Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلامی تہذیب و ثقافت کی روشن مثال زامبیا

افریقہ دنیا کے پراسرار بر اعظموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عصر جدید میں بھی اس بر اعظم کے اسرار ورموز کو کھنگالنے کی اہل مغرب کی جانب سے کوششیں جاری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں جہاں عجیب و غریب درندے اور جانور پائے جاتے ہیں۔ وہیں دوسری جانب یہاں کے عوام سحر کے علوم میں بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اہل مغرب نے یہاں کے عوام کی پر اسرار زندگی اور طرز رہائش کو جاننے کے لئے نہ جانے کتنی مہمیں چلائیں اور یہاں کے عوام کا قبائلی طرز رہائش بدلنے کی کوشش کی۔ انہیں جدید ماحول میں لانے کا سلسلہ شروع کیا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود افریقہ کے عوام کی تہذیب و ثقافت پر جدیدیت کا سایہ نہیں پڑ سکا۔ مگر جب اس پر اسرار بر اعظم میں مسلمانوں کے قدم پہنچے اسلام کی روشنی پھیلی تو یہ روشنی افریقہ کے عوام کے دلوں کو روشن کر گئی۔ افریقہ کا ایک ملک زامبیا انہیں ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں پر اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد ایک نیا منظر ابھرا ہے۔ دینی علوم کے مراکز، اسلامی تہذیب و تشخص اب اس ملک میں اپنی الگ شناخت بنا چکے ہیں۔ یہاں کے مسلمان مسجدوں کی تعمیر کے سلسلے میں زبردست حوصلے کے حامل ہیں۔ یہاں کی مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کا روحانی منظر یہاں بسنے والے دوسری اقوام کو مسلسل متاثر کرتا ہے۔ مسجدوں اور یہاں پر ہونے والی باجماعت نماز کی ادائیگی نے اسلام کے فروغ میں زبردست رول ادا کیا ہے، اگرچہ زامبیا میں اسلام کے قدم چوتھی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکے تھے۔ تجارت اور اسلام کے فروغ کی غرض سے مسلمان صومالیہ اور کینیا سے آکر زامبیا میں مقیم ہوئے تھے۔ خاص کر عرب ممالک سے بھی غلام تنزانیہ، موزنبیق کے ساحل پر آئے تھے۔ بعد میں یہ زامبیا میں مقیم ہوئے اور اسلام کے فروغ میں حصہ لیا لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب زامبیا انگریزوں کے قبضہ میں آیا اور نو آبادیاتی زون میں شامل ہوا تب انگریزوں کے تسلط والے علاقوں سے بھی لوگ زامبیا پہنچے۔ مسلمانوں کی ایک چھوٹی تعداد ہندوستان سے بھی تجارت و معیشت کی غرض سے یہاں پہنچی اور انہوں نے جہاں اپنی ترقی کی راہیں ہموار کیں، وہیں اس ملک میں اسلام کے فروغ کے بھی راستے نکالے اور اسلامی تہذیب و تشخص کا پرچم بلند کیا۔ گوکہ جنوبی افریقہ کے زامبیا کی سرحدیں کانگو، تنزانیہ، ملاوی، موزنبیق، نامیبیا اور انگولا سے ملتی ہیں۔ انگولا کے پڑوسی زامبیا نے اس پر احتجاج بھی کیا ہے۔ زامبیا کا یہ احتجاج وہاں کی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے جذبات کا پر تو ہے۔ یہاں کی تہذیب و تمدن کی خوش بو ہے کہ اس ملک میں ’ایک زامبیا‘ اور ایک قوم کا ترانہ گایا جاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انتہائی قلیل تعداد کے باوجود مسلمان بہت تیزی کے ساتھ ہر میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ قومی محبت اور مذہبی آزادی کا نتیجہ ہے کہ دین کے فروغ میں بھی اس ملک کے رول کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ زامبیا کا اسلامی مرکز ملک کی ثقافت اور روایت کا نہ صرف امین ہے بلکہ اس کی خدمات سے تعلیمی میدان میں بھی یہاں کے مسلمان جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ زامبیا میں ان کے قائم کردہ انتہائی معیاری تعلیمی مراکز میں غیر مسلم طلبا بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون دنیا کے ان ممالک کو بھی درس دیتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود وہاں پر تعلیم و دینی خدمات کی رفتار انتہائی سست ہے:

