Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ایمانی قوت کی ترجمان ’المنصوری مسجد‘

مسجدیں نہ صرف اسلام کے فروغ اور اشاعت دین میں اہم رول ادا کرتی ہیں بلکہ اسلامی تہذیب و معاشرہ کو بھی نئی سمت دیتی ہیں۔ مسجدیں اسلامی سلطنت کو وسعت دینے میں بھی ایک مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ مسجدوں کے منبر اسلامی معاشرت کو متحد کرنے اور اسلامی تشخص کے تحفظ کا ضامن ہوتے تھے، مگر آج کا المیہ یہ ہے کہ کہ منبر خاموش ہو گئے ہیں۔ منبر کی خاموشی اسلامی تہذیب و تمدن و معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کی ایک وجہ بھی ہے۔ مسجدیں جو کبھی اتحاد و اتفاق کا مرکز ہوا کرتی تھیں اب مسلک میں تبدیل ہو کر خود اپنوں میں ہی انتشار کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ صورت حال بر صغیر کی مسجدوں کا ہے لیکن امریکہ اور یوروپ کی مسجدیں ایمان و حرارت میں اضافہ ہونے کا سبب بنتی جا رہی ہیں۔ وہاں کی مسجدوں میں قرآنی تعلیمات، اسلامی پیغامات، مغرب کی نئی نسل پر زیادہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ لہذا، مشرق کی بہ نسبت مغرب میں مسجدوں کی تعمیر و تشکیل کا کام عروج پر ہے۔ ان مسجدوں کے ذریعہ نہ صرف ملت کے بچوں کی صحیح رہنمائی ہو رہی ہے بلکہ ملک کی ترقی کے لئے بھی کام ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یوروپ کی مسجدیں آج اپنی کارکردگی کے تعلق سے ہند ۔پاک کی مسجدوں کو درس دے رہی ہیں۔ بہر حال، اسلام کے فروغ میں مسجدوں کا تاریخی رول رہا ہے۔ آج بھی وہ تاریخی مسجدیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کیسے ان کے دامن سے نکلے اسلام کے جیالوں نے دنیا میں اپنی شناخت بنائی اور اسلام کا نام روشن کیا۔ قدیم مساجد اسلامی تاریخ کا ایک ایسا مظہر ہیں، جس کی ہر اینٹ میں اسلام سے محبت کی روشنی پھوٹتی ہے، انہیں دیکھ کر اسلامی حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج ہم ذکر کریں گے اس اولین مسجد کا جو اسلام کے ظہور میں آنے کے فوراً بعد تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد قباء کو نہ صرف دنیا کی اولین مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ اسلام کے ظہور میں آنے کے بعد یہ مسجد اسلامی تعمیرات کی امین بھی ہے۔ مسجد قباء میں جہاں اسلامی تشخص کا جمال نظر آتا ہے، وہیں تاریخ کی روایتی شان و شوکت بھی اس مسجد میں پنہاں ہے۔ اسی زمرہ میں تریپولی کی قدیم منصوری جامع مسجد بھی ہے، جس نے بارہویں صدی کی اسلامی شان و شوکت کا دور دیکھا ہے۔ مسجد کی تعمیر وتزئین اسلامی تعمیرات کی تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے۔ 1289 میں تریپولی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان قلاوون نے نئے شہر کو آباد کرنے کے فیصلے کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کرانے کا بھی فرمان جاری کیا تھا اور پھر اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اور ہر دور نے اس مسجد میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں کی جاتی رہیں لیکن یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی مسجد کی شان و شوکت باقی ہے اور اسلامی تاریخ کا جلوہ دکھا رہی ہے۔ زیر نظر مضمون منصوری مسجد کے تعلق سے ہمیں درس دیتا ہے کہ اسلامی سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ مسجدیں ہر دور میں اہمیت کی حامل رہی ہیں:

اسلام کے ظہور پذیر ہونے کے بعد مسجد قباء کو نہ صرف اولین مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ یہ اسلامی تاریخ میں اسلام کی منفرد تعمیرات کی امین بھی ہے۔ اس کے بعد پوری دنیا میں تعمیر ہونے والی مسجدوں میں اس کے اسلامی تشخص کا جمال نظر آتا ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کو تعمیر کرانے میں اکثر و بیشتر تاریخی ساخت اور روایتی ہیئت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن مسجدوں کی تعمیرات میں اسلام کے روایتی طرز کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی مسجدوں کی روایتی شان و شوکت آج بھی جلوہ افروز ہے۔ جدید طرز تعمیر کے تحت آج بھی جو مسجدیں تعمیر کرائی جا رہی ہیں، ان میں قدیم روایت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسلام کے آغاز سے ہی یہ روش شروع ہوگئی تھی، جو کہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

