Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

تسمانیہ کے اولین مسلمان

عرب کے مسلمان جس طرح دین کی خدمت اور اسلامی تہذیب کے فروغ کے لئے قربانیاں دے رہے تھے، یہ ان کی جرأت اور حمیت ایمانی کا نتیجہ تھا کہ تجارت کے لئے دنیا کا سفر کرنے والے عرب تاجروں نے اپنی تجارت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کے چراغ روشن کرنے کا حوصلہ دکھایا، جس کا نتیجہ ہے کہ آج عرب سے لے کر یوروپ، امریکہ تک اسلام کی سر بلندی کا پرچم لہرا رہا ہے، لیکن عربوں کی طرح ہی اسلامی حمیت اور جذبۂ ایمانی سے سرشار ہندوستانی مسلمانوں کی جد و جہد کم تاریخ ساز نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمان جہاں گئے وہاں اسلام کا فروغ بہت تیزی کے ساتھ ہوا۔ وہاں کی تہذیب کے ساتھ اشتراک کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں نے اسلامی تشخص کو برقرار رکھا۔ ہندوستانی مسلمان جہاں پہنچے وہاں کی تہذیب اور معاشرت اور قانون کو گلے لگایا۔ یہی نہیں اسلامی ثقافت کو مزید منور کرنے کے لئے انہوں نے اس خطہ کی خواتین سے شادیاں بھی کیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی طرز رہائش کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے مساوات کے پیغامات پر عمل کرتے ہوئے مقامی تہذیب کو اپنایا اور اسی کا خوش گوار نتیجہ یہ نکلا کہ خطے میں اجنبی ہوتے ہوئے بھی ان مسلمانوں کی مدد کی گئی۔ آج ہم کولکاتہ سے تسمانیہ جانے و الے اولین مسلمان کی داستان رقم کر رہے ہیں، جس کے حوصلہ کی مثالیں اسلامی تاریخ رقم کرنے والوں کے لئےمِشعلِ راہ ہے۔ 1807میں بحری جہاز نیلسن ہوبارٹ کے ساحل پر پہنچا، تو تسمانیہ میں بسنے والے اولین مسلمان جیکب سلطان بھی اسی جہاز میں سوار تھے۔ یہاں آباد ہونے والے زیادہ تر مسلمان نارفوک سے آئے تھے۔ اتفاق کی بات کہ یہ تمام لوگ ہند نژاد تھے، جو کہ نارفوک میں تاجر اور کاشت کار کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ تسمانیہ میں بسنے والے جیکب سلطان کے علاوہ تین مسلمان اینٹینیو بکنال بخاری،باسٹئین سویز اور محمد عبد اللہ، جو ہندوستان کے برطانوی بحری جہاز کے عملہ میں شامل تھے۔ اتفاقاً یہ جہاز تباہ ہو گیا اور یہ کسی طرح نارفوک پہنچے۔ ان تینوں کے کردارو عمل کا نتیجہ تھا کہ انہیں سرکار کے ذریعہ اراضی گرانٹ کی گئی اور وہ کھیتی کرنے لگے، لیکن 1883میں ان تین مسلمانوں کے کھیتوں میں آگ لگا دی گئی۔ نسلی عصبیت کے اس عمل کی عدالت نے بھی مذمت کی، لیکن تمام تر علاقائیت، عصبیت کے باوجود ہندنژاد مسلمانوں کا حوصلہ پست نہیں ہوا اور پھر وہ زندگی کی جدو جہد میں نام روشن کرنے لگے۔ ان تین مسلمانوں کی کاوشوں اور جد و جہد کا ہی کرشمہ ہے کہ یہاں مسلم ایسو سی ایشن کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو روشن کرنے کا عمل بھی جاری ہے، مسجدیں بھی بنائی جا رہی ہیں، دینی مدارس بھی قائم ہو رہے ہیں اور اب تو تسمانیہ کے مسلمان دینی ومعاشی سطح پر کافی بلندی پر ہیں۔ زیر نظر خصوصی شمارہ میں تسمانیہ کے اولین باز آبادکاروں کی آمد ان کی جدو جہد کے علاوہ تسمانیہ کی ملی تنظیموں کا جو حوصلہ ہے وہ عالم اسلام کے مسلمانوں کو ایک درس دیتا ہے کہ انتہائی قلیل تعداد کے باوجود کیسے مسلمان اپنے اخلاق و اقدار و اپنی دور اندیشی کی وجہ سے دنیا میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

