Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ارض مقدس میں سگریٹ نوشی پر پابندی

اسلام میں یوں تو شراب حرام قرار دی گئی ہے لیکن نشہ کرنے کی بھی سخت ممانعت ہے۔ خاص کر سگریٹ نوشی جو اب ایک فیشن کی طرح سوسائیٹی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس سے کتنا نقصان ہو رہا ہے، اس پر تشویش کا اظہار ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے بھی کیا ہے۔ چرس، افیون، ہیروئن اور دیگر ڈرگس کے استعمال کی ابتدا پہلے سگریٹ سے ہی ہوتی ہے اور اب تو نئے زمانے میں سگریٹ میں ہیروئن اور ڈرگس بھر کر نشہ خوری کا کاروبار بھی شباب پر ہے۔ سگریٹ نوشی صحت کے لئے کتنا مضر ہے یہ کوئی ماہرین طب ہی بتا سکتا ہے۔ کاص بات تو یہ ہے کہ اسلام میں ہر قسم کی نشہ خوری کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اب تو سعودی عرب میں بھی سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کیونکہ حج اور عمرہ کے موقع پر آنے والے حجاج اگر سگیٹ نوشی کرتے ہیں تو اس ے ماحولیاتی کثافت میں کتنی آلودگی آئے گی یہ الگ سوال ہے لیکن سگریٹ نوشی کی بو دوران عبادت بھی گراں گزرتی ہے حکومت سعودیہ نے ایک دہائی قبل انسداد سگریٹ نوشی مہم کا آغاز کیا تھا جو کامیابی کی منازل سے گزر چکی ہے۔ سعودی عرب میں تین ملین سے زائد عازمین دنیا بھر سے فریضۂ حج کے لئے آتے ہیں تقریباً سو ملکوں سے آنے والے عازمین کی سگریٹ نوشی پر پابندی کا پیغام یقیناً عالمی سطح پر پہنچے گا۔ سعودی عربیہ فار انیلیٹک میڈیا کی معاون نادیہ ایم رفعت کے مطابق سگریت نوشی صرف انسان کو ہی ضرب نہیں پہنچاتی ہے بلکہ معاشرے کو بھی ضرب لگاتی ہے۔ سگریٹ نوشی دراصل ایک فیشن بھی ہے، جس کی ابتدا گھروں سے ہوتی ہے والدین کی سگریٹ نوشی، دوستوں کی محفلیں، پارٹی کے انداز اس نشہ کا ذریعہ بنتے ہیں، لیکن سعودی عرب نے سگریٹ نوشی کو ارض مقدس میں ختم کرنے کے لئے جو مہم چلائی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ حج اور رمضان کے عمرہ کے موقع پر عازمین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ایسے موقع پر سگریٹ نوشی کی پابندی عبادت کے ماحول کو مزید روحانی بناتی ہے۔ سعودی عرب نے مقدس مقامات پر پابندی لگائے جانے سے ان مقامات کی تکریم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اعداد وشمار کے مطابق صرف خلیجی خطہ میں امراض کی وجہ سے 30 ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان میں سے 22ہزار کا تعلق سعودی عرب سے ہوتا ہے۔ مملکت کے ذریعہ سگریٹ نوشی پر پابندی اور اس کے لئے چلائی گئی مہم نہ صرف مملکت کے لئے ایک روح افزا منظر ہے بلکہ دنیا کے لئے بھی ایک پیغام ہے۔ نشہ کے خلاف یہ پیغام طبی نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی ضروری ہے۔ زیر نظر مضمون سعودی عرب میں نشیلی اشیاء کے خلاف مہم اور اس کے اثرات پر محیط ہے:

حج اور عمرہ کے موقع پر مملکت میں عازمین اور زائرین کے کثیر تعداد میں جمع ہونے کے پیش نظر یہاں پر ایک دہائی سے زائد مدت قبل انسداد سگریٹ نوشی کی ایک زبردست مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ کوئی بھی مہم چاہے اس کا تعلق کمرشل، سوشل، انسانی بیداری وہمدردی یا کار خیر سے ہوا س کا مقصد کثیر افراد تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کاموں میں نہ صرف شائع شدہ ہینڈبل عوام کے درمیان تقسیم کئے جاتے ہیں بلکہ ٹیلی ویژن چینلوں کے توسط سے ناظرین اور ریڈیو کے توسط سے سامعین کو وسیع پیمانے پر متوجہ کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اگر صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا میں صرف حج اور عمرہ کے موقع پر ایک ساتھ سب سے زیادہ لوگ سعودی عرب میں جمع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ماہ رمضان میں عمرہ کرنے والے زائرین بھی کثیر تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ تقریباً 2 ملین زائرین ہر سال یہاں پر عمرہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور ماہ رمضان میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ تقریباً تین ملین عازمین پوری دنیا سے یہاں پر فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے آتے ہیں۔

