Khabar Mantra
محاسبہ

ایک ذرا صبرکہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

اپریل مئی میں لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ سے ایک سنسنی خیز رپورٹ سامنے آئی ہے۔ امریکی سینیٹ کو سونپی گئی اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی اقتدار والی حکومت کے پاس الیکشن میں جانے کے لئے کوئی مؤثر ایشو نہیں ہے، اگر وہ الیکشن سے قبل ہندو راشٹر، ہندوتو اور یک رنگی تہذیب پر زور دیتی ہے تو ہندوستان میں زبردست فسادات کا اندیشہ ہے۔ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ یہ رپورٹ امریکہ کی تین خفیہ ایجنسیوں سی آئی اے، ایف بی آئی اور ڈی آئی اے نے گہری تفتیش کے بعد امریکی سینیٹ میں سلیکٹ کمیٹی کے سامنے پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ اس جائزہ کا حصہ ہے، جس میں امریکی خفیہ ایجنسیاں عالمی سطح پر ہونے والے بڑے خطرات پر نظر رکھتی ہیں اور اپنی حکومت کو آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ 2019 الیکشن سے قبل ہند۔پاک تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ ہند۔پاک سرحد پر لائن آف کنٹرول پر کراس بارڈر دہشت گردی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقتدار کے حصول کے لئے ہر سطح پر نفرت کا طوفان کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی یہ رپورٹ آج کے ہندوستان کا تشویش ناک منظر نامہ ہے اور ایک طوفان کی آمد کا پتہ بھی دے رہا ہے کہ ملک میں ہر سطح پر، ہر موڑ پر فضا کو مکدر کرنے کی تیاری ہے۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے الیکشن کے نتائج اور مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی کے اقتدار کے خاتمہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ 2014 کی طرح مودی کے نام پر اب ملک کے ذہن کو پلٹا نہیں جا سکتا۔ اب نہ بی جے پی کے پاس کوئی ایشو ہے نہ کوئی کرشمائی شخصیت ہے اور نہ اس نے کوئی وعدے وفا کئے، نہ اچھے دنوں کے سپنوں کو ساکار کیا الٹے نوٹ بندی، جی ایس ٹی نے ملک کی اقتصادیات کی کھاٹ کھڑی کر دی۔ ریکارڈ بے روزگاری اور کسانوں کی بدحالی نے ملک کو ایک طرح سے شرمسار کر دیا ہے۔ ملک سے بد عنوانی کو دور کریں گے۔ وعدہ کرکے اقتدار میں آنے والی مودی سرکار اب خود گردن گردن تک بد عنوانی میں ڈوب چکی ہے۔ رافیل کا بھوت روز نئے نئے کرتب دکھا رہا ہے۔ رافیل گھپلہ کے نئے نئے ثبوت سامنے آرہے ہیں۔ کل تک مودی کانگریس کے گھپلہ کو لے کر اپنی ایمان داری کی ڈگڈگی بجاتے تھے، عوام کو اچھے دنوں کا خواب دکھاتے تھے۔ اب راہل رافیل کے گھپلہ کو لے کر براہ راست پی ایم کو آئینہ دکھا رہے ہیں اور جلسہ ٔ عام میں چوکیدا چور ہے کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ چنانچہ جس طرح عوام کا ذہن حکومت مخالف ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر امریکہ کی اس رپورٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب ہندوتو کے جذباتی ایشو کے ذریعہ ہی ملک کا رُخ بدلا جا سکتا ہے۔ لہذا اب بڑے منصوبہ بند طریقہ سے دنگے شروع کرانے کا بیج بویا جا رہا ہے بلکہ ایک طرح سے اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے، جس کے تحت ایک نیا ٹی وی چینل لانچ ہوا ہے، جس نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی ہندوتو کا تانڈو دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ایودھیا میں تیس سال قبل مارے گئے کارسیوکوں کی الٹی سیدھی وثوول دکھائی جا رہی ہیں۔ یہ نو وارد ٹی وی چینل دعویٰ کر رہا ہے کہ مسجد بچانے کے لئے ملائم سنگھ کے دور میں 8 نہیں بے شمار کارسیوک مارے گئے تھے۔ ظاہر ہے یہ کھیل تماشے ہندوؤں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے ہی تو ہیں۔ رافیل گھپلہ کی آنچ سے بچنے کے لئے، حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے اب ملک میں نت نئے حربے اپنائے جا رہے ہیں، کیونکہ اب وہ تمام چینلز جو ملک میں ہر طرف مودی، مودی کے سروے دکھاتے تھے، اب وہ بھی حقیقت سے زیادہ دن تک منہ چھپانے کی جرأت نہیں کر پارہے ہیں۔ انہوں نے بھی سروے میں دکھا دیا کہ ملک میں جو رجحان ہے اس کے تناظر میں اب یہ سرکار دوبارہ برسر اقتدار نہیں آنے والی۔ چنانچہ اب نیا چینل ہندوتو کا ڈمرو بجانے کے لئے لایا گیا ہے۔

