Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلامی فن پاروں اور نوادرات کی عظمت

اسلامی تاریخ دنیا کے لئے ایک مشعل راہ ہی نہیں، بلکہ ناقابل فہم جد وجہد کی مثال بھی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دانشور ہمیشہ اس پر غور کرتے رہے ہیں کہ محض چند سو برسوں میں اسلام کی روشنی کیسے دنیا کے ہر خطہ میں پہنچ گئی۔ دنیا کے جانے مانے دانشوروں نے تسلیم کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جو تمام مذاہب سے الگ اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے پیغامات نہ صرف انسانیت کا درس دیتے ہیں، بلکہ دنیا کو مسخر کرنے کا گُر بھی بتاتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کا کردار و سیرت بھی اسلام کے فروغ کا بڑا حصہ ہے۔ بڑے بڑے غیر مسلم دانشور بھی حضور اکرم ؐ کی سیرت و کردار کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آج کے نئے زمانے میں جبکہ مواصلاتی تکنیک اور انسانی سوچ عروج کمال پر ہے تو اس دَور میں اسلامی فن پاروں کے لفظ لفظ کو پرکھا جا رہا ہے اور ان کو نچوڑ کر علم کی نئی راہیں متعین کی جا رہی ہیں، خاص کر قرآن کریم کو سمجھنے میں مسلمان جتنے آگے نہیں ہیں، اس سے کہیں زیادہ آگے غیر مسلم ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے ایسے راز نِہاں ہیں جس پر سائنس بھی حیران ہے اور بڑے بڑے عالِم بھی حیرت زدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم پر تحقیق در تحقیق کا سلسلہ دراز ہے۔ یوروپین ممالک خاص کر امریکہ میں قرآن پر جتنا کام چل رہا ہے اتنا کسی اور ملک میں نہیں ہو رہا ہے۔ قرآن کی عظمت و رفعت کی اس سے بڑی اور مثال کیا ہوگی کہ وہاں قرآن کو سمجھ کر، پڑھ کر مسلمان ہونے والے لوگوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ معروف زمانہ پیو (PIO) کے جائزے کے مطابق بہت جلد وہ دَور آنے والا ہے جب یوروپ کا ہر چوتھا آدمی مسلمان ہو گا۔ اسلامی پیغامات اور اسلامی نوادرات، اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرہ سب کے اندر ایک روحانی منظر نامہ ہے، جو اپنی تہذیب سے اکتائی ہوئی نسل کو سکون بخش رہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسلامی نوادرات اور اسلامی فن پاروں خاص کر قرآن کریم کے حد سے زیادہ مقبول ہونے کے عوامل پر بحث کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ اور اس سے متعلق اشیا آج دنیا کے لئے اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اسلامی نوادرات اور فن پاروں سے بڑھتی دلچسپی اور اس کی حصولیابی کے لئے خطیر رقم خرچ کرنا بھی حیرت کی بات ہے لیکن یہ اسلامی فن پاروں کی اپنی انفرادی اہمیت ہے کہ انہیں دنیا میں عظمت ورفعت حاصل ہو رہی ہے۔

جب 18 سال قبل لندن میں واقع سوتھبیز (Sotheby’s) میں اکتوبر ماہ میں اسلامی فن پاروں اور نوادرات کی نیلامی کی گئی تھی تو اس کی سیل (Sale) ایک ہفتہ میں 18.3ملین پائونڈ سے بڑھ کر ایک اندازے کے مطابق 25.3 ملین پائونڈ (40.3 ملین ڈالر) ہوگئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں اضافہ ہونے کی وجہ سے صرف غیر ممالک جیسے چین کے فن پاروں کی ہی اہمیت نہیں ہے، بلکہ عالمی اقتصادی بحران کے باوجود بھی اسلامی ممالک کے فن پاروں اور نوادارات کو فوقیت حاصل ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان قیمتی نوادارت کی نیلامی مشترکہ طور پربولی لگانے کے توسط سے کی گئی تھی اور بولی کے ذریعہ قیمت کی شرح محض 64فیصد تھی۔ اسلامی دنیا کے فن پاروں (Art of the Islamic World) نے اس نیلامی میں اپنا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔

