Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلامی وراثت کا گہوارہ- ترکی

ترکی اسلامی تاریخ اور جدید تہذیب کی خوشبو لیے ہوئے آج دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں ترکی کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک دور تھا کہ ترکی سے اسلامی حکومت کی کمان سنبھالی جاتی تھی اور آج بھی ترکی کی سیاسی واقتصادی حکمت عملی کی مثال دی جاتی ہے۔گوکہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے، لیکن وہاں اسلامی تشخص اور تمدن کے بھی جلوے نمایاں ہیں۔ جدید تہذیب کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوشبو نے اس ملک کو دوسرے ممالک سے منفرد بنا دیا ہے۔ ترکی کے ہر شہر میں اسلامی طرز تعمیر کے جلوے ملتے ہیں۔ یہ سلاطین، سلجوق اور عثمانی دور حکومت کی نشانیاں ہیں۔ آج بھی استنبول اپنی تاریخی اور اسلامی وراثت کا عظیم گواہ ہے۔ یہاں کے ہر شہر میں مسجدوں کی بہتات ہے۔ طرز تعمیر کے حساب سے استنبول ودیگر خطے کی مساجد اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ عثمانی طرز تعمیر کی کئی عمارتیں تو آج فن تعمیر کا ایسا نمونہ ہیں جس پر آرکیٹکٹ کی دنیا حیران ہے۔ زیر نظر مضمون میں استنبول میں اسلامی فن وثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں کی مسجدوں کی طرز تعمیر کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مضمون جہاں استنبول میں مساجد کی انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے، وہیں استنبول کے تاریخی پہلوؤں سے بھی روشناس کراتا ہے:

ترکی کو دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے، جدید فکر اور اسلامی تشخص کی چاشنی میں ترکی کی تہذیب دنیائے اسلام کے لیے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے تو یوروپین ملکوں کے لیے بھی ترکی کا فکر ونظر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔عالمی سیاست میں ترکی جہاں اپنی حیثیت منواتا رہا ہے، وہیں اسلام کی خدمات کے میدان میں بھی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ ترکی کا دورہ کرنے والے سیاح اکثر وہاں کی مساجد کی اونچی میناروں سے آنے والی اذان کی صداؤں سے مسحور ہو جاتے ہیں۔ یہ صدائے اذان روزانہ پانچ مرتبہ دی جاتی ہیں۔ اذان مسلمانوں کو کعبہ کی سمت رخ کرکے نماز کے لیے مدعو کرتی ہے۔ اسلام ترکی کا بنیادی مذہب ہے، کہا جاتا ہے کہ ترکی میں اسلام کا ظہور 10ویں صدی میں ہوا۔