بین الاقوامی اور داخلی عازمین حج اور عمرہ زائرین کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے مکہ معظمہ میں انسداد سگریٹ نوشی مہم کا زبردست پیمانے پر آغاز کیا گیا تھا۔ چنانچہ عبادت گزاروں سے حج اور عمرہ کے دوران مقدس شہر میں سگریٹ نوشی نہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں فینو مینل پی آر اینڈ ایوینٹس (Phenomenal PR Events) کی منیجنگ ڈائرکٹر سعدی زاہد نے بتایا تھا کہ ’’میڈیا کی کسی بھی شاخ میں ایڈورٹائزنگ کی مہم میں اہلکاروں کی توجہ لوگوں کی تعداد پر مرکوز ہوتی ہے تاکہ وہ وسیع پیمانہ تک لوگوں کو اس کے مقصد سے واقف کرا سکیں۔ اسی لئے وہ اس مہم پر کئی ملین ریال خرچ کرتے ہیں۔ سعودی حکام نے بھی سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لئے عازمین اور زائرین تک یہ پیغام پہنچانے کے لئے اس طریقہ کا استعمال کیا ہے تاکہ مقامی باشندوں اور بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ 100ممالک سے ارض مقدس میں آنے والے عازمین حج کی وجہ سے یہ پیغام عالمی سطح تک پہنچ جائے گا۔‘‘

سعودی عربیہ فار انٹیلیکٹ میڈیا (Saudi Arabia for Intellect Media)کی معاون شریک کار اور ریجنل ڈائرکٹر نادیہ ایم رفعت شیخ کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی حالانکہ ایک انفرادی عادت ہے لیکن اس سے نہ صرف سگریٹ نوشی کرنے والے کو نقصان ہوتا ہے بلکہ اس سے پورے معاشرے کو نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سگریٹ نوشی سے جسمانی اور معاشی دونوں نقصان ہوتے ہیں۔ ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے کے آس پاس جو لوگ موجود ہوتے ہیں اس سے ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے، ریسرچ اور دستاویزات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے، جو بچے اپنے والد یا والدین کو سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، بڑے ہو کر وہ بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حج کے موقع پر یا ماہ رمضان میں عمرہ کے موقع پر جب عازمین اور زائرین کی تعداد زبردست ہوتی ہے تو اس طرح کے اقدام کا خیر مقدم کرنا خوش آئند ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مملکت میں مقامی باشندوں کے علاوہ مختلف ممالک کے مہاجرین بھی رہتے ہیں، جو کہ فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے یا عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جاتے ہیں۔ لہذا انسداد سگریٹ نوشی کی مہم دور دراز علاقوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کے منفی اثرات سے بیدار کرنے کے لئے مکہ معظمہ میں مسجد الحرام کے اطراف میں 100ماہرین صحت اور کثیر تعداد میں اسکائوٹ تعینات کر دیئے گئے ہیں۔

وزارت صحت کے افسران مسواک کے ساتھ ساتھ مسجد الحرام کی تصویر بھی لوگوں کو دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس مقدس علاقے میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ مسجد الحرام کی تصویر پر غیر ملکی عازمین کے لئے سات زبانوں میں صحت سے متعلق ایک Message بھی شائع کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ سعودی ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کا ایک گروپ انسداد سگریٹ نوشی مہم میں تعاون دے رہا ہے اور وزارت صحت نے بھی مکہ معظمہ کے ضلع خالدیہ میں دو کلینک کھول دیئے ہیں، جہاں پر سگریٹ نوشی کرنے والوں کو مفت مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 4.9ملین افراد کی سگریٹ نوشی کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض کے سبب موت ہو جاتی ہے اور ان میں سے ایک ملین افراد مسلمان ہوتے ہیں۔

