Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

تمہیں خبر ہے تمہاری نفرت ہمیں محبت سکھا رہی ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

دہلی اسمبلی کے لئے چناوی جنگ ختم ہوچکی ہے، اب کس کے سر پر دہلی کا تاج ہوگا اس کا اشارہ ایگزٹ پول کے ذریعہ ہونے لگا ہے۔ ایک بار پھر دہلی میں کجریوال کی ہیٹ ٹرک لگنے کے امکانات ہیں، مگر اس چناوی جنگ میں جس طرح بی جے پی نے اپنی طاقت جھونکی ہے، وہ اب تک کی انتخابی جنگوں کا نادر نمونہ ہے، جس میں بی جے پی نے اپنے 200 سے زائد ممبران پارلیمنٹ کو چناوی تشہیر میں جھونک دیا، تمام مرکزی وزراء اور وزرائے اعلیٰ دہلی میں خیمہ زن کر دیا اور پھر دہلی میں نفرت کی سیاست کی ایسی آندھی چلائی گئی کہ لگنے لگا کہ اب ملک کا جمہوری اورسیکولر کردار باقی نہیں رہ پائے گا۔ یوگی آدتیہ ناتھ، گری راج سنگھ، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپل مشرا وغیرہ وغیرہ کی شعلہ فشانی نے دہلی کے چناؤ کو ہندو- مسلم بنا دیا۔

دہلی دل والوں کا مسکن رہا ہے، یہاں نفرت کی سیاست پر محبت کی فتح کے آثار ملنے لگے ہیں۔ ایگزٹ پول جو اشارے دے رہے ہیں، اس کے تناظر میں بی جے پی کا ہر داؤ ناکام ہوچکا ہے۔ حالانکہ دنیا نے یہ انوکھا منظر بھی دیکھا ہے کہ خود ملک کا سب سے طاقتور وزیرداخلہ دہلی کے گلی کوچوں میں گھوم رہا ہے، ووٹروں کو خود اپنے ہاتھوں سے پرچے بانٹ رہا ہے۔ سب نے یہ بھی دیکھا کہ لاجپت نگر میں تشہیری مہم کے دوران دو طالبات نے امت شاہ کو کالا جھنڈا دکھا کر ہمت وجرأت کی نئی مثال پیش کی۔ دہلی کے چناؤ میں بی جے پی کی کوروسینا کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر یہ سلوگن بھی خوب خوب وائرل ہوا کہ اب دہلی کے اکھاڑے میں صرف ٹرمپ کو اتارنا باقی رہ گیا ہے۔ گوکہ دہلی کے چناؤ میں کانگریس، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان سہ رخی مانا جا رہا تھا، مگر جیسا کہ ایگزٹ پول سے نظر آرہا ہے کہ کانگریس اس مقابلے میں ہے ہی نہیں، حالانکہ اسے پچھلے الیکشن میں 9 فیصد ووٹ ملے تھے، مگر اس بار اس شرح سے بھی 6فیصد کم ووٹ ملے اور اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہوا، جس میں وزیراعظم مودی سے لے کر امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ تک سبھی کا نشانہ صرف کجریوال تھے اور سیاست کا یہ گھناؤنا روپ بھی دنیا نے دیکھا کہ جب ایک منتخب وزیراعلیٰ کو آتنک وادی کہا جا رہا تھا، لیکن:

سو سنار کی تو ایک لوہار کی

کجریوال وکاس کے ایشو کو لے کر چناوی میدان میں تھے، جبکہ بی جے پی کا سارا زور پاکستان، بریانی، شاہین باغ اور آتنک واد پر تھا، وہ حسب دستور اپنے نام نہاد راشٹرواد کے زہر سے دہلی کو فتح کرنے کی بساط بچھائے ہوئے تھی۔ دہلی کے چناؤ میں نفرت کی سیاست بی جے پی کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ دہلی آکر شاہین باغ کی خواتین کی توہین کر رہے تھے۔ کوئی بی جے پی لیڈر کہہ رہا تھا کہ شاہین باغ کی خواتین پانچ پانچ سو روپے لے کر دھرنا دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے ایم پی پرویش ورما تو 2 قدم آگے نکل گئے تھے، وہ عوامی تشہیر میں لوگوں کو اشتعال دلا رہے تھے کہ شاہین باغ کے لوگ تمہارے گھروں میں گھسیں گے اور تمہاری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے۔ مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے شاہین باغ اور ملک میں سی اے اے کے خلاف دھرنا دینے والوں کو غدار قرار دیا تھا اور اپنے عوامی جلسوں میں ”دیش کے غداروں کو گولی مارو……“ کے نعرے لگوائے تھے اور شاید اسی کا ردعمل تھا کہ شاہین باغ اور جامعہ کے دھرنوں پر تین بار گولیاں چلائی گئیں۔ مگر تمام ترنفرت، دھمکیوں اور غنڈہ گردی کی سیاست کے آگے شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نہیں جھکیں۔ حتیٰ کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ لے جایا گیا اور الیکشن سے ایک دن قبل شاہین باغ کو خالی کرانے کی اپیل بھی کی گئی، لیکن سپریم کورٹ کو بھی معاملے کی حساسیت کا اندازہ تھا کہ شاہین باغ کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس لئے اس نے معاملے کو یہ کہہ کر ٹال دیاکہ یہ سماعت الیکشن کے بعد ہوگی اور ہمیں یہ بات کہنے سے گریز نہیں کہ شاہین باغ بی جے پی کی چناوی تشہیر کا سب سے بڑا ایشو بنا رہا۔ شاہین باغ کو بی جے پی لیڈران آتنک وادیوں کا آندولن کہتے رہے۔ گری راج سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ شاہین باغ میں خود کش بمبار تیار ہو رہے ہیں۔ شاہین باغ کی خواتین کا دھرنا ختم کرنے کے لئے ہرممکن سعی کی گئی۔ چناؤ سے ایک روز قبل سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا گیا تاکہ شاہین باغ کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے، لیکن کسی بھی جمہوری ملک کے سپریم کورٹ کو یہ احساس رہتا ہے کہ انتخابات اور سیاسی اتل پتھل کے دوران کئے گئے فیصلے کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو بڑی خوبصورتی سے ٹال دیا۔