سلجوق اور عثمانی ترکوں نے اسلامی ثقافت اور تاریخ کو منور کرنے کے لیے جو کارنامے انجام دیے اس پر دنیائے اسلام کو ناز ہے ۔سلجوق اور عثمانی ترکوں نے اس ملک میں شاندار عمارتوں کی تزئین کاری اور گنبدوں ومیناروں والی مساجد کی تعمیر کرائی، یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ترکی کے ہر شہر میں کم از کم ایک تاریخی مسجد ضرور واقع ہے، جو اس ملک کی اسلامی تاریخ کی عظمت کی گواہ بھی ہے۔ ماڈرن ترکی پر مبنی اس خطے میں طویل اور شاندار اسلامی روایات کے نظارے ہر سمت دکھائی دیتے ہیں، جو سلجوق سے عثمانی سلطنت تک رہی، یہ نظارے حکومتوں کی اسلامی خدمات کو روشن کررہے ہیں۔اس ملک میں بہت سی تاریخی مساجد ہیں ، جو کہ استنبول سمیت دیگر شہروں اور قصبات میں واقع ہیں،جیسا کہ میں نے کہا کہ ترکی کے عوام کا اصل مذہب اسلام ہے۔ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق 99.8 فیصد لوگ مسلمان ہیں، لیکن وہ ماڈرن تہذیب سے وابستہ ہیں، جب کہ مذہبی اعداد وشمار کے مطابق یہاں 84.2 فیصد مسلم آبادی ہے۔ ترکی کے زیادہ تر مسلمان سنی مسلک کے ہیں، جن کی تعداد 70سے 80 فیصد ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے آخری برسوں کے دوران ترکی کے معاشرے میں سیکولرزم کی ابتدا ہوئی تھی، جو کہ عطا ترک کی اصلاحات میں نہایت اہم لیکن متنازع قدم تھا، حالانکہ سرکاری سطح پر ترکی آج سیکولر ملک ہے، لیکن یہاں کے نظام میں مذہب ایک مضبوط اور مقبول ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی اسلامی فنون سے مرصع ملک ہے، جس میں استنبول اس کا زبردست خزینہ ہے۔ استنبول کو عجیب وغریب انداز میں بسایا گیا۔ یہ تاریخی شہر 633 قبل مسیح قدیم دور کا ہے، جب Magara کے (Doric) تارکین وطن نے یہاں چھوٹی سی تجارتی کالونی بنائی تھی، جو Byzantion کے نام سے معروف ہوئی تھی، جس مقام پر یہ نیا قصبہ بسایا گیا تھا وہ ایک جزیرہ نما تھا جس کے تین راستے تھے۔ رسمی طور پر Polic کی تشکیل کیے جانے کے بعد اس شہر کی فصیل تیار کی گئی تھی۔ یہ فصیل پانچ کلو میٹر طویل تھی، سیکورٹی کے اعتبار سے اس پر 27 ٹاور تیار کیے گئے تھے۔ دیواروں کے درمیان ایک خلیج بنائی گئی تھی، جسے گڑھی کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ چنانچہ شہر کی دائمی سات پہاڑیوں کے درمیان قائم ہونے والا یہ اولین شہر تھا۔ صدیوں پر محیط یہاں بے شمار محلات تعمیر کرائے گئے تھے، جن میں سے کچھ منہدم ہوگئے، کچھ ویران ہوئے اور کچھ کی تعمیر نو ہوئی۔ ان محلات کا زیادہ تر رخ بحیرۂ مرمرہ کی جانب تھا۔

شہر کے قیام کے تقریباً 2,145 سال کے بعد ایک نوجوان عثمانی سلطان نے 23 سال کی عمر میں اس شہر کو فتح کیا۔ محمد دوم جسے اس شہر کو فتح کرنے پر فاتح کے خطاب سے نوازا گیا، اس نے اس کو اپنی راجدھانی قرار دیا۔ جب سلطان محمد نے اس شہر کو فتح کیا تھا اس وقت یہ 40 ہزار نفوس پر مشتمل تھا اور غربت کا شکار تھا، جہاں پر لوگ ویران علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ محمد نے اپنے محل کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ ایک ایسی پہاڑی تھی جو کہ نہ صرف زیتون کے درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، بلکہ وہاں پر بہت سارے ویران کلیسا، مٹھ اور حمام بھی تھے۔ سمندر کے کنارے ایک چھوٹا سا رہائشی خطہ بھی تھا، محل کی تعمیر ایک غیر معمولی اسکیم کے آغاز کا شاندار حصہ تھا، جوکہ عثمانی ثقافت اور انتظامیہ کی تاریخ کا اہم عنصر ہی نہیں بلکہ ایک روشن شاہد بھی بن گیا تھا۔ شاہی رہائشی مقامات کے علاوہ یہاں نیا ٹوپکاچی محل تعمیر کرایا گیا، جوکہ منصوبہ بندی اور دور دراز کی سلطنتوں کے ساتھ رابطہ رکھنے اور حکمت عملی تیار کرنے کا مرکز بھی تھا۔ یہ سلسلہ پندرہویں صدی کے اوسط سے لے کر 19ویں صدی تک جاری رہا، جیسا کہ کچھ یوروپی سیاحوں کا کہناہے کہ بے ضابطہ عدم موزونیت، غیر محوری اور غیر مستقل تناسب کی وجہ سے ٹوپکاچی محل لازمی طور پر یوروپی محلات سے بالکل مختلف تھا۔ حالانکہ وہ نقشہ اور وضع قطع کے تعلق سے کافی معلومات رکھتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ مشرقییا اسلامی محلات سے مختلف تھے، تاہم مکانیت کے اعتبار سے اس میں اسلامی طرز تعمیر کا خیال رکھا گیا تھا۔

