Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلامک فائنانس کی قیادت

اسلامی نظام تعلیمات دنیا کے لئے کل بھی روشن مثالیں تھیں اور آج بھی اسلامی نظام دنیا کو صالح بنانے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ چھٹی صدی سے لے کر بارہویں صدی تک اسلام نہ صرف دینی سطح پر اپنی کامیابی کے پرچم بلند کرتا رہا بلکہ دنیا کو نئے نئے مناظر سے دو چار بھی کرتا رہا خاص کر علم کے معاملہ میں مسلمانوں نے دنیا کو جو کچھ دیا ہے، بھلے ہی بعد میں اس پر مغرب کا ٹھپہ لگ گیا ہو لیکن اس کے اندر مسلمانوں کی ہی کاوش پوشیدہ ہے۔ فزکس، کیمسٹری، میڈیکل سائنس سے لے کر علم فلکیات تک اسلامی سائنسدانوں نے اپنے علم و ہنر کا کمال دکھایا اور جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو اس کمال کو انگریزوں یا مغربی قوتوں نے یرغمال بنا لیا اور اس پر اپنی مہر لگا دی۔ آج دنیا کساد بازار ی کے دور سے گزر رہی ہے۔ عالمی معیشت خود بحران سے دو چار ہے۔ تجارت کی مارکیٹنگ میں اتھل پتھل ہے لیکن اقتصادیات کے میدان میں مسلمانوں نے جو پیمانے طے کئے وہ آج کے دور کے لئے بے حد سود مندثابت ہو رہے ہیں خاص کر بینکوں کا دیوالیہ پن اور افراط زر میں اضافہ کو اسلامی نظام اقتصادیات کے ذریعہ ہی درست کیا جا سکتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلامی بینکنگ کی کئی شاخیں غیر ممالک میں قائم ہو چکی ہیں۔اسلامک ڈولپمنٹ بینک اس میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ اسلامی بینکنگ، اسلامی نظام اقتصادیات، اسلامی علم معیشت آج کی کساد بازاری کے لئے راحت جاں بن چکی ہیں اور سب کی نظریں اب اسلامی بینکنگ کی جانب ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر اسلامی معیشت کو فروغ دینے اور دنیا میں اسلامی تجارت اور سرمایہ کاری کو آگے بڑھانے کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ ایک دور تھا کہ 57 مسلم ممالک اسلامی بینکنگ کے تحت عالمی تجارت کا 14 فیصد حصہ بنے ہوئے تھے اور آج اس میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے، ہندوستان میں بھی اسلامی بینکنگ کی ستائش ہو رہی ہے۔ کئی معروف ماہرین معاشیات نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی بینکنگ کے ذریعہ معیشت کی ڈوبتی رگوں میں لہر پیدا کی جا سکتی ہے، یہ اسلامی بینکنگ اور اسلامی معیشت کی بڑھتی مقبولیت کا کمال ہے کہ اے ایم یو ایسوسی ایشن نے اسلامی فائنانس کا ایک شعبہ قائم کیا ہے، جس کے تحت ایم بی اے کے طلبہ بھی اسلامی بینکنگ، اسلامی فائنانس، اسلامی معیشت کے رموز و نکات سے واقف ہو سکیں گے۔ زیر نظر مضمون اسلامک فائنانس اور اس کی افادیت کا بھر پور احاطہ کرتا ہے:

انٹرنیشنل کمیٹی برائے گلوبل ایوینٹس (ICG Events) کے زیر اہتمام اسلامی فائنانس شعبہ میں حصولیابیوں، ترقیات، انفرادی کاوشوں اور ادارہ جاتی کو ششوں کے تحت کارہائے نمایاں انجام دینے کے اعتراف میں اسلامک فائنانس ایوارڈ دیئے جانے کی ایک تقریب کا 10سال قبل انعقاد کیا گیا تھا۔ 8 ایوراڈ کے لئے منتخب کئے جانے والوں میں سعودی عرب سمیت سعودی عرب میں واقع دیگر اداروں اور انفرادی طور پر نمایاں کارکردگی انجام دینے والے اشخاص بھی شامل تھے۔

