Khabar Mantra
محاسبہ

تمہارا سورج ہے ڈھلنے والا، نیا اُجالا ہے آنے والا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں پہلی بار پریس کانفرنس کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے لیکن اس پریس کانفرنس میں صحافیوں کے کسی بھی سوال کا جواب نہ دے کر انہوں نے ہندوستانی سیاست اور اپنی کرشمائی شخصیت کو اس کٹہرے میں بھی کھڑا کر دیا ہے، جسے دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ 56 انچ کا سینہ رکھنے والے جوش و اعتماد سے بھرے ہندوستان کے عوام اس شعلہ بیان پی ایم کی بے بسی کو دیکھ رہے ہیں جو اپنی تقریروں سے ہوا کا رُخ بدلنے کا دعویٰ کرتا رہا ہے مگر پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے سوالات سے بھی بچتا رہا ہے۔ ہر سوال کے لئے وہ امت شاہ کی طرف دیکھتا رہا ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم عہدے کے دو دعوے دار ایک ہی وقت میں ایک ہی تاریخ میں اور ایک ہی شہر میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی اپنی پریس کانفرنس میں مودی کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں، ان سے جواب طلب کر رہے ہیں جبکہ مودی اپنی پریس کانفرنس میں خاموشی کا پیکر بنے بیٹھے ہیں۔

بلاشبہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم کی خاموشی ایک ایسا تازیانہ سیاست ہے جو ان کی بولڈ شخصیت، اہمیت و مستقبل کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ ستم سیاست تو یہ بھی ہے کہ مودی فلمی اداکار اکشے کمار کے اُوٹ پٹانگ سوالوں کا جواب مسکرا مسکرا کر دیتے ہیں مگر صحافیوں کے ایک بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ایک ایسا شعلہ بیان مقرر، جو جلسہ جلوس میں اپنی خطابت سے ہوا کا رُخ بدل دیتا ہے، نئی نئی تاریخ گڑھنے میں اسے یدطولیٰ حاصل ہے۔ علم و سائنس کی باتوں سے دنیا کو حیران کرتا ہے، رڈار اور ڈیجیٹل کیمرے پر اپنے تجربات شیئر کرتا ہے غرض کہ ہر موضوع پر دُھواں دھار بولنے والا یہ شخص آج صحافیوں کے سامنے خاموش کیوں رہا؟ امریکہ کے اوبامہ سے تُو تڑاک سے بات کرنے والا مودی آخر میڈیا سے گفتگو کرنے سے گھبرا کیوں گیا۔ حالانکہ میڈیا پانچ برسوں سے ان کے دربار کا قصیدہ گو رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پانچ سالہ دور اقتدار میں مودی کی اولین پریس کانفرنس اور اس میں ان کی خاموشی ایک طرح سے منہ دکھائی کی تقریب تھی تاکہ 23 مئی کو ان کی وداعی ہو سکے۔

اپنے دور کی پہلی پریس کانفرنس میں ایک بھی سوال کا جواب نہ دینا بلاشبہ مودی کے اعتماد اور حوصلہ کے زوال کا منظر نامہ ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس الیکشن میں 142 انتخابی ریلیاں کیں 4 بڑے روڈ شو کئے۔ ہر انتخابی جلسے میں اپوزیشن کے لگائے الزامات کا کرارا جواب دیا لیکن صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے کترا گئے۔ حد تو یہ ہے کہ جو باتیں وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں کرتے رہے ہیں وہ باتیں بھی وہ پریس کانفرنس میں دوہرا نہیں سکے۔صحافیوں کے سوالوں کا مورچہ امت شاہ نے سنبھالا اور مودی بے بسی کا پیکر بنے موجود رہے۔ اس موقع پر مودی کی باڈی لینگویج بھی اس بات کی گواہ رہی کہ وہ پریس کانفرنس میں بد دلی اور مایوسی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ مودی کی باڈی لینگویج سے یہ بھی عیاں ہو رہا تھا کہ بساط الٹ چکی ہے، وقت کروٹ لے رہا ہے، منظر تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے اور اسی تبدیلیئ وقت نے مودی کو بے وقعت کر دیا ہے۔ لہذا منہ دکھائی کے بعد ان کی وداعی ہونے والی ہے۔