آج بھی قدیم مساجد کو دیکھ کر اسلامی حرارت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان سے اسلامی جذبہ اور ایمانی قوت کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اسی زمرہ میں تریپولی کی قدیم منصوری جامع مسجد آتی ہے۔ سلطان قلاوون کی فوج کے ذریعہ 1289 تریپولی کے ساحلی شہر پر فتح حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس جزیرہ کے جبل الحاج میں ایک نیا شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور شہر آباد کرنے کے ساتھ ہی سلطان نے وہاں پر ایک مسجد تعمیر کرانے کا فرمان بھی جاری کیا تھا۔ 1294 میں سلطان قلاوون کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ملک ال اشرف صلاح دین خلیل نے ایک قوسی چھتہ کے ساتھ اس مسجد کا شمالی صدر دروازہ تعمیر کرایا تھا اور اس کی بنیادیں مضبوط کرانے کے اقدامات کئے تھے تاکہ مستقبل میں انہیں زلزلہ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کا چھتہ روم کی طرز پر تعمیر کرایا گیا تھا، جس کی محرابوں میں اندرونی تزئین کاری کی گئی تھی، جن میں سے دو کو پیچ وخم دار ڈیزائن سے آراستہ کرکے موٹی دیواروں کے مستطیل ستونوں سے مربوط کر دیا گیا تھا۔ دیگر محرابوں کی تزئین کاری دوسادہ ابھری ہوئی پٹیوں سے کی گئی تھی جنہیں پتے نما سنگ تراشی والے بالائی پتلے ستونوں سے مربوط کیا گیا تھا۔ دروازہ کی اوپری چوکھٹ پر تین سطور کے کتبہ سے اس دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب سلطان قلاوون کے بیٹے خلیل نے 1294 (693 ہجری) میں اس مسجد کی بحالی کرائی تھی۔ ان سطور میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ ’’شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے ۔۔۔۔ہمارے انتہائی طاقتور سلطان، عرب کے شہزادوں اور سرحدی ایران کے فاتحین کے ماسٹر اور مشرقین کا قلع قمع کرنے والے سلطان کے فرمان کے تحت اس مبارک مسجد کی تعمیر کرائی گئی تھی۔‘‘ اس کے بعد سلطان کا نام اور ان کے خطابات کے ساتھ ساتھ اس وقت کے تریپولی کے گورنر کا نام تحریر کیا گیا تھا، جن کا نام عزالدین ایبک تھا۔ 1315 (715 ہجری) میں سلطان قلاوون کے چھوٹے بیٹے ملک الناصر جو کہ اپنے بھائی خلیل کے بعد گدی نشین ہوئے تھے، انہوں نے مسجد کے صحن کے اطراف میں محراب دار راستوں کا اس مسجد میں اضافہ کرایا تھا۔ اس مسجد کے منبر کی تعمیر 1326 (726 ہجری) میں تریپولی کے مملوک گورنر امیر قراطے نے کرائی تھی۔ ایک محراب کے اوپر طاق میں ماربل کی ایک تخطی نصب کی گئی تھی، جس سے اس بات کی جانکاری ملتی ہے کہ عبادت کی اس جگہ کی تزئین کاری 1478 (889ہجری) میں ایک دیگر گورنر امیر عزدے میر نے کرائی تھی۔ اسی وقت سے اس مسجد میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوتی رہی تھیں، اسی لئے ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یہ مملوک دور کی عمارت ہے۔

اس مسجد کا لومبارڈ ’’Lombard‘‘ ٹاور تین منزلہ ہے اور ہر طرف محراب دار کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ نچلی منزلوں کی مانند سب سے اوپری منزل کی شمالی اور جنوبی کھڑکیوں کی تعداد تین ہے جبکہ مشرقی اور مغرب کی جانب اسی سطح پر ڈبل کھڑکیاں ہیں اور نیچے کی جانب چاروں طرف نسبتاً کم سائز کی کھڑکیوں کے جوڑے ہیں۔ کھڑکیوں کے ایک جوڑے کے درمیان ایک ستون ہے جبکہ تین کھڑکیوں کے درمیان دو ستون ہیں، جوکہ روم کے ستونوں کی طرز پر تعمیر کرائے گئے تھے۔ مشرق کی جانب میں ایک دوسرا دروازہ ہے، جس کی زبردست گولائی دار محراب ہے، جسے دوہری پٹیوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ باہری پٹی کا ڈیزائن بہت شان دار اور دیدہ زیب ہے جبکہ اندرونی پٹی ایک رسی کی مانند ہے۔ ایک ڈھانچہ جاتی سپورٹ سے سردل (چوکھٹ) پر عربی میں ایک کتبہ نصب کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تریپولی کے گورنر امیر دجینم (Emir Djanim) نے گرانڈ چیمبرلین (Grand Chamberlain) کے دفتر میں افسران کو تحائف دیئے جانے کی رسم کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گرانڈ چیمبرلین کے دفتر میں قدیم روایت کے مطابق متنازع دعووں کے معاملات حل کرنے والے افسر کو مسالے، عطریات، شکر اور سرکہ (Vinegar) وغیرہ بطور تحائف پیش کئے جاتے تھے اور دیگر صوبوں میں بھی یہی روش اختیارکی جاتی تھی لیکن سلطان کے فرمان سے اس رسم کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ 8 جولائی 1503 (908ہجری) کو نافذ ہونے والے اس فرمان کی سطور کا اختتام اس عبارت کے ساتھ ہوا تھا کہ ’’تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں۔‘‘