ماہ رمضان میں جب سحر سے افطار تک مسلمان روزے رکھتے ہیں اور اس دوران کھانا پینا بند کر دیتے ہیں تو وہ سگریٹ نوشی سے نجات حاصل کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے، اس وقت انہیں صرف قوت ارادی کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور افطار کے بعد بھی سگریٹ نوشی سے گریز کرنا ہوتا ہے۔ یہ معمول کسی بھی شخص کے لئے کچھ دن تک مشکل ضرور ہو سکتا ہے لیکن خود پر قابو رکھنے سے فائدہ ضرور ملتا ہے۔ اس طرح سے سگریٹ نوشی کی عادت یا لت آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے اور ایک ایسا وقت آتا ہے کہ سگریٹ نوشی مکمل طور پر چھوٹ جاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ مملکت میں عازمین کی تعداد کو دیکھ کر یہ قدم پہلی مرتبہ اٹھایا گیا تھا، 2006 میں بھی وزارت نے حج کو سگریٹ نوشی کے دھوئیں سے مبرا کرنے کے لئے ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کے دائرہ کار میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقدس مقامات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس دوران منیٰ اور عرفات میں بڑے بڑے اسکرین نصب کئے گئے تھے اور پوسٹر چسپاں کئے گئے تھے، جن میں سگریٹ نوشی کے مضمرات کے تعلق سے عبارات تحریر کی گئی تھیں۔ پورے مقدس شہر میں عربی زبان میں ایسے بہت سے پوسٹر تقسیم کئے گئے تھے، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ’’اپنا فریضۂ حج ادا کیجئے، اپنا فرض ادا کیجئے اور دوسرے لوگوں کو سگریٹ نوشی کرنے سے روکئے‘‘ اس مہم کے دوران توجہ مبذول کرنے والے ایک دیگر جملہ کا استعمال بھی کیا گیا تھا کہ جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’حج کی شروعات سے لے کر تمباکو نوشی کو ترک کردیں۔‘‘

چنانچہ مقدس مقامات میں تمباکو مصنوعات کی فروخت پر مکمل پابندی عائد ہے۔ مکہ معظمہ کی میونسپلٹی مقدس شہر کے اندر اور اس کے اطراف میں واقع اسٹوروں میں تمباکو مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد وشمار سے انکشاف ہوتا ہے کہ خلیجی خطہ میں تمباکو نوشی سے متعلق امراض کی وجہ سے ہر سال تقریباً 3000 لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ان میں سے 22000 لوگوں کا تعلق سعودی عرب سے ہوتا ہے۔ یہ ایک تشویش ناک تعداد ہے جو کہ مملکت کی کل آبادی کے تناسب اور تقریباً 22ملین آبادی کے لحاظ سے زیادہ تصور کی جاتی ہے۔ یہ حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی پانچ گنا زیادہ ہے۔ 6 ملین سگریٹ نوشی کرنے والوں کی وجہ سے مملکت نے انہیں دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو نوشی کرنے والے ممالک کے 22ویں زمرہ میں رکھا ہے۔ سعودی عرب میں 15بلین افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں جن پر سالانہ 633 ملین ریال خرچ ہوتے ہیں۔ گلف کو آپریشن کونسل (جی سی سی )، وزیر صحت کونسل کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سگریٹ درآمد کرنے والے دنیا کے سب سے زیادہ سگریٹ درآمد کرنے والے ممالک میں چوتھے مقام پر ہے۔

جی سی سی کی رپورٹ سے انکشاف ہوتا ہے کہ مملکت کے مغربی صوبوں میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کا پہلا مقام ہے جو کہ 26.8 فیصد ہے۔ اس کے بعد جنوبی صوبوں میں 23.9 فیصد اور شمالی صوبوں میں 14.9فیصد ہے۔ 2005 میں سعودی عرب دنیا میں ایسا 65واں ملک بن گیا تھا، جس نے ڈبلیو ایچ او فریم ورک کنوینشن کے تحت تمباکو پر کنٹرول کرنے میں اصلاح کی تھی۔ اب دیگر ممالک معاہدہ کے تحت تمباکو کے اشتہارات میں صحت سے متعلق وارننگ سگریٹ کے پیکٹوں پر دینے لگے ہیں تاکہ لوگوں کو سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی سے دور رکھا جا سکے۔ تمباکو کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی سگریٹ نوشی کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کی وجہ سے تمباکو مصنوعات کی اسمگلنگ پر بھی کافی حد تک قدغن لگ جائے گا۔