ہندوتو کے کھیل کی تشویشناک بازی گری یہ ہے کہ جہاں بابری مسجد، رام مندر تعمیر پر کڑی وابستہ ہے تو دوسری طرف وہ اقلیتی ادارے بھی نشانے پر لئے جا رہے ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کے وقار کی علامت اور اسلامی تشخص کے امین ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر دلتوں، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے اتحاد کے منظر نامے ہندوتو کے ایجنڈے کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ بڑے منصوبہ بند طریقہ سے دلتوں و پسماندہ طبقات کا ہمدرد بن کر بی جے پی اقلیتی اداروں میں ریزرویشن کا مطالبہ کرنے لگی ہے۔ سب سے خطرناک بات تو یہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی بساط بھی اب یوپی میں بچھائی جا رہی ہے۔ ایودھیا میں مندر نرمان کی ڈفلی بجانے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو مطعون کرنے کے پے در پے واقعات ہوتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کو لے کر وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس یوٹرن لے چکے ہیں اور مندر نرمان کی بات اگلے الیکشن کے بعد کر رہے ہیں، جبکہ جگت گرو سوروپانند سرسوتی نے 21 فروری سے مندر کی تعمیر کے سلسلہ میں’ کاریہ۔

ستم تو یہ ہے کہ ہندوتو کی آگ کو ہوا دینے میں یوپی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ سرفہرست ہیں۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اکھلیش۔مایا کے اتحاد نے ان کے 20 سالہ سیاست کو بھنگ کر دیا ہے اور وہ گورکھپور کے ضمنی انتخابات میں اپنی سیٹ بچانہیں سکے۔ وہ جانتے ہیں کہ یوپی میں گٹھ بندھن کے بعد ریاست سے بی جے پی کا صفایا ہو سکتا ہے چنانچہ ہندوتو کی آگ کا سب سے بڑا الاؤ یوپی میں جلایا گیا ہے۔ ایودھیا کے بعد اب علی گڑھ سے ہندوتو کی آگ ملک بھر میں پھیلانے کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عرصہ ٔ دراز سے فرقہ پرست قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی رہی ہے۔ چنانچہ کبھی اس کے اقلیتی کردار کو لے کر ہندوتو کا نقارہ بجایا جاتا ہے تو کبھی اے ایم یو کی مخصوص طرز معاشرت پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، کبھی جناح کی تصویر کو لے کر تو کبھی کشمیری طالب علم کی نماز جنازہ کو لے کر حب الوطنی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ہندوستان کے نقشہ کو لے کر کینیڈی ہال کے ڈرامہ کو رکو ایا جاتا ہے۔ غرض کہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑا جاتا جس سے اے ایم یو کو بدنام کیا جا سکے۔

اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر یوپی کے وزیراعلی آدتیہ ناتھ نے جس طرح شرم ناک بیان دیا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ یوگی مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے، انہوں نے فرمان جاری کیا ہے کہ یونیورسٹی کو تین سو کروڑ سالانہ گرانٹ ملتی ہے تو وہاں پر دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ریزرویشن ملنا چاہیے، یوگی کی اس شعلہ فشانی نے فسطائی قوتوں کو نئی حرارت بخش دی ہے اور یہ اسی کا اثر ہے کہ بی جے پی کے یوتھ مورچہ نے علی گڑھ یونیورسٹی میں فوری مندر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاقانویت کی انتہا ہے کہ اس کے لئے وائس چانسلر کو صرف پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے اور یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر 24 فروری تک انہوں نے مندر کے لئے زمین مہیا نہیں کرائی تو تنظیم کے ہزاروں کارکنان اے ایم یو کیمپس میں گھس کر خالی زمین پر قبضہ کریں گے اور وہاں مورتی نصب کریں گے۔ بی جے پی یوتھ مورچہ کے ضلع صدر مکیش لودھی کا کہنا ہے کہ علی گڑھ کے مسلم طلباء کے لئے مسجد تو ہے لیکن یہاں کے ہزاروں غیر مسلم طلبا کے لئے مندر نہیں ہے، جس سے ہندو طلباء کو پریشانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو میں مندر بننے سے ملک میں ہندو، مسلم ایکتا کی نئی مثال سامنے آئے گی۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ایودھیا سے لے کر اے ایم یو تک مندر بننے سے ہی ہندو مسلم ایکتا کی مثال ابھرے گی یا ہندوتو کی رگوں کو توانائی ملے گی؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی رپورٹ میں دے دیا ہے کہ الیکشن سے قبل ہندوستان کے اوپر فسادات کے مہیب بادل سایہ فگن ہیں، مگر اک امید ہے کہ یہ بادل ضرور چھٹ جائیں گے۔ بہر حال بقول فیض احمد فیض:

لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
ایک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close