جب 29نومبر 1807میں بحری جہاز ’لیڈی نیلسن ‘ہو بارٹ کے ساحل پر پہنچا تو تسمانیہ میں بسنے والا اولین مسلمان جیکب سلطان بھی اس جہاز میں سوا رتھا۔ یہاں پر پہلے آباد ہونے والے زیادہ تر مسلمان نورفاک(Norfolk) سے آئے تھے، جن کے بحری جہاز 1795 اور 1800 کے درمیان کئی مرتبہ سمندی طوفان میں تباہ ہو گئے تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ ہند نژاد تھے، جو کہ نارفوک میں تاجر اور کاشتکار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ برطانوی حکام نے 1807 میں جب نارفوک بستی کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تو مسلمانوں نے بھی دیگر باشندوں کے ساتھ اسے خالی کر دیا تھا۔تسمانیہ میں ان کی دوبارہ آمد کے بعد انہیں اراضی دی گئی تھی۔ چنانچہ زیادہ تر لوگ کاشتکاری ہی کیا کرتے تھے اور سزا یافتہ افراد کاشتکاری میں معاونت کر کے خود کو دوبارہ بسانے میں مصروف ہو گئے تھے۔ اس بستی کا اہم علاقہ اس وقت پہلے تو نیو نارفوک میں تھا لیکن ان میں سے بہت سے افراد کچھ زیادہ ساز وسامان کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل ہو گئے تھے۔

ان آباد کاروں میں سے تین افراد کا نام اینٹینیو بکنال بخاری، باسٹیئن سویز اور محمد عبد اللہ تھا، جو کہ برطانوی ہندوستان کے اس بحری جہاز ’ہنٹر‘کے عملہ میں شامل تھے، جو کہ نارفوک جزیرہ کے نزدیک 1799میں تباہ ہو گیا تھا، لیکن یہ تینوں بچ گئے تھے۔ جب نارفوک میں انہیں اراضی گرانٹ کر دی گئی تو وہ کاشت کاری میں مصروف ہو گئے تھے اور کئی برسوں تک انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ کھیتی باڑی کی تھی۔ جولائی 1823 میں اینٹینیو بکنال کے کھلیان میں آگ لگا دی گئی تھی اور اس سلسلے میں نارفوک جزیرہ میں پہلے سے ہی رہنے والے دو افراد ولیم اسٹینڈفیلڈ اور جیمس کراہن پر آگ لگانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس معاملہ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بکنال کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بیچارہ غیر ملکی سیاہ فام، جو کہ کئی برسوں قبل نارفوک جزیرہ میں آیا تھا، تب ہی سے اسے حکومت کی جانب سے ایک چھوٹا سا کھیت مل گیاتھا۔ اس نے نہایت محنت اور استقلال کے ساتھ کام کیا تھا ‘‘جوری نے جب نتیجہ اخذ کیا تو اسے بے قصورقرار دیا گیا اور 10جون 1824میں اسے رہا کر دیا گیا تھا۔

20جولائی 1824میں بکنال، سویز اور عبد اللہ نے اس وقت گورنر آرتھر کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا کیونکہ انہوں نے امبینیا(Ambinia) کو یہ ہدایت دی تھی کہ ان تینوں کو ان کے آبائی وطن کو لکاتہ پہنچا دیا جائے۔ ان تینوں نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ اس وقت نہایت دشواری میں ہیں اور اتار چڑھائو کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم ان کی درخواست اور جوازکو مسترد کر دیا گیا تھا، لیکن ان کے سامنے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ سڈنی تک پہنچانے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ چنانچہ بکنال ہو پارٹ میں منتقل ہو گیا تھا اور وہ آرگل اسٹریٹ میں واقع ’گڈویمن ان ‘ کے نزدیک 1849میں اپنے انتقال تک وہاں رہا تھا۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ا س کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کی دو بیٹیاں تھیں، لیکن سویز اور عبد اللہ کے انتقال کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ بحری جہاز میں کام کرنے والے ہندوستانی لوگ، جو کہ 1795میں تسمانیہ آرہے تھے، ان کا بھی ایک جہاز سمندی طوفان میں تباہ ہو گیا تھا۔ ان دنوں سڈنی میں آباد لوگوں کے سامنے تغذیہ کی بہت زیادہ قلت تھی، اس لئے فوری طور پر اشیاء فراہم کرنے کے لئے ہندوستان سے ’Endeavour‘ نام کا ایک بحری جہاز روانہ کیا گیا تھا۔ اس جہاز کے ذریعہ 132مویشی، 350ٹن چاول اور 150ٹن دالیں بھیجی گئی تھیں۔ 18ستمبر 1795کو یہ جہاز سڈنی سے واپس ہوا تھا اور نیوزی لینڈ ہوتے ہوئے ہندوستان آرہا تھا، لیکن المیہ یہ ہوا کہ نیوزی لینڈ کے نہایت جنوبی علاقہ میں خراب اور ابر آلود فضا میں ایک زوردار دھماکہ کے ساتھ یہ جہاز تباہ ہو گیا تھا، لیکن اس حادثہ میں بچنے والے لوگوں نے یہ دیکھا کہ برطانیہ کے بڑھیوں نے 1792میں ایک بحری جہاز تقریباً مکمل کر لیا تھا، جسے دیکھ کر وہ خوش ہو گئے تھے۔ جب یہ جہاز مکمل ہو گیا تو اس کا نام ’Province‘ رکھا گیا تھا۔ دسمبر 1795میں یہ جہاز نورفاک کی جانب روانہ ہوا تھا۔ اس جہاز کے عملہ کے چار لوگوں نے نارفوک میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور بعد میں وہ تسمانیہ منتقل ہو گئے تھے، ان کے نام محمد قاسم، جیکب سلطان، رام جان خاں اور جان حسن تھے۔ محمد قاسم 17جنوری1808 میں بذریعہ ’Province‘ ہو بارٹ آیا تھا۔ اسے 1822 میں نیو نارفوک میں اراضی گرانٹ کی گئی تھی، جو کہ تقریباً 33ایکڑ تھی۔ اس نے وہیں پر ایک خاندان میں شادی کر لی تھی۔ آج بھی قاسم کے خاندان کا نام نیو نارفوک کے علاقے میں معروف ہے۔