درحقیقت ٹوپکاچی سرزمین پر ایک بہشت کی طرح تھا، جسے محل مسرت بھی کہا جاتا تھا، محل مسرت کی اصطلاح عثمانیہ سلطنت کی علم المصطلحات سے لی گئی تھی۔ استنبول میں سیاحت کے لائق کئی معروف مقامات ہیں، جن میں سے ایک وسیع وعریض ٹوپکاچی کا محل بھی ہے۔ اس محل کی تعمیر 1466 سے لے کر 1478 کے درمیان ہوئی۔ سلطان محمد دوم نے اس محل کی تعمیر ایک چھوٹی سی جزیرہ نما پہاڑی پر کرائی تھی، جس کے شمال میں Golden Horn جنوب میں بحیرۂ مرمرہ، شمال مشرق میں Bosphoras Strait واقع تھے۔ اس جگہ سے ایشیا کا دلکش منظر بھی نظر آتا تھا۔ یہ محل 15 ویں اور 19 ویں صدی کے درمیان عثمانیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی مرکز تھا اور یہ مرکز اس وقت تک مستحکم رہا جب تک ساحل کے نزدیک Dolmabaahe محل کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ ابتدائی دور میں اس محل میں 700 سے لے کر 800 افراد تک رہائش پذیر تھے، لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد اقامت گاہوں میں اضافہ ہونے لگا اور ڈرامائی طور پر اس محل میں رہنے والوں کی تعداد 5000 تک پہنچ گئی۔ تہواروں کے موقع پر تو یہ تعداد 10,000 تک پہنچ جاتی تھی، ان لوگوں کی آبادی میں اکثریت Jamissaries کی ہوا کرتی تھی، جوکہ محل کے اولین صحن میں مقیم تھے۔ سلطان محمد دوم کا یہ محل دنیا کا سب سے بڑا محل بن گیا تھا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شہر کے اندر ایک اور شہر آباد تھا۔ اس محل کا محاصرہ کرنے والی دیواریں پانچ کلو میٹر طویل تھیں۔ یوم تاسیس کی تقریب منانے کے لیے اس محل میں 700,000 مربع میٹر کا رقبہ موجود تھا، جوکہ موجودہ وقت میں 800,000 مربع میٹر کا رقبہ ہو چکا ہے۔

ٹوپکاچی پر حکومت کرنے کے 400 برسوں کے دوران ایک سلطان نے محل میں مختلف حصوں میں نئی تعمیر بھی کرائی تھی۔ وقت کی ضرورت اور دلچسپی کے مطابق یہ کام ہوتا تھا۔ مختلف دروازوں کے ذریعہ سیکورٹی کو مستحکم کیا گیا تھا۔ صحنوں کے سلسلے کی وجہ سے یہ محل میں عمارتوں کا ایک بھول بھلیاں بھی نظر آتا ہے۔ طرز تعمیر کے اعتبار سے محل کی ساخت مشرق وسطیٰ کے طرز تعمیر پر منحصر ہے۔ اس کی ابتدائی تعمیر CiniliMansin کے طرز پر کی گئی تھی، جوکہ ٹائلوں والے کیوسک (Kiosk) کے طور پر 1472 میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ صدر دروازہ جوکہ شاہی دروازہ تھا اور باب ہمایوں کے نام سے معروف ہے۔ وہ سلطان محمد اسکوائر کے سامنے ہے اور Hagia Sophia Church وہ محل کی فصیل جوکہ دوسرے دروازے جو باب السلام کہلاتے تھے، جن کی تعمیر 1478 میں ہوئی تھی۔ محل کے نہایت اہم حصے تھے، لیکن خاص طور پر خزانہ وغیرہ والے حصوں کو محل سے الگ علیٰحدہ کر دیا گیا تھا۔