سعودی عربین مونیٹری ایجنسی (SAMA) کے گورنر محمد الجاسر کو اسلامی اقتصادی خدمات میں غیر معمولی تعاون دے کر اسے مزید فروغ دینے کے اعتراف میں اس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ اسلامک ڈیولپمنٹ بنک (IDB) کے صدر احمد محمد علی کو ایک غیر معمولی لیڈر کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت علی آئی ڈی بی میں تقریباً 30برسوں تک اپنے نقطۂ عروج پر رہے تھے سوائے اس مدت کے جب ان کو کچھ ماہ کے لئے مکہ معظمہ میں قائم مسلم ورلڈ لیگ کا سیکریٹری جنرل مقرر کر دیا گیاتھا۔ ان کی نگرانی میں آئی ڈی بی اسلامی دنیا میں بینک کی کثیر جہتی ترقی کرنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہو گیا تھا اور اس نے نہ صرف ممبر ممالک کی معیشت کو فروغ دینے کا کارنامہ انجام دیا تھا بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامی معیشت کو فروغ دینے اور بین اسلامی تجارت اور سرمائے کاری میں بھی پیش رفت کی تھی۔ اُس وقت 57 مسلم ممالک میں محض بین اسلامی تجارت کا حصہ صرف 14فیصد تھا۔

اس ایوارڈ کے لئے جن سعودی فاتحین کا انتخاب کیا گیا تھا، ان میں اسلامک کارپوریشن برائے انشورنس آف انویسٹمنٹ، ایکسپورٹ کریڈٹ جو کہ آئی ڈی بی گروپ کا شریک کار ہے، کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ جدید اسلامک فائنانس کے لئے جیبوتی کنٹینر ٹرمنل فائننسنگ کو بھی منتخب کیا گیا تھا۔ آئی ڈی بی نے وسط مدتی سہولت فراہم کرانے کے تحت ایک بلین آر ایم (ملیشیائی کرنسی) جاری کرنے پر نہایت جدید (Sukuk اسلامی بونڈ) کے ڈھانچہ/ڈیل کے لئے بھی یہ ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ اسلامی شرع کے مطابق یہ بونڈ بینکنگ نظام اور شعبہ مالیات میں ایک انقلابی قدم ہے، جس میں سود کی قطعیٔ طور پر گنجائش نہیں ہے۔ سعودی عرب میں واقع یونیکورن بینک کے سی ای او ایمن سیجنی (Ayman Sejiny) درالارکان رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کمپنی (DAAR) کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں انہیں ’’اسلامی بینکر آف دی ایئر‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ ایک پرائیوٹ کارپوریٹ کمپنی کے ذریعہ دار (DAAR) کو شرعی بانڈ (Sukuk) جاری کرنے کے ایک ادارہ کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا کیونکہ اس نے اس وقت 750سعودی ریال بطور شرعی بانڈ (Sukuk) جاری کئے تھے۔ بالکل اسی طرح سعودی عرب کا نیشنل کامرشیل بینک نے گلوبل اسلامک فائنانس کو فروغ دینے میں غیر معمولی تعاون دیا تھا، اسے بھی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا بلکہ سراج کیپیٹل کو اسلامی دولت کے تعلق سے مثالی نظم کرنے کے لئے بہترین خدمات فراہم کرنے والا ادارہ قرار دیا گیا تھا۔ اسلامی کیپیٹل مارکیٹوں میں ترقی کی غیر معمولی کارکردگی انجام دیئے جانے ودیگر اہم ایوارڈ سے ملیشیا کے سیکورٹیز کمیشن کے چیئر مین تان سری زارینہ انور کو سرفراز کیا گیا تھا جو کہ 2006 سے ہی ملیشیا کی اسلامی کیپیٹل مارکیٹ کی ترقی اور اسے فروغ دینے میں اہم رول ادا کر رہے تھے۔