آج ذہنی انتشار کے بعد عالمی سطح پر تمباکو غیر فطری اموات کا سب سے بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے ہر سال 4.9 ملین افراد کی موت ہو جاتی ہے۔ وزیر صحت نے کہا تھا کہ اس معاہدہ کی وجہ سے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کو ایک اچھا موقع ملا ہے تاکہ وہ ایک ساتھ کام کر سکیں اور معاہدہ کی دفعات کے توسط سے معاشرہ کو تمباکو کے استعمال سے نجات دلانے میں تعاون دیں۔ انگریزی کے ایک ٹیچر خالد حفیظ نے کہا تھا کہ ماہ رمضان میں سگریٹ نوشی سے دور رہنے کی وجہ سے انہیں یہ عادت چھوڑنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’شروعات میں مجھے یہ کام مشکل ضرور محسوس ہوا تھا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میرے اندر اعتماد بحال ہو تا چلا گیا۔ میں نے عزم کر لیا تھا اور اس میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’رمضان درحقیقت بابرکت مہینہ ہے اور میں ہمیشہ ہمشہ اس پر عمل کروں گا۔‘‘

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے کچھ طلبا جنہیں سگریٹ پینے کی عادت تھی انہیں اس بات پر بہت تعجب ہوا تھا کہ انہوں نے سگریٹ نوشی بند کر دی ہے اور ان میں سے کچھ ایسے طلبا بھی تھے، جنہوں نے سگریٹ چھوڑنی شروع کر دی تھی۔ کچھ دنوں تک تو انہوں نے سگریٹ پینی چھوڑ دی تھی لیکن پھر شروع کر دی تھی۔ اس کے بعد دوبارہ شروع کر دی۔ ایسا اس لئے ہوا تھا کہ وہاں پر ماحول ہی اس طرح کا ہو گیا تھا جہاں پر ان کا اکثر وقت گزرتا تھا لیکن انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار ضرور کیا تھا کہ وہ یقینی طور پر ماہ رمضان میں سگریٹ نوشی ترک کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ عرب وولنٹیئرنگ ورلڈ (Arab Volunteering World) نے سعودی چیری ٹیبل سوسائٹی کے اشتراک سے تمباکو نوشی اور سگریٹ نوشی کی عادت سے نجات دلانے کے لئے ایک بڑی الیکٹرونک مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ بینک کے ذریعہ جاری کی گئی مشترکہ رپورٹ 2002 کا حوالہ دیتے ہوئے مہم کے سپروائزر عبدل بن سعد ال۔خوفی (Abdel Bin Saad Al -Khofi) نے کہا تھا کہ "ایسا خدشہ ہے کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے 2030 تک 500 ملین افراد لقمۂ اجل ہو جائیں گے۔ ‘‘ ال ۔خوفی نے مزید کہا کہ ’’اس طرح کی اموات میں سے 70فیصد کے امکانات عرب دنیا سے
وابستہ ہوتے ہیں کیونکہ سگریٹ نوشی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ گھریلو خواتین، بچوں یا دوستوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ سگریٹ نوشی کے نقصانات نہ صرف سگریٹ پینے والوں کو ہی ہوتے ہیں بلکہ عزیز و اقارب، بچوں اور دوستوں کے لئے بھی مضر ہوتے ہیں۔ ال۔خوفی نے یہ بھی بتایا کہ چیری ٹیبل سوسائٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مہم کے توسط سے عوام میں بیداری پیدا کی جائے گی اور سگریٹ نوشی کے ہلاکت خیز خطرات کی جانکاری دے کر انہیں اس عادت کو ترک کرنے کا مشورہ دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس عادت سے نجات پانے کے لئے ماہ رمضان نہایت موزوں ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں نشیلی اشیاء کی خرید وفروخت پر پابندی عائد ہے۔ سگریٹ نوشی کے تعلق سے دہائیوں قبل جو مہم چلائی گئی تھی وہ آج تک جاری ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں حج اور عمرہ کے عازمین اور زائرین کو یہ بات باور کرا دی جاتی ہے کہ دونوں مقدس مساجد کے اطراف میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں تو اہم دیواروں پر سگریٹ نوشی نہ کرنے کے بورڈ نصب کر دیئے گئے ہیں۔ بہر کیف، مملکت کی یہ مہم نہ صرف سعودی عرب کے لئے فائدہ مند ہے بلکہ پوری دنیا اس سے مستفید ہوتی ہے کیونکہ پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں مختلف ممالک کے عازمین و زائرین کثیر تعداد میں یہاں جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ انسداد سگریٹ نوشی اور تمباکو نوشی کی یہ مہم سعودی عرب میں آج بھی جاری ہے، جس کے دور دراز ممالک میں بھی خوش آئند اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close