جیکب سلطان اپنی اہلیہ کے ساتھ 29نومبر 1807میں بذریعہ بحری جہاز ’Lady Nelson‘ ہوبارٹ میں آیا تھا۔ ابتدائی دور میں اسے 11.5ایکڑ اراضی نیو نارفوک میں گرانٹ کی گئی تھی، لیکن 1822تک اس اراضی کا رقبہ 27ایکڑ ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس نے وہاں پر خوشحال زندگی گزاری تھی تاہم اس کے انتقال کے بارے میں بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ رام جان خان ہندوستان کے گوگراہ علاقہ میں واقع انبراہ قصبہ میں ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے نہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی بحریہ میں ملازمت کی تھی بلکہ ممبئی آرمی کی سیکنڈ ریجمنٹ کی 11ویں بٹالین میں بھی اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ 1795میں بذریعہ ’Endeavour‘ پورٹ جیکسن کے لئے روانہ ہو اتھا اور جب یہ جہاز نیوزی لینڈ میں تباہ ہو گیا تو وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہیں ٹھہر گیا تھا۔ 1797 میں ان کی راحت اور بچائو کا کام امریکی جہاز ’Mercury‘ نے انجام دیا تھا اور پھر وہ انہیں نارفوک جزیرہ تک لے گیا تھا۔ نارفوک میں وہ ایک کامیاب شخص رہا تھا۔ اس نے 1803میں 20ایکڑ اراضی خرید لی تھی اور 1807میں اس نے حکومت کو گوشت فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔17جنوری 1808میں وہ بذریعہ پور پوئز (Porpoise) کان (Conn) سے ہوبارٹ پہنچا تھا۔ نارفوک جزیرہ میں اراضی کا نقصان ہونے پر معاوضہ کے طور پر اسے نیونارفوک میں 35ایکڑ اراضی گرانٹ کی گئی تھی اور بعد میں اس نے وہ اراضی اپنی گود لی ہوئی بیٹی کو دے دی اور خود Macquarie River/Campbell ٹائون کے علاقہ میں چلا گیا تھا۔ وہاں پر اس نے نہ صرف 1700ایکڑ اراضی خرید لی بلکہ بھیڑ اور دیگر مویشی بھی خرید لئے تھے۔ 1835میں اس نے سزا یافتہ اسکاٹ لینڈ کی ایک خاتون سے شادی کر لی جس کا نام کرسٹین کیمرون تھا۔ 21جولائی 1841میں انتقال کے وقت تک اس کا کیمپیبل ٹائون کے معاشرے میں نہایت بلند وقار تھا اور لوگ اس کی تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے۔