378 کے لاٹ کی سیل میں ایک نادر نصیری خنجر بھی شامل تھا، جو کہ کان (Ear) کی مانند تھا۔ اسے کان نما خنجر ہونے کا نام اس لئے دیا گیا تھا کیونکہ اسے پکڑنے کی مٹھی کان جیسی نظر آتی تھی۔ ہسپانوی (Spain) ساخت کے 15ویں صدی کے ایک نائب ٹیلی فون جس کی بولی 6مرتبہ 600000 پائونڈ کی لگائی گئی تھی۔ وہ 3.7 ملین پائونڈ (5.9ملین ڈالر) میں نیلام ہوا تھا۔ دیگر جو نوادرات نیلام کئے گئے تھے، ان میں وسطی ایران کے دوسری نصف 16ویں صدی کا ایک صفوی ’کارلسروہی‘ (Karlsruhe) قالین تھا، جو کہ 1.2ملین پائونڈ (1.8 ملین ڈالر) میں فروخت کیا گیا تھا۔ 16ویں صدی کے دیگر حیرت انگیز صفوی دور کی سلفجی اور دیگر برتن تھے، جن پرفارسی زبان کے معروف شاعر شیخ سعدی اور حافظ کے صوفیانہ اشعار یا تو نقش کئے گئے تھے یا پھر وہ ان پر کُنندہ تھے۔ ان کی بولی ایک ملین پائونڈ (1.6ملین ڈالر) لگائی گئی تھی، جوکہ پچھلی مرتبہ کے 300000پائونڈ کے مقابلے تین گنا تھی۔

ایک ہفتہ کی سلسلہ وار اولین سیل (Sale) میں ایک ’’شاہی کلکشن‘‘ بھی رکھا گیا تھا، جو کہ اسلامی دنیا میں بیش قیمت خزینہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے تعلق سے کسی بھی قسم کی ٹال مٹول نہیں کی گئی تھی اور ان کے کم از کم تخمینہ کے مقابلے دوگنی قیمت یعنی 3.4 ملین پائونڈ میں نیلام کیا گیا تھا، لیکن جب ایک ساتھ 112سامان نیلام کئے گئے تھے تو ان سے 7 ملین پائونڈ (11 ملین ڈالر) موصول ہوئے تھے جو کہ لاٹ کے حساب سے پورے سیل کی شرح میں تقریباً 96فیصد پر تھے۔ اس فروختگی (Sale) میں اس وقت غیر معمولی طور پر تیزی آگئی تھی، جب ٹیونیشیا میں واقع قیراون جامع مسجد کی طرز پر 19ویں صدی میں عثمانیہ دور کے مٹی کے چمک دار پیالے کو پتوں کے ڈیزائن سے آراستہ کیا گیا تھا، وہ بھی نیلامی میں رکھا گیا تھا۔بولی لگانے والے بہت سے افراد اس کے لئے کوشاں تھے اور ایک دوسرے سے سبقت لینے کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ آخر کار ٹیلی فون کی بولی لگانے والے ایک گمنام شخص نے اسے 713.250 پائونڈ (1.1 ملین ڈالر) میں خرید لیا تھا، جوکہ اس کی تخمینہ قیمت 300000 پائونڈ سے تقریباً دوگنی قیمت میں فروخت کیا گیا تھا۔

اس سیل میں قرون وسطیٰ کی عبارات نے بھی بولی لگانے والے افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا اور زیادہ تر لوگ انہیں خریدنے کے متمنی تھے۔ نیلامی کے لئے یہاں پر فارسی میں خطاطی کے نہایت شان دار فن پارے رکھے گئے تھے، جن کی نیلامی بھی وسیع پیمانہ پر کی گئی تھی، جو کہ کم از کم 200000 پائونڈ کے تخمینہ سے تین گنا 601.250پائونڈ (â955.470 ڈالر) میں فروخت کئے گئے تھے۔ دیگر نایاب اور دلکش چیزوں میں 16ویں صدی ایران کا مقدس قرآن کریم کا ایک بے مثال نسخہ بھی شامل تھا، جس نے یکایک لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی تھی جوکہ یک ورقی قرآن کریم کے نسخہ کے طور پر معروف تھا۔ اس قرآن کریم کے اوراق نیلے رنگ سے ڈائی (Dye)کئے ہوئے چرمی کاغذات پر مبنی تھے، جن پر نہایت شان دار طریقہ سے طلائی حروف میں کوفی خطاطی کی گئی تھی۔ اس قرآن کریم کو 9ویں یا 10ویں صدی سے منسوب کیا گیا تھا۔ نیلامی کے دوران اس سے 529.250پائونڈ (â841.052 ڈالر) کا ہدیہ موصول ہو اتھا، جو کہ کم از کم تخمینہ 200000 پائونڈ سے تقریباً دوگنا تھا۔