1924 میں کمال اتاترک کے حکم سے اس محل کو میوزیم بنایا گیا اور قوم کے نام وقف کر دیاگیا۔ ٹوپکاچی محل کے بہت سے حصے ایسے ہیں جو آج بھی ہمیں حیرت زدہ کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب نمائش کے ہال ہیں، لیکن ان میں کسی بھی قسم کا فرنیچر نہیں رکھا گیا ہے۔ نمائش کے کچھ ہالوں کو بند کر دیا گیا ہے، اس کے باوجود یہاں دیکھنے کے لیے بہت سے مقامات ہیں، جو اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کو لے کر سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ پورے طور پر انہیں دیکھنے کے لیے نصف دن لگ سکتا ہے۔ آج کا ٹوپکاچی محل محض ایک میوزیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر چہ اس محل کا ایک چھوٹا سا حصہ آج بھی اپنی پرانی حالت میں ہے۔ تاہم یہاں کے ماحولیات اور رکھ رکھاؤ کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ اس محل کے ایک صحن میں قدیم باقیات محفوظ ہیں، جہاں پر پرانی اسلامی چیزیں میوزیم کا حصہ ہیں، جن میں چوبے نقش پا، تلواریں، سنگ اسود کے فریم جو کعبہ شریف سے منگائے گئے تھے، اس کے علاوہ خانہ کعبہ کا قفل، خانہ کعبہ کی چھت سے پانی نکالنے کے پائپ وغیرہ شامل ہیں۔

اسنتبول کی بڑی مساجد:

Sultanahamet یا نیلی مسجد:
Haghia Sophia کے مقابل واقع 17 ویں صدی کی یہ مسجد اپنے اندرونی دیواروں پر نیلے رنگ کے ٹائلوں سے مرصع ہونے پر خوبصورتی کا انوکھا جلوہ دکھاتی ہے۔ اس میں 6 خوبصورت میناریں ہیں، جن کی وجہ سے دیگر مسجدوں میں یہ مسجد مختلف نظر آتی ہے، کیونکہ عام طور پر مسجدوں میں دو یا چار میناریں ہوتی ہیں۔ یہ مسجد سلطان احمد اول کے حکم سے 1609 اور 1616 کے درمیان 7 برسوں میں تعمیر کی گئی تھی۔ فن تعمیر کے ماہر محمد آغا نے اس مسجد کا نقشہ تیار کیا تھا، چنانچہ اس مسجد کو شہر کی اہم ترین مسجد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ استنبول میں Sultanahame Mosque عثمانی طرز تعمیر کی نہایت دلکش مسجد ہے۔ یہ عمارت نیلی مسجد کے نام سے بھی منسوب ہے، کیونکہ اس کے اندر نیلے ٹائلوں سے شاندار تزئین کاری کی گئی ہے۔

سلیمانیہ مسجد:
سلیمانیہ مسجد Suleymaniyeh Mosque اسنتبول کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ عثمانیہ عہد میں شاہ سلیمان نے 1550 اور 1557 کے درمیان اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ چار میناروں والی یہ عثمانیہ مسجد عثمانیہ عہد کی ایک تاریخی مسجد ہے، جوکہ استنبول کی تاریخی پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ استنبول میں خوبصورت نظارہ کی ترجمانی کرتی ہے۔ طرز تعمیر کا یہ غیر معمولی نمونہ 16 ویں صدی میں سلطان سلیمان کی خواہش پر عثمانی فن تعمیر کے ماہر Mimar Sian نے اس کا نقشہ بنایا۔ یہ مسجد Golden Horn کے اوپر قدیم شہر کی پہاڑی چوٹی پر واقع خوبصورتی کا دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ اسی مسجد کے احاطہ میں سلطان اور ان کی بیگمات،حرم اور Mimar Sian کے مقبرے بھی ہیں۔