1813میں نارفوک جزیرہ چھوڑنے والے افراد میں سے جان حسن سب سے آخری شخص تھا۔ وہ 1795 سے 1813 تک وہاں رہا تھا اوروہ فروری 1813میں تسمانیہ کے پورٹ ’Dalryple‘ میں آیا تھا۔ اس کے بعد وہ نارفوک کے میدانی علاقہ میں رہائش پذیر ہو گیا تھا اور حکومت کی جانب سے اسے اراضی بھی عطا کی گئی تھی۔ ضمران وریم (Zimran Warim)جان حسن کے ساتھ تسمانیہ آیا تھا جو کہ حیدرآباد میں پیدا ہوا تھا۔ حالانکہ 1791میں اسے ایٹلانٹک (Atlantic) کے تیسرے بیڑے میں ایک مجرم کی حیثیت سے انگلینڈ کے سفر پر جانا تھا، لیکن اسے نارفوک جزیرہ پر بھیج دیا گیا تھا اور اس کے برتاؤ کی وجہ سے اسے معافی دے دی گئی تھی۔ اس کے بعد اسے نارفوک کے میدانی علاقے میں 40ایکڑ اراضی تفویض کر دی گئی تھی، لیکن المیہ یہ ہے کہ کچھ برسوں بعد ہی دو لوگوں نے اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔

ابتدائی مسلم آبادکاروں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے انہیں انجذاب کرنا مشکل ہو رہا تھا، چنانچہ تعداد میں کم ہونے پر وہ احساس تنہائی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بچے اسلامی شناخت سے محروم ہو گئے اور وہ عام لوگوں میں گھل مل کر اسی میں شامل ہو گئے تھے۔ 1820سے تواتر کے ساتھ یہاں پر مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ان کے بارے میں نہ صرف دلچسپ کہانیاں ہیں بلکہ تسمانیہ کے ترقیاتی کاموں میں بھی انہوں نے تعاون دیا ہے۔ 1960کی آخری دہائی میں مسلم مہاجرین اور پناہ گزین تسمانیہ میں آباد ہو گئے ہیں۔ ان کے چھوٹے سے طبقہ میں ایشیائی مسلم طلباء، جو کہ مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے یہاں آئے تھے، کی آمد سے مسلم آباد کاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اپنے گھروں اور اپنے معاشرے سے دور ہونے کے باوجود ان طلبا نے وہاں پر اپنی ایک Tasmanian Students Islamic Society قائم کر دی، جو کہ ان کی مذہبی ضروریات اور ان کی خواہشات کو پوری کرتی ہے۔

1970کی ابتدائی دہائی تک تسمانیہ میں مسلم طبقہ کی اکثریت جنوب مشرقی اور مغربی ایشا،مشرق وسطیٰ،افریقہ اور مشرقی یوروپ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے افردا پرمشتمل تھی۔ تسمانیئن اسٹوڈنٹس اسلامک سوسائیٹی کے علاوہ یہاں پر کوئی بھی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے، جو کہ ان کی مذہبی اورثقافتی شناخت کراسکے اور ان کی ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔ اس کمی کو 1973میں اس وقت دُور کیا گیا تھا، جب مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے تسمانیئن مسلم ایسو سی ایشن کے بینر تلے ’ایسو سی ایشن آف تسمانیئن مسلم‘ کی بنیا درکھی تھی۔ ا س کا اصل مقصد تسمانیہ کے تمام مسلمانوں کے لئے مذہبی، ثقافتی اور سماجی بہبود کو فروغ دینا تھا۔ علاوہ ازیں مسلم طبقہ کی ضروریات کے پیش نظر تسمانیہ میں مسجد اور اسلامک سینٹر قائم کرنے پر بھی ایسو سی ایشن نے اپنی توجہ مرکوز کی تھی۔

تسمانیئن مسلم ایسو سی ایشن کے بانی اراکین میں محمد صالح پارکر، محمد شفاعت الکاتب، اے رزاق خاں شامل تھے اور بعد میں ناضلی ماجد، تک عمراعمر، علائوالدین علی وغیرہ کو عالیہ بابک، محمد ہو دزک، نظیر، زیزینکووک، اقبال پاشا اور ریاض نائد کو اس ایسو سی ایشن میں شامل کرلیا گیاتھا۔تسمانیہ مسلم ایسو سی ایشن کو 12فروری 1976 کو ادارہ کی حیثیت دی گئی تھی تاکہ وہ قانونی حیثیت حاصل ہوجانے کی وجہ سے تسمانیہ کے مسلم طبقہ کی نمائندگی کرنے کے قابل ہو جائے، اس کے بعد قومی اسلامک آرگنائزیشن اور آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کو نسل (AFIC) میں بھی اسے آئینی درجہ حاصل ہو جائے۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس وقت اسلامک کونسل آف تسمانیہ کے تحت تسمانیہ مسلم ایسو سی ایشن ہی ایسا واحد ادارہ ہے جو کہ یہاں پر مسلم طبقہ کے فروغ کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی وسیع تر ہو جائے گا اور اسلامی تہذیب و تمدن اور روایات سے یہاں کے معاشرہ کو منور کر دے گا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close