دراصل اسلامی شرعی بانڈ میں اس وقت اچھال دیکھا گیا تھا جب 2006 کی نصف دہائی میں خصوصی طور پر جی سی سی کے کارپوریٹ گھرانوں میں اس کی تعداد اور مقبولیت میں شان دار طریقہ سے اضافہ ہوا تھا۔ گلف بانڈ کے کل نئے ایشوز میں جو کہ 2005 میں محض 26 فیصد تھے، ان کے مقابلے شرعی بانڈ کے ایشوز 81 فیصد ہو گئے تھے۔ اسی سے شرعی بانڈ کی مقبولیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ 3بلین سعودی ریال (800 ملین ڈالر) کے کچھ بڑے شرعی بانڈ جو کہ اس سال سعودی بینک انڈسٹریز کارپوریشن (SABIC) کی جانب سے جاری کئے تھے، ان کی رقومات جنرل کارپوریشن فائنانس میں استعمال کی گئی تھیں، جن کا مقصد سعودی کیان (Saudi Kayan) جیسے کارخانوں میں حصص کی مساوی سرمایہ کاری ( Equity) کرنا تھا اور متحدہ عرب امارات میں تبرید(نیشنل گیس کولنگ کمپنی) کی جانب سے 200 ملین ڈالر کے شرعی بانڈ جاری کرنا تھا۔ جی سی سی Gulf Cooperation) Council) خطہ میں گزشتہ برسوں کے دوران تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہونے اور زبردست پیمانے پر مائعیت (Liquidity) کے سبب شرعی بانڈ (Sukuk) کو فروغ دینے کی ایک اہم ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں اسلامی سرمایہ کاری کے لئے فنڈ درکار تھے، جن کے تحت شرعی بانڈ کے توسط سے سرمایہ کاری کئے جانے کی ضرورت پیدا ہو گئی تھی۔ جی سی سی میں گزشتہ برسوں کے دوران کارپوریٹ شرعی بانڈ میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا تھا جو کہ 2003 میں 122 ملین سعودی ریال سے بڑھ کر 2004 میں 1.712 ملین سعودی ریال اور 2005 میں 2.147 ملین سعودی ریال سے بڑھ کر 2006 کی ابتدائی نصف مدت میں 4.585 ملین ریال ہو گئے تھے۔ عالمی اقتصادی بحران سے متاثرہ ممبر ممالک کو تعاون دینے کے مقصد سے آئی ڈی نے انٹرنیشنل مارکیٹ سے فنڈ جمع کرنے کے لئے شرعی بانڈ جاری کئے تھے۔ آئی ڈی بی کے سربراہ نے کہا تھا کہ گلوبل اقتصادی بحران کے پیش نظر یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔ چنانچہ آئی ڈی بی نے 500 ملین ڈالر کے شرعی بانڈ جاری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مختلف پروگراموں میں اقتصادی معاونت فراہم کی جا سکے۔ اس سال اولین شرعی بانڈ تنگ دستی سے نڈھال انڈسٹریز کو جاری کیا گیا تھا۔ حالانکہ محمد علی نے یہ بھی بتایا تھا کہ آئندہ دنوں میں اس ضمن میں آگے پیش رفت کرنے کی پلاننگ ہے تاہم انہوں نے یہ بات بتانے سے گریز کیا تھا کہ اس میں کس قدر اضافہ کیا جائے گا، اس کے ممکنہ دائرہ کار کی تفصیلات بتانے سے بھی انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

اسی سال فروری میں آئی ڈی بی نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ان کا منصوبہ سنگا پور، انڈونیشیا اور ممکنہ طور پر قزاخستان میں مقامی کرنسی میں شرعی بانڈ جاری کرنے کا ہے۔ اسلامک بینکر بادلی شاہ عبدل کا کہنا تھا کہ آئی ڈی بی کے ذریعہ مقامی کرنسی میں شرعی بانڈ جاری کرنا نہایت اچھی بات ہے اور جب مارکیٹ معمول پر آجائے گی تو اس کا اپنا ایک معیار قائم ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے اس جگہ پر کارگزاریاں شروع کرنے میں مدد ملے گی، جہاں پر کارگزاریوں کا فقدان ہے، تاہم آئی ڈی بی اس سے بھی زیادہ اہم رول ادا کرسکتا ہے۔