زامبیا جنوبی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ زامبیا کی کُل 11.26 ملین آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 5 فیصد سے کم ہے۔ زامبیا میں چوتھی صدی ہجری میں اس وقت اسلام ظہور پذیر ہوا، جب مسلمانوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر اپنی امارات قائم کی تھیں۔ اسی دوران مسلم تاجروں نے اپنی تجارت و اقتصادیات کو ملک کے اندرونی علاقوں تک وسیع کر دیا۔ یہ اس وقت رواں دواں ہوا، جب عالی قبیل کے ابو سعید زامبیا پہنچے۔ انہوں نے ساحل کی شاہراہوں سے لے کر اندرونی علاقوں تک مساجد تعمیر کرائیں اور دین کے فروغ میں مسلمانوں کو شامل ہونے کی تلقین کی۔ اس کے علاوہ یہاں دانشوروں اور تاجروں نے زامبیا میں اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ وہاں کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

تنزانیہ کے ساحل پر واقع اپنے تجارتی مراکز سے یہ لوگ زامبیا، ملاوی اور موزنبیق سے داخل ہوئے تھے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مزید کچھ مسلمان صومالیہ اور کینیا سے آکر زامبیا میں رہائش پذیر ہوئے، جوکہ برطانوی دور اقتدار میں بنیادی طور پر برصغیر خاص کر ہندوستان سے آئے تھے۔ برصغیر سے آئے مسلمان ملک کے وسطی علاقے میں واقع لیونگ اسٹون سے لوسا کاتک ریلوے لائنوں کے پاس قیام پذیر ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں زامبیا چاروں جانب سے گھرا ہوا ایک ملک ہے۔ شمال میں اس کی سرحدیں کانگو جمہوریہ ری پبلک، شمال مشرق میں تنزانیہ، مشرق میں ملاوی، موزنبیق، زمبابوے، بوٹسوانہ اور نامیبیا سے جنوب میں اور مغربی علاقے میں انگولا سے ملتی ہیں۔

گزشتہ دور میں شمالی روڈیشیا کے نام سے معروف اس ملک کے نئے نام میں ملک کی قدیم ندی ”زامبیزی“ کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ زامبیا کی کُل آبادی تقریباً 72نسلی گروپوں پر مشتمل ہے۔ اس نسلی گروپوں میں زیادہ تر بنٹو زبان بولنے والے افراد ہیں لیکن 90 فیصد زامبیا کے باشندوں کا تعلق نسلی۔لسانی گروپوں سے ہے۔ ان میں بیمبا، نینجا۔چپوا۔تو نگا، تُمبوکا، لنڈا، لوویل، کاؤنڈے، نکویا اور لوزی طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ جہاں تک زامبیا کے دیہی علاقوں کا تعلق ہے تو وہاں ہر ایک نسلی گروپ ملک کے خاص جغرافیائی علاقے میں ہی مقیم ہیں لیکن کچھ ایسے گروپ بھی ہیں، جو نسبتاً چھوٹے ہیں لیکن ابھی تک ان کے بارے میں پختہ جانکاری نہیں ہے۔ لوساکا اور کوپر بیلٹ میں ان تمام گروپوں کو اچھی خاصی تعداد میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی تہذیب و تمدن کا بھی دیگر ملکوں کی تہذیب و تمدن سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ زامبیا کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ملک میں مساجد کی تعمیرات و ترقی انتہائی تیزی کے ساتھ ہوئی ہے۔ فرنٹ لائٹ فیلوشپ کے نام سے معروف ایک تنظیم کے مطابق اس خطے میں اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس ملک کے مسلمان زامبیا میں پرائمری اور سکنڈری اسکولوں کو قائم کرنے میں جس حوصلے کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ ان اسکولوں کا معیار بلند ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم خاندان بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیج رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان سے زیادہ کوئی دوسرا اسکول بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔

حالانکہ ملک کے مختلف علاقوں میں مساجد تعمیر کرائی گئی ہیں تاہم ملک کے مشرقی علاقے اور لوساکا صوبہ میں خصوصی طور پر مسجدوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تنظیم کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ مساجد کی تعمیرات میں وہی طرز اختیار کیا گیا ہے، جو یاؤ قبیلے کے منتشر شدہ موجودہ مسلم طبقے نے اختیار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لنڈازی پیٹایوک میں مساجد کی تعمیر کا کام ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمانوں نے شروع کیا تھا اور انہی مسلمانوں کی وجہ سے مسلم فرقہ کی ایک فاؤنڈیشن وجود میں آئی۔ چنانچہ یاؤ قبیلے کے درمیان مسلم طبقہ کی مسلسل ترقی میں اس فاؤنڈیشن کا اہم رول ہے۔ مسلمانون میں علم کے فروغ کے لئے خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ خاص کر غریب لوگوں کو یہاں مراعات بھی دی گئی ہیں۔ اس طبقہ کے افراد غریب طلبا کی فیس بھی ادا کرتے ہیں اور مسلمانوں کے بے سہارا بچوں کے لئے یہ مسلمان یتیم خانے بھی کھولتے رہتے ہیں۔ یہاں مساجد، اسکول، مقامی اداروں اور مقامی باشندوں کے ذریعہ کثیر تعداد میں کھولے گئے ہیں۔ تبدیلی مذہب کرنے کی وجہ سے اس ملک کے مذہبی معاملہ میں اسلام نے یہاں اپنی بہترین نمائندگی کا ثبوت دیا ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق جب زامبیا میں اسلام پھیلا تو اس نے افریقہ کے غیر مقیم باشندوں خصوصی طور پر جنوبی افریقہ کے ممالک جیسے صومالیہ، تنزانیہ، کانگو، سینیگل، مالے گھانا اور نائیجیریا کے لوگوں کو بھی متاثر کیا۔ یہاں ایسے بھی واقعات نظر آتے ہیں، جب کچھ لوگ اپنی بیویوں کے ہمراہ یہاں نہیں آئے اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیئ مذہب کرنے پر انہوں نے زامبیا کی خواتین سے شادی کرلی اور کچھ ایسے معاملات بھی سامنے آئے، جب ان مقامی خواتین نے مسلمانوں سے شادیاں تو کرلیں لیکن وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوئیں۔ لوساکا مسلم ویمنس ٹرسٹ جیسی تنظیموں نے اس سلسلے میں خواتین کی بہبود کے لئے اہم رول ادا کیا ہے تاکہ یہاں کی خواتین عوام کے درمیان آئیں اور خود کو اس طرح سے پیش کریں جس میں اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک ایسا نمونہ ہوتا کہ یہاں کی دیگر خواتین بھی مشرف بہ اسلام ہونے کی جانب توجہ دیں۔ زامبیا کے وہ نوجوان جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا انہیں پاکستان، سعودی عرب، مصر اور سوڈان جیسے غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ 1980 کی دہائی سے سیکڑوں نوجوان مشرف بہ اسلام ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کیا گیا تاکہ اسے پڑھ کر لو گ اسلامی عقائد اور اس کی روحانیت کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکیں۔ اسلام کے فروغ میں اسلامی لٹریچر کی فراہمی کا بھی زبردست رول ہے۔ زامبیا میں اسلام کے فروغ و اشاعت کے لئے اسلامی لٹریچر کو وسیع پیمانے پر شائع کیا اور اسے تقسیم کیا گیا۔ آج بھی مقامی مسلم تنظیمیں لوگوں کو اسلام سے متعارف کرانے اور انہیں اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے اسی عمل کے ساتھ سرگرم ہیں۔

