Khabar Mantra
محاسبہ

اس دور سیاست کا بس اتنا سا فسانہ ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

زمانہ الٹی چال چل رہا ہے، بھارت میں ہر سمت الٹی گنگا بہانے کے قواعد جاری ہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت اور تعلیم وتربیت تک نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں وندے ماترم، سڑکوں پر جے شری رام کی گونج ہے اور اسمبلی اور پارلیمنٹ میں پالا بدلنے کی سیاست نے آئین اور جمہوریت کو ہکاّ بکاّ کر دیا ہے۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ اسمبلیوں میں بھی اب مسلم ممبران اسمبلی کے ساتھ ہاتھا پائی ہو رہی ہے اور انہیں جے شری رام بولنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور نہیں بولنے پر ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ ایوان کی بے حرمتی کا عالم یہ ہے کہ جھارکھنڈ جہاں پر تبریز انصاری کی ماب لنچنگ ہوئی تھی، اسی ریاست کے ایک وزیر سی پی سنگھ نے مسلم ممبر اسمبلی عرفان انصاری کا ہاتھ پکڑ کر انہیں جے شری رام بولنے پر مجبور کیا، جب ایک ممبر اسمبلی کو نہیں بخشا جا رہا ہے تو سڑکوں پر چلنے والا ایک عام مسلمان جے شری رام کے نام پر تشدد سے کیسے بچ سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نفرت آج کی سیاست کی ضرورت بن گئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کا شکار ہر وہ شخص ہو رہا ہے، جو ملک کی جمہوریت، رواداری، تہذیب سنسکار اور آئین کا پیرو ہے۔ ملک کی 49 اہم شخصیات جس میں ہرطبقہ خیال کے لوگ شامل ہیں، انہوں نے وزیراعظم کو مکتوب لکھ کر ماب لنچنگ اور ملک کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، مگر یہ اپیل وزیراعظم تک پہنچی ہی تھی کہ اس کے مقابل دوسری ٹیم نے ان اہم شخصیات کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور ٹی وی چینل ان 49 اہم شخصیتوں کو مجرم ٹھہرانے میں پیش پیش ہیں۔

یہ سیاست کی الٹی گنگا ہی ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کے سینئر لیڈر یدی یورپا وزیراعلیٰ بن چکے ہیں، انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لئے 29 جولائی تک کی مہلت دی گئی ہے۔ مگر جس طرح کرناٹک میں جمہوریت کو ذبح کرکے حکومت سازی کی گئی ہے اور وہاں کے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا جو منظرنامہ ابھرا ہے، اس کے تناظر میں ایسا بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سرکار بھی قطعی مستحکم نہیں ہے، کب گر جائے کہا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ آج کی سیاست کی رگوں میں نہ اصول و روایت کی روانی ہے، نہ ہی سیاستدانوں میں ضمیر وخوداری بچی ہے، اقتدار کے حصول کے لئے آج کی سیاست کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ اگر پارٹی کے پاس پیسہ ہے تو وہ عوام سے لے کر ارکان پارلیمنٹ و اسمبلیوں کے ذہن بدلنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ اقتدار و دولت کے تناظرمیں ہر جمہوری عمل بے معنی ہے، ہر قانونی وآئینی داؤ پیچ بے بس ہے، ہر سیکولر قدم نئی سیاست کے آگے بے وقعت ہے۔ آج کا اقتدار و سیاست جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے۔

ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، شاید اسی فکر و احساس کے تحت اپوزیشن جماعتیں بھی فکر مند ہیں اور وہ اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہیں، ان کی نظر میں ای وی ایم، الیکشن کمیشن، آئینی اداروں سے لیکر مقامی ایڈمسٹریشن تک سبھی کسی نہ کسی حد تک حکومت وقت اور موجودہ سیاست کے مرید خاص ہو چکے ہیں اور میڈیا تو بہت پہلے ہی اقتدار و سیاست کا منظور نظر بن چکا ہے۔ اسی فکر و تشویش کے تناظر میں مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے یوپی اے کی چیئرپرسن سونیاگاندھی سے ان کی رہائش گاہ 10 جن پتھ پر خصوصی ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں راج ٹھاکرے نے ای وی ایم کی معتبریت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا اور ان سے ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لئے آگے آنے کے لئے اپیل کی تھی۔