گلوبل اسلامک بینکنگ نے عالمی سطح پر سالانہ 10 سے 15 فیصد تک غیر معمولی ترقی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اسلامک فائننشیل انسٹی ٹیوشنز میں اس ترقی سے اسلامی شرعی بانڈ کی مارکیٹ ترقی کی اونچائیوں پر پہنچ گئی تھی، جہاں اس کا دائرہ کار 2003 میں محض 8 بلین ڈالر سے 2007 میں 70 بلین ڈالر ہو گیا تھا۔ گلوبل کریڈٹ بحران اور اسلامک فائنشیل سینٹروں میں معیشت کی رفتار سست ہونے پر اس بات کا دباؤ دیا گیا تھا کہ اسلامک بونڈ میں 1 ٹریلین ڈالر کی پونجی لگائی جائے جو کہ 30 سالہ تاریخ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی۔ چنانچہ آئی ڈی بی نے گلوبل فائنشیل بحران اور مسلم ممالک میں سرمایہ کاری کے پروجیکٹوں میں اقتصادی ذرائع کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ آئی ڈی بی کے سربراہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف سعودی پریس ایجنسی نے بھی کیا تھا۔ چنانچہ آئی ڈی بی نے ممبر ممالک کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی Capital کو 8.2 بلین ریال سے بڑھا کر 15بلین (25بلین ڈالر) دینار کر دیا تھا۔ محمد علی نے کہا تھا کہ آئی ڈی بی کے ڈپازٹ اور اثاثوں پر اقتصادی بحران کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ہمارے فنڈز کی محفوظ اسلامی پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کی گئی تھی اور کسی بھی طرح کی قیاس آرائیوں سے تجارت متاثر نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ ملیشیا کے سابق وزیراعظم مآثر محمد کی قیادت میں ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی تاکہ وہ بینکوں کے تعلق سے اپنے نئے نظریہ کو پیش کر دیں۔ اس ٹیم کا اولین کام یہ تھا کہ وہ غیر ملکی بینکوں کی انتظامی اصلاحات کا جائزہ لے کر اپنی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لئے منصوبے وضع کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح سے آئی ڈی بی ایک ترقی یافتہ اقتصادی آرگنائزیشن ہونے کے ساتھ ایک ایسا ادارہ بھی بن جائے گا جو کہ ممبر ممالک میں ترقیاتی کاموں کو فروغ بھی دے گا اور نئے اقتصادی پروگراموں کے متعارف کرائے جانے سے آپسی تعاون بھی مضبوط ہو جائے گا۔ پریزیڈنٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’اقتصادی ذرائع کو یکجا کرنے کے لئے بینک کے ترقیاتی پروگرام میں نئے وسائل اور میکنزم بھی شامل کئے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ہم بہت سی اقتصادی تنظیموں سے رابطہ کریں گے اور چھوٹے و درمیانی کاروبار کے لئے فنڈ بھی دیں گے، جس کی وجہ سے خواتین اور نوجوانوں کے لئے ملازمت کے زیادہ مواقع پیدا ہو جائیں گے۔‘‘

جب ان سے یہ معلوم کیا گیا کہ غریب مسلم ممالک کے افردا جو کہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہوئے ہیں ان کی معاونت کرنے کے لئے بینک کے پاس کون سے پروگرام ہیں تو محمد علی نے کہا تھا کہ آئی ڈی بی کے گورنروں کی گزشتہ میٹنگ جو کہ جدہ میں منعقد ہوئی تھی، اس میں مقصد کے لئے 1.5 بلین ڈالر مختص کئے گئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ’’ہمارا بینک زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے ممبر ممالک کی معاونت کرے گا، ہم ان کے کسی بھی ترقیاتی پروجیکٹ میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

ملیشیا کو اس بات کا یقین کامل تھا کہ شرعی بانڈ کی وجہ سے چند ہفتوں کے اندر ہی مارکیٹ میں اچھال آجائے گا اور امید قوی ہے کہ اس سے ریجنل اور گلوبل سُکُک مارکیٹ بحال ہو جائے گی۔ ایک سینئر سرکاری افسر نے بتایا تھا کہ 60بلین آر ایم (ملیشیائی کرنسی) کا اقتصادی محرک پیکیج، جس کا اعلان اُس سال 10 مارچ کو وزیرخزانہ محمد نجیب رزاق نے کیا تھا، اس میں 15بلین آر ایم بطور فسکل انجکشن (Fiscal Injection) گارنٹی کی شکل میں اقتصادی سیکٹر کو دیئے جانے شامل تھے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’سُکُک (Sukuk) کی مقبولیت میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے کارپوریٹ گھرانے ہیں جو کہ اسلامی سیکیورٹیز (Securities) جاری کرتے ہیں لیکن 2008میں ان پر شرعی بانڈ جاری کرنے میں تاخیر سے کام لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا جوکہ 2009 کی چوتھائی مدت تک جاری رہا تھا کیونکہ قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے شرعی بانڈ جاری کرنے کا عمل بہت زیادہ مہنگا ہو گیا تھا لیکن سرکاری گارنٹیاں دستیاب ہونے پر ہمیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ قیمتوں اور مارکیٹ میں بہت جلد صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ اگر پوری دنیا میں اسلامی بینکنگ نظام رائج ہو جائے تو یہ سب کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ نظام سود (Interest) کی لعنت سے پاک ہے۔ اس میں ربہ (سود) کی قطعیٔ گنجائش نہیں ہے، نہ رقم لینے والے کو سود دینا پرتا ہے اور نہ ہی رقم دینے والے کو سود لینا پڑتا ہے۔ یہ شرعی بینکنگ نظام اسلامی ضابطوں کے مطابق ہے چنانچہ شرعی بانڈ جس میں سود نہیں بلکہ مساوی حصص دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ضابطہ اور شریعت کے تحت سود لینا یا دینا دونوں حرام قرار دیئے گئے ہیں اس لئے پوری دنیا کے لئے اسلامی بینکنگ نظام سب سے بہتر اور فائدہ مند ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close