’Sotheby’s Middle East Department‘ کے سربراہ ایڈورڈگبس (Edward Gibbs) کا کہنا تھا کہ ’’اس قرآن کریم میں طلائی اور نیلے رنگ کا تضاد (Contrast) نہایت ہی شان دار طریقہ سے کیا گیاتھا۔ نیلے رنگ کے چرمی اوراق پر طلائی حروف میں آیات تحریر کئے جانے کی وجہ سے ہی یہ قرآن کریم ’بلیو قرآن‘ (Blue Quran) کے طور پر معروف ہو گیا تھا ‘‘، جو کہ 9ویں صدی یا 10ویں صدی میں شمالی افریقہ یا پھر اس کے نزدیک ترین مشرقی ملک میں تیار کیا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے فن پاروں کی جانب بولی لگانے والے زیادہ تر دولت مند افراد متوجہ ہوئے تھے تاکہ وہ ایسے قدیم ورثہ کو دوبارہ حاصل کر لیں۔ بالکل اسی طرح روس کے ٹائیکون (Tycoon) ان نوادرات کی جانب متوجہ ہوئے تھے جوکہ برسوں قدیم ان کے ملک میں تیار ہوئی تھیں۔ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ایڈورڈ گبس نے بتایا تھا کہ ’’ان غیر معمولی نتائج سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس شعبہ میں عالمی فن پاروں کے منظر نامہ میں زبردست دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘ اسلامک آرٹ (Islamic Art) کے ڈائرکٹر ولیم روبنسن نے کہا تھا کہ ’’عالمی ریکارڈ بنانے کے لئے تمام چیزوں کو ایک ساتھ لانا ہوتا ہے۔ غیر معمولی، نایاب ترین اور نہایت خوب صورت چیزیں جو کہ بہترین حالت میں ہوں انہیں یہاں پر ایک ساتھ رکھا جاتا ہے۔‘‘

سوتھبیز (Sotheby’s) کے ڈپارٹمنٹ میں اس سال اپریل میں سب سے اونچی بولی 16ویں صدی کے ترکی ساخت کے ہاتھی دانت کے ایک بکس، جس میں فیروزہ اور روبی جواہرات جڑے ہوئے تھے، اس کی فروخت 2.39 ملین پائونڈ میں ہوئی تھی جبکہ فروخت کرنے سے قبل اس کی تخمینہ قیمت 500000 پائونڈ سے 700000 پائونڈ کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس تعلق سے روبنسن کا کہنا تھا کہ اسلامی مارکیٹ میں جہاں پر زبردست اور بیش قمیت نوادرات کو رکھا گیا ہو، وہاں پر سیل (Sale) سے قبل اس کی قیمت کے بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہر کیف وہاں پر خطاطی کے دستاویزات، اسلحہ اور زرہ بکتر جیسے نوادرات کا ذخیرہ تھا اور ان کی مانگ بھی زبردست تھی، جن کا تعلق دور عثمانیہ سے تھا۔ اس بات کا انکشاف معروف ترین (Bonhams) (لندن کا عالمی قدیم نیلام گھر) کے ایک ماہر کرسٹینا سین (Christina Sanne) نے کیا تھا۔

بارہویں۔تیرہویں صدی کے لکڑی کے دروازوں کا ایک عجیب و غریب جوڑا، جو کہ روایتی خطاطی اور گنجلک ہند سیائی طرز اور عربی گُلکاری سے آراستہ تھا وہ بھی یہاں پر نیلام کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔ ان کے علاوہ دیگر تعارفی پینٹنگ بھی یہاں پر رکھی گئی تھیں، جن میں 1780میں ہندوستان میں اس پو لیلور کی جنگ کا منظر دکھایا گیا تھا، جس میں میسور کے ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کے سامنے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ حالانکہ برطانیہ نے آخر کار ٹیپو کو 1799میں سرنگا پٹنم میں شکست دے دی تھی۔ تاہم پولیلور کی جنگ برطانوی تاریخ میں بد ترین فوجی شکست کے طور پر درج ہے، جس کی وجہ سے ٹیپو کو شیر میسور کہا جاتا ہے۔ یہ تعارفی پینٹنگس جن کو ٹیپو نے اپنے دیوان خاص کی دیواروں پر آویزاں کرنے کا حکم دیا تھا، ان میں ٹیپو اور ان کے والد حیدر علی کو شاہی لباس میں ملبوس ہاتھیوں پر سوار دکھایا گیا تھا۔ بونھیمس سیل (Bonhams Sale) میں ٹیپو سلطان کے اس سنہری تخت میں شیر کے اس سر کو بھی رکھا گیا تھا جس میں جواہرات جَڑے ہوئے تھے۔ ٹیپو سلطان کے عالیشان تخت کے شیر کے بقیہ سروں میں سے اس وقت موجودہ تین سروں میں سے یہ صرف ایک سر تھا۔ ان میں سے ایک برطانیہ کی مہارانی کے نوادرات کے مجموعہ میں شامل ہے۔ قیمتی جواہرات سے مرصع شیر کا یہ سر جو کہ ٹیپو سلطان کے عالیشان تخت میں نصب تھا، 700000 ڈالر سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوا تھا۔

لندن کے اس معروف نیلام گھر میں پوری دنیا کے قدیم فن پارے اور نوادرات نیلام کئے جاتے ہیں۔ چین کے قدیم فن پاروں اور نوادرات کا حالانکہ یہاں کے ماہرین اور نیلام گھر کے ذمہ داران نے ذکر کیا ہے تاہم اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ عرب کے علاوہ اسلامی ممالک کے فن پاروں اور نوادرات کی لندن میں ہونے والی نیلامی نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے، جس سے اسلامی ممالک کے فن پاروں اور نوادرات سے ان کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close