بلاشبہ کیونکہ راج ٹھاکرے کی تشویش میں دم ہے کہ اب ملک میں الیکشن لڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے، جہاں جیت پہلے ہی سے طے ہو چکی ہو۔ لہذا کیوں نہ اب بیلٹ پیپر سے الیکشن کرانے کی تحریک شروع کی جائے اور ای وی ایم سے الیکشن کا پوری طرح سے بائیکاٹ کیا جائے۔ مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، اگر راج ٹھاکرے کے مشورے پر اپوزیشن ای وی ایم سے الیکشن کا بائیکاٹ کرتا ہے تو یہ بائیکاٹ ملک کے لئے مثال بن سکتا ہے اور سیاست میں نئی تبدیلی آسکتی ہے۔ ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں کے لئے اب کرو یا مرو کا دور ہے۔ آج ای وی ایم ہی جمہوریت کی قاتل نہیں، بلکہ جیت کر آئے ہوئے ارکان بھی جمہوریت کے لئے سوال بن رہے ہیں، کب وہ بک جائیں، کب وہ دوسری پارٹی کا دامن تھام لیں کچھ کہا نہیں جا سکتا؟ عوام نے آپ کو جس پارٹی پر ووٹ دیا اور آپ چند ہی ماہ میں دوسری جماعت کے رکن بن گئے تو یہ خود صریحاً اینٹی دیفیکش لاء کی خلاف ورزی ہے، مگر یہ دور تو خود جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا پیرو ہے اور پھر زمانہ تو چڑھتے سورج کو سلام کرتا ہے، بھلے ہی سورج ای وی ایم کی بدولت روشن ہوا ہو۔

ای وی ایم پر سونیا گاندھی سے ملاقات سے قبل راج ٹھاکرے نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ ای وی ایم پر کئی طرح کے سوال کھڑے ہو چکے ہیں، ایسے میں انتخابی عمل میں معتبریت اور شفافیت لانے کے لئے ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر سے الیکشن کرائے جائیں۔ مہاراشٹر میں چناؤ سے قبل راج ٹھاکرے کی سونیا گاندھی سے ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ای وی ایم کے ایشو پر کانگریس اور این سی پی راج ٹھاکرے سے متفق ہو جائیں اور الیکشن بیلٹ پیپر سے لڑنے پر دباؤ بنایا جائے تو مہاراشٹر میں ای وی ایم سے نجات مل سکتی ہے اور اس کے بعد ملک میں ایک نئے دورکا آغاز ہو سکتا ہے۔ جمہوری اقدارکے قدموں میں پڑی زنجیریں کھل سکتی ہیں۔ جے شری رام کے ذریعہ تشدد کرنے والوں پر لگام لگ سکتی ہے۔ گوا سے لے کر کرناٹک تک سرکاریں گرانے اور بنانے کا جو غیر جمہوری کھیل ہو رہا ہے، اسمبلی سے پارلیمنٹ تک بار بار پالا بدلنے والوں کو جو حوصلہ مل رہا ہے، اس حوصلے کی ہوا نکل سکتی ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا ای وی ایم کے سوال پر اپوزیشن جماعتیں الیکشن نہ لڑنے کا حوصلہ دکھا سکتی ہیں؟ اگر ساری جماعتوں نے بائیکاٹ کی یہ حکمت عملی اختیار کی تو یقینا ملک کے جمہوری اقدار، سیکولر اقدار اور تہذیب وسنسکار کی رگوں میں نئی توانائی آسکتی ہے، پرانے دن لوٹ سکتے ہیں، اچھے دنوں کے انتظار کی چبھن سے آنکھوں کو نجات مل سکتی ہے، بقول شاعر:

اس دور سیاست کا بس اتنا سا فسانہ ہے
بستی بھی جلانی ہے، ماتم بھی منانا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close