گرچہ ایگزٹ پول کے جو اشارے آرہے ہیں، اس میں بی جے پی کے گھمنڈ کے پرخچے اڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کجریوال کی دھماکیدار واپسی ہو رہی ہے، بعض چینل تو عام آدمی پارٹی کو 68سیٹیں ملتے ہوئے دکھا رہے ہیں۔ دراصل اس شاندار جیت کی سب سے بڑی وجہ تو خود کجریوال ہیں، ان کی ٹکر کا کوئی چہرہ بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایم سی ڈی اور بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کا غیرفعال کردار بھی جیت کا سبب بنا۔ خاص کر کانگریس کی خستہ حالی سے بھی کجریوال کو فائدہ ملا اور ان کی ووٹ شرح بڑھ گئی۔ اس الیکشن میں یہ دیکھنے کو ملا کہ کجریوال ایکٹیوسٹ کے زمرے سے نکل کر ایک پختہ کار اور منجھے ہوئے سیاستداں کے طور پر نظر آئے، وہ شاہین باغ نہ جاکر بی جے پی کے جال میں پھنسنے سے بچ گئے اور ہندو ووٹوں کی صف بندی نہیں ہونے دی، جس کی جھنجھلاہٹ بی جے پی کے تشہیری مہم میں نظر آئی۔

حالانکہ چناؤ میں نفرت کے بازی گروں نے زہریلی سیاست کے سارے پتے کھول دئے تھے۔ بدزبانی، بدکلامی اور الزام تراشی کی انتہا ہوگئی تھی اور یہ لگنے لگا تھا کہ دہلی اسمبلی انتخاب میں ہندو، مسلم کارڈ اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔ مودی کہہ رہے تھے کہ شاہین باغ ’سنجوگ نہیں پریوگ‘ ہے۔ امت شاہ بھی بڑے دھڑلے سے کہہ رہے تھے کہ ای وی ایم کا بٹن انتا زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے، مگر اس کے برعکس نظر آ رہا ہے کہ شاہین باغ کی خواتین کا کرنٹ اتنا تیز تھا کہ اس نے بی جے پی کی تمام زہریلی سیاست کو سپوتاز کر دیا۔ شاہین باغ میں مظاہرہ بھی جاری ہے اور وہاں کی خواتین نے باری باری کرکے ووٹنگ بھی کی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جہاں ملک میں سی اے اے کے خلاف آندولن کو نیا حوصلہ دیا ہے، وہیں دہلی چناؤ میں ان کے پولنگ کرنے کے نئے انداز نے ملک کو چونکا دیا ہے۔ ایگزٹ پول کے مطابق دہلی اسمبلی کی 70سیٹوں کے لئے عام آدمی پارٹی کو 57.6 فیصد ووٹ ملے ہیں، جو گزشتہ ووٹنگ فیصد سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہے۔ مسلم علاقوں میں ووٹنگ کی شرح 70فیصد سے زائد بتائی جا رہی ہے، جو اب تک کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ مسلمان اس طرح اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لئے بیدار ہوگا یہ دہلی کے چناؤ نے دکھا دیا ہے اور دہلی والوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ لاکھ نفرت کی آندھی چلے، لیکن دہلی کے خمیر میں محبت کی وہ چاشنی ہے، جو ہر زہر کے لئے تریاق ہے۔

دہلی کا چناؤ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ عوام اب وکاس کے آگے نام نہاد راشٹرواد قبول نہیں کرنے والے۔ اس کے اثرات بہار سمیت ان ریاستوں پر بھی پڑیں گے، جہاں اسی سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بہرحال ایگزٹ پول کے مطابق دہلی میں عام آدمی پارٹی پھر سے سابقہ تاریخ دہرا سکتی ہے۔ دہلی میں بی جے پی مخالف آندھی چل پڑی ہے اور یہ آندھی نفرت کی سیاست کے خلاف یہ پیغام دے رہی ہے۔ بقول طالب رامپوری:

نکل کے کچھ دن کی حکمرانی تمہارے ہاتھوں سے جا رہی ہے
تمہیں خبر ہے تمہاری نفرت ہمیں محبت سکھا رہی ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close