ ہال کے علاوہ ایک لائبریری، ایک کیفیٹیریا، ایک لاؤنج، تین کلاس روم، ایک لسانی لیبارٹری، کنڈرگارٹن، گیسٹ روم، ایک پرنٹنگ شاپ کے علاوہ رہائشی اپارٹمنٹوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

بہر کیف مغربی جرمنی کے کولوگنے شہر کی مسجد کو یوروپ میں سب سے بڑی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس مسجد کے توسط سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں، انہیں دور کرنے میں یہ کلیدی رول ادا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے دیگر مذاہب کے مقلدین مسلمانوں کے رابطے میں آنے لگے ہیں۔ یہ اسلام کی حقانیت کا ہی ثمرہ ہے کہ مسجدوں کے توسط سے اسلامی تعلیمات کا پیغام پوری
دنیا کے دور دراز خطوں تک پہنچ رہا ہے اور کرہ ارض کے کسی بھی خطے میں رہنے والے غیر مسلم باشندے نہ صرف اسلام کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں بلکہ اس کی حقانیت سے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close