وزیراعظم پر ہمیشہ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ ان کا انٹرویو پلانٹڈ ہوتا ہے مگر ان کے دور اقتدار کی پہلی پریس کانفرنس کا انعقاد، مودی کا صحافیوں کے رو برو ہونا ایک تاریخی قدم ضرور کہا جائے گا لیکن اس دوران خاموش رہنا بھی عجوبہ سیاست سے کم نہیں۔ کاش مودی صحافیوں کے رُو برُو ہونے کے بجائے دُو بدُو بھی ہو جاتے لیکن اس پریس کانفرنس میں ملک کی سب سے طاقتور شخصیت کے چہرے اور بشرے سے ایک مایوسی اور اعتماد کی کمی کا جو اشارہ مل رہا تھا وہ حیرت ناک ہے۔ صحافیوں کے سوال کے جواب میں انہوں نے ایک عجیب بات کہی کہ میں پارٹی کا ایک تابعدار کارکن ہوں، سوالوں کا جواب امت بھائی دیں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ ایئرپورٹ پر غیر ملکی سربراہوں کے استقبال کے لئے پروٹو کول توڑنے والے مودی کی یہ کیسی تابعداری ہے کہ ان کے لب خاموش رہے اور امت شاہ جواب دیتے رہے۔ وزیراعظم تو وزیراعظم ہوتا ہے، پورا ملک چلاتا ہے، پریس کانفرنس میں خود کو محض کارکن کہنا اور چُپ رہنا کچھ ہضم نہیں ہو رہا ہے اور امت شاہ بھی بڑے طمطراق سے کہتے نظر آئے کہ ہر سوال کا جواب وزیراعظم ہی دیں ضروری نہیں۔ کاش پی ایم ایک آدھ سوال کا جواب دیتے تو یہ گمان ہوتا کہ واقعی وہ 56 انچ کا سینہ رکھتے ہیں اور اس کے اندر حوصلہ، جوش اور اعتماد کا طوفان بھی ہے مگر لگتا ہے کہ اس الیکشن نے ان کے سارے جذبے کو جھاگ کی طرح بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نمبر ون کی حیثیت رکھنے والا شخص نمبر 2بن چکا ہے۔ آج تک کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مودی سے آگے نکل جائے لیکن پریس کانفرنس میں امت شاہ مودی سے آگے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں اور مودی مایوس انداز میں پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ مودی کی اس عبرت ناک پریس کانفرنس پر دنیا حیران ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی تمام تر جانبداری اور بنگال میں تشہیر ی مہم روکے جانے اور مودی۔شاہ کو کلین چِٹ دینے کے خلاف اب الیکشن کمیشن میں بھی طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے کمیشن کی ہر میٹنگ سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ رافیل معاملہ کو دبانے کے لئے بوفورس کو زندہ کرنے کی حکمت عملی بھی فلاپ ہو چکی ہے۔ سی بی آئی نے عرضی واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ سونیا گاندھی نے 23 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ طلب کرلی ہے۔ تیسرے مورچہ کی بات کرنے والوں کا رخ اب سونیا گاندھی کی طرف ہو رہا ہے۔ چندر بابو نائیڈو نے خصوصی طور پر راہل گاندھی سے ملاقات کی ہے، شاید یہ بدلتے ہو ئے منظر نامہ کی دھمک کا اثر ہے۔

بہرحال اقتدار کے پہلے اور آخری پریس کانفرنس میں بھلے ہی مودی نے سوالوں کا جواب نہیں دیا مگر بعض اوقات خاموشی ہر سوال کا جواب ہو تی ہے۔مودی کو احساس ہو چکا ہے کہ بازی پلٹ چکی ہے۔ عوام نے خاموش انتقام لیا ہے،نفرت کی سیاست پر یکجہتی اور رواداری کی طاقت حاوی ہو چکی ہے۔قومی افق پر سیکولر گٹھ بندھن کی قیادت کی سُرخی چھانے والی ہے اور ان کی حکومت کے محض چند دن رہ گئے ہیں۔ بقول شاعر:

تمہارا سورج ہے  ڈھلنے والا، نیا اُجالا  ہے آنے والا
یہی  تو  چرچے ہیں آسماں پر،  یہی تو  آواز آ رہی ہے
نکل کے کچھ دن کی حکمرانی تمہارے ہاتھوں سے جا رہی ہے
تمہیں خبر ہے  تمہاری نفرت ہمیں محبت سِکھا  رہی ہے

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close