اسی طرح سلطان الملک المؤید ابو نصر شیخ کا ایک کتبہ کھڑکی کے اوپر دیوار میں نصب کیا گیا تھا، جس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ سلطان نے اس دور میں غلط رسومات کو ختم کرنے کے لئے زبردست کام کیا تھا۔ تریپولی کی مسجدوں اور مدرسوں میں نصب کئے گئے کتبات سے نہ صرف عمارتیں تعمیر کرائے جانے کی تاریخوں کے بارے میں جانکاری ملتی ہے بلکہ عوامی زندگی اور سماجی مسائل کے تعلق سے بھی کسی حد تک معلومات فراہم ہو جاتی ہیں کہ مملوک دور میں معمولات زندگی کس نوعیت کے تھے۔ ان تمام ٹیکسوں، جن کا ذکر قرآن کریم اور حدیث پاک میں نہیں کیا گیا ہے ان کو ناانصافی سے تعبیر کیا گیا تھا۔ چنانچہ ان بدعنوان افسران پر حکومت کے فرمان سے قدغن لگایا گیا تھا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ ہر حال میں انصاف و عدل کو یقینی بنایا جائے۔ اس لئے فرمانوں میں جس عبارت کا استعمال کیا جاتا تھا، وہ قرآن کریم کے حکم اور حدیث پاک کے مطابق ہوتے تھے۔

منصوری جامع مسجد سے ملحق یا اس کے قرب و جوار میں مزید چھ مملوک اسلامی مدرسے یا مساجد قائم ہیں، جہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان کی تفسیر کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے دور کی بھی ایک قدیم مسجد یہاں پر واقع ہے، جسے مسجد معلق کہا جاتا ہے۔ یہ تریپولی کے بازار والی ایک اہم سڑک کے جنوب میں التینات فوارہ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ یہ مسجد ایک اونچی جگہ پر تعمیر کرائی گئی تھی، جس کا راستہ محراب دار بنایا گیا تھا۔ اس مسجد میں سیڑھیوں کے توسط سے رسائی کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے ’’مسجد معلق‘‘ (Hanging Mosque) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس مسجد کو جلیل القدر حضرت سلیمان کے دور اقتدار میں تریپولی کے اس وقت کے عثمانی گورنر محمود ابن لطفی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس مسجد میں کالے اور سفید پتھر کی پٹیوں سے دروازہ کو آراستہ کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس مسجد کی ہشت پہلو مینار میں پتھریلا کام کرایا گیا تھا۔ تاہم مینار کے نصف ڈھانچہ میں کالے پتھر کی دو پٹیوں کے علاوہ کوئی آرائش نہیں کرائی گئی تھی لیکن اوپری بالکونی، جس کی چھت ہشت پہلو ہے، اس کے اطراف میں پتھر میں کھدی ہوئی جالیاں نصب تھیں، جوکہ نہایت ہی دیدہ زیب ہیں۔ اوپری بالکونی کے نیچے دیگر محرابیں تعمیر کرائی گئی تھیں، جوکہ آٹھوں اطراف میں ہیں۔ اس مسجد کے بانی کا نام پتھر کے ایک بلاک پر کنندہ کیا گیا تھا اور ایک اندرونی راستے کی چوکھٹ کے اوپر اسے نصب کیا گیا تھا۔ اس کتبہ کی عبارت میں قرآنی آیت شامل ہے اور اس کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے کہ ’’یہ مبارک مسجد خلافت عثمانیہ کے دور میں تریپولی کے گورنر اور خادم السلام محمود ابن مرحوم لطفی نے تعمیر کرائی تھی۔ خداوند قدوس انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔‘‘ اس مسجد کی تعمیر (967 ہجری) 1660میں مکمل ہوئی تھی اور اس کے کتبہ میں جو عبارت تحریر کی گئی ہے، اس کے حروف آخری مملوکی دور کے حروف سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس دور میں ارباب اقتدار کی جانب سے قرآن و حدیث کی روشنی میں جو فرمان جاری کئے گئے تھے، ان میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں پوری دنیا میں جتنے بھی مقدس مقامات، مساجد، آثار قدیمہ کے تحت یادگاریں اور اسلامی تہذیب کے باقیات موجود ہیں، وہ تمام اسلامی تشخص اور تہذیب وتمدن کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسلام مذہب میں ان سب کی نہ صرف غیر معمولی اہمیت ہے بلکہ سیاحت کے نظریہ سے بھی یہ متعلقہ ملک کی اقتصادی ترقی میں معاون ہوتے ہیں۔ تریپولی کی منصورری جامع مسجد بھی تاریخی اعتبار سے اسی مخصوص زمرہ میں آتی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close