لوساکا مسلم سوسائیٹی (ایل ایم ایس) ایک ایسی تنظیم ہے جوکہ 1958 میں ہندوستانیوں کے ذریعہ اور ہندوستانیوں کے لئے قائم کی گئی تھی۔ یہ لوساکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی اہم تنظیم ہے۔ اب اس میں اگرچہ زامبیا کے دیگر مسلمان بھی شامل ہوگئے ہیں تاہم اب بھی اس میں ہندوستانی مسلمان اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔ ایل ایم ایس اس وقت ایک مسجد چلا رہی ہے، جس کو برما مسجد (Burma Mosque) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ برما روڈ کے آخری حصہ میں واقع ہے جوکہ Independence اوینیو کے نزدیک ہے لیکن دراصل اس کا نام ’عمر مسجد‘ ہے۔ یہ لوگ اسی مقام پر کئی دیگر مساجد بھی اب تعمیر کرا رہے ہیں۔ ایماس ڈیل (Emmasdale) اور تھورن پارک (Thorn Park) میں واقع مساجد بھی انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ چیلنجے (Chilenje)، اولڈکا نیاما (Old Kanyama)، میٹرو مٹینڈرے (Mtendre)، چواما (Chawama)، کوکو (Kuku) میں واقع اور کئی دیگر مساجد کی انہوں نے تجدید و تزئین کرائی ہے۔ 1970میں زامبیا مسلم ایسوسی ایشن (زیڈ ایم اے) کی تشکیل کی گئی تھی اور اس کے 2 سال بعد زامبیا مسلم سوسائیٹی (زیڈ ایم ایس) اور بعد میں یونائیٹڈ اسلامک آرگنائزیشن (یو آئی او) 1981 میں قائم کی گئی۔ 1988 میں حکومت کے نیشنل کنونشن کے نتیجہ میں کونسل آف زامبیا (آئی سی زیڈ) وجود میں آئی۔ اس کے اولین صدر رچرڈ نگومبے تھے۔ اب کونسل کے چیئر مین رچرڈ فیری، جبکہ شابان فیری اس کے ترجمان اور اسد اللہ فیری اس کے مفتی ہیں۔

لو ساکا مسلم ویمنز ٹرسٹ (ایل ایم ڈبلیو ٹی) نے اپنے طبقے میں خواتین کو ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرایا ہے، جہاں پر وہ اپنی خواہشات اور ضروریات سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے ایک تعلیمی ادارہ جسے زامبیا اسلامک چائلڈ کیئر ایجوکیشن اور دعوۃ ایسوسی ایشن (زیڈ آئی سی ای ڈی اے) بھی قائم کیا ہے۔ یہ تعلیم کے تعلق سے مسلمانوں کی تشویش اور حوصلے کا نتیجہ ہے، جس کے تحت اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے فرقے اور ملک کے لئے اچھے مسلم لیڈروں کو تربیت دی جائے، جس کی آج ضرورت ہے۔ انہوں نے لوساکا میں مختلف تعلیمی ادارے کھولے، جن میں سے بہت زیادہ اہم ادارے مندرجہ ذیل ہیں:

لوساکا اسلامک کلچرل اینڈ ایجو کیشن فاؤنڈیشن (ایل آئی سی ای ایف)، جوکہ عمر مسجد کے نزدیک بر ماروڈ پر واقع ہے، کو ایل ایم ایس کا سر چشمہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مکینی اسلامک سوسائیٹی ٹرسٹ (ایم آئی ایس ٹی) دائرہ کار ملک گیر سطح کا ہے اور اسے مسلم طبقے کا ’فخر‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ زامبیا میں اسلامک ایجوکیشن ٹرسٹ (آئی ای ٹی زیڈ) قائم ہے، جس کو دارالعلوم بھی کہا جاتا ہے۔ جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ (جے آئی ٹی) مستقبل کے مذہبی رہنماؤں کو تربیت دینے کا ایک مرکز ہے۔ یہاں عربی اور اردو کی تعلیم اس مقصد سے دی جاتی ہے کہ وہ یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ جائیں۔ بلاشبہ گزشتہ چند دہائیوں سے اسلام نے دنیا کے مختلف حصوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔ پی ایچ ڈی کی تھیسس پر مبنی ایک کتاب کے مطابق اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے درمیان آبادی کی ایک چھوٹی سی اقلیت کے ذریعہ نمائندگی کئے جانے کے باوجود اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (ایس او اے ایس) نے اپریل 2005 میں ہونے والی اس ریسرچ کی وجہ سے زامبیا میں مذہبی اور سیاسی و سماجی دونوں پس منظر میں ایک وسیع پیمانے پر اہمیت حاصل کی ہے۔ 1970 سے نہایت بیدار اور مصروف کار لوگوں نے مساجد، اسکول اور یتیم خانے تعمیر کرانے شروع کر دیئے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کے فروغ کے لئے نہ صرف منصوبے بنائے بلکہ پہلے سے موجود فرقے اور مشرف بہ اسلام ہونے والے نئے لوگوں کے درمیان لٹریچر کے توسط سے مزید بیداری پیدا کی ہے۔

مقامی ایسوسی ایشن کی قوت محرکہ نے اسلام کے فروغ کے لئے نہ صرف حیرت انگیز کارنامے انجام دیئے، بلکہ پہلے سے ہی مقیم مسلم طبقہ کو بہت تقویت بخشی۔ معاشرے پر ان کے اثرات سے ایک نئی جہت وجود میں آئی، جس کی وجہ سے لوگوں کو اسلام سے متعلق جانکاری حاصل کرنے میں قابل قدر مدد ملی۔ اس سلسلے میں مقامی اور بیرونی اداروں نے زامبیا جیسے ممالک میں عصری نشاۃ ثانیہ لانے میں بنیادی رول ادا کیا۔ ایک کتاب کے عیسائی مصنف نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ زامبیا میں کتنے مسلمان ہیں اور کس طرح وہ اپنی کار گزاریاں انجام دے رہے ہیں، ان سے نہ صرف در پردہ تعصبات میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ بہتر طریقے سے باہمی مذاکرات کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ایک طرح سے اگر ہم یوں کہیں کہ زامبیا اپنی تہذیب و ثقافت کو لے کر دنیا میں منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ثقافت امن کے فروغ میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ زامبیا کی تہذیب و ثقافت امن کی پیرو ہے۔ نتیجہ ہے کہ اس ملک میں اسلام کو تیزی سے پھیلانے کا مو قع بھی ملا۔ زامبیا اگرچہ 1964 سے قبل برطانیہ کا نو آبادیاتی خطہ تھا۔ 24 اکتوبر 1964 کے بعد یہ ملک برطانوی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ اقتصادی ہو یا سماجی ترقی دونوں میدانوں میں زامبیا اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ زامبیا کا یہی روشن پہلو یہاں پر اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی ترقی کا ضامن بھی ہے۔ مسلمانان زامبیا اس روشن پہلو کے تناظر میں اپنی ترقی کی راہیں نکال رہے ہیں۔ خاص کر دین کی خدمت کے لئے مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب علم کے میدان کو بھی سر کر نے کی کوششیں زامبیا کے مسلمانوں کے حوصلے کی شناکٹ ہیں۔ افریقہ کا یہ ملک بلا شبہ عالم اسلام کے لئے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close