سلیمانیہ مسجد کی تزئین کاری کے لیے اسے 2008 میں بند کیا گیا تھا اور 2010 نومبر میں اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ Dolmabahce Mosque یہ مسجد Dolmabahce Palace کے جنوبی حصہ میں بوسفورس میں واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر سلطان Abdulmecid کی والدہ Bezmialem کے فرمان سے کرائی گئی تھی، لیکن جب ان کا انتقال ہوگیا تو سلطان نے اس ادھورے کام کی تکیل کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس مسجد کی تعمیر کا نقشہ ماہر تعمیرات کرابت بالیان تھے۔ یہ مسجد 1855 میں پایہ تکمیل تک پہنچی، یہ باروک طرز تعمیر کی ایک دلکش ترین مسجدوں میں سے ایک ہے۔ محل کا ایک حصہ ہونے کے ناطے اس مسجد کے اگلے حصہ میں سرکاری افسران نماز ادا کرتے تھے اور دومنزلہ حصہ سلطان کے عوامی جلوس کے لیے مختص تھا۔ جب وہ اس مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آتے تھے، یہاں گھماؤ دار کھڑکیاں بھی ہیں جن کی مشابہت مور کے پنکھوں کی طرح ہے۔ ایسی کھڑکیاں مسجدوں کی طرز تعمیر میں کم دکھائی دیتی ہیں، مسجد کے دونوں میناروں میں گیلریاں بنائی گئی ہیں اور داخلی دروازے کی باروک اور شاہی انداز میں تزئین کاری کی گئی ہے، یہاں ایک قیمتی فانوس بھی محراب سے منسلک ہے۔ اس مسجد کے محراب اور منبر دونوں ہی پورفری ماربل سے تیار کیے گئے ہیں۔

یوپ سلطان مسجد:
یہ مسجد اس کونے سے باہر واقع ہے، جہاں پر زمینی دیواریں گولڈ ہارن کی دیواروں سے ملتی ہیں۔ بنیادی مسجد ایک زلزلے میں منہدم ہوگئی تھی۔ اس وقت جو مسجد موجود ہے وہ اس کی جگہ پر 1800 میں تعمیر کی گئی تھی۔ محمد سلطان کے جانشیں جب اپنی تاج پوشی کی رسم پوری کر لیتے تھے تو شمشیر بکف تقریبات کے دوران یوپ سلطان مسجد میں حاضری دیتے تھے نماز نفل ادا کرتے تھے۔ اسی مسجد کے احاطہ اور اطراف کی پہاڑیوں پر قبرستان واقع ہیں۔ دیگر شہروں میں بھی متاثر کرنے والی اسلامی عمارتیں موجود ہیں۔ 20 گنبد والی الوکیمی اور یسل کیمی سبز مسجد جو برسا میں واقع ہیں ان کی تعمیر 1420 اور 1419کے درمیان ہوئی۔ اس مسجد کا نام سبز رنگ کے دلکش ٹائلوں کی وجہ سے منسوب کیا گیا تھا۔ انقرہ میں واقع ہیسی بیرم کی مسجد کی تعمیر بھی ابتدائی 15ویں صدی دور سلجوق کی طرز پر کی گئی، جس کی تجدید ماہر فن تعمیر سینان نے 16 ویں صدی میں کی تھی۔ کونیا ترکی میں زبردست ثقافتی مراکز میں سے ایک اہم مرکز ہے، جو 12ویں صدی سے لے کر 13ویں صدی تک سلجوق ترکی کے راجدھانی ہونے کے ناطے ثقافتی، سیاسی اور مذہبی ترقی کے عروج پر تھا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close