Khabar Mantra
محاسبہ

کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

مندر نرمان کا طوفان رفتار پکڑتا جا رہا ہے، 6دسمبرسے اجودھیا کوچ کی دھمکی دی گئی ہے تو دوسری طرف ملک میں تیزی کے ساتھ شہروں، محلوں، سڑکوں اور بازاروں کے نام بدلنے کا عمل بھی جاری ہے۔ ہروہ نام جس سے مسلم تاریخ وثقافت کی جھلکیاں اجاگر ہورہی ہوں، ہروہ مقام جہاں سے مسلم حکمرانی کی تابانیاں عیاں ہورہی ہوں وہ سب اس نام نہاد ہندوتو کے نشانے پر ہیں۔ گجرات کے احمدآباد، مہاراشٹرکے اورنگ آباد، عثمان آباد، مدھیہ پردیش کے بھوپال، راجستھان کے ٹونک وغیرہ سے لے کر اترپردیش کے مغل سرائے، الہ آباد، فیض آباد، مظفرنگرتک، ان تمام ریاستوں میں، جہاں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے، وہاں وہاں نفرت کا تازہ کھیل جاری ہے اوریہ نیاکھیل کہاں تک جائے گا، ’بھارت کی پراچین سبھیتا‘ واپس لانے کی یہ سیاست کیا رخ لے گی، ہندوستان کو کس شکل میں پیش کرے گی اوردنیا اسے کس طرح قبول کرے گی یہ ایک پیچیدہ لیکن بڑاسوال ہے۔

لیکن اس سوال سے قطع نظر یوپی کی یوگی حکومت کے کابینہ وزیر راج بھر نے خود اپنی ہی حکومت کو آئینہ دکھایاہے۔ انہوں نے شہروں کے نام بدلنے کی سیاست پر جس تشویش کا اظہارکیاہے، وہی تشویش آج ہر سیکولر ذہن اور ذی شعور کے ذہن میں طاری ہے۔ راج بھر کاکہنا ہے کہ حکومت اگر مسلم ناموں سے اتنی ہی زیادہ عداوت رکھتی ہے تو بی جے پی میں شامل مسلم لیڈروں کے نام کیوں نہیں بدل دیتی ہے، ان کاکہناہے کہ نفرت کا یہ کھیل دراصل بنیادی مسائل سے عوام کارخ موڑنے کے لئے ہے۔ جذباتی ایشو کے تحت عوام گمراہ کئے جارہے ہیں۔ دلتوں اورمسلمانوں کے مسائل نظرانداز کئے جارہے ہیں اور ایک خاص طبقہ کے فروغ کی سیاست ہورہی ہے اور ایک خاص طبقہ کی تجارت کو بھی چرم سیما پرپہنچایا جارہا ہے۔ بلاشبہ راج بھرکادرد ملک وقوم کادرد ہے۔

نوٹ بندی کو دوسال ہوچکے ہیں، لیکن آج بھی ملک میں معیشت، بے روزگاری، جی ڈی پی، دہشت گردی، بلیک منی، جعلی نوٹوں کا دھندہ اسی طرح جاری وساری ہے جو 2016 سے قبل تھا۔ نوٹ بندی ملک کا وہ تاریخی عذاب ہے، جو دوسال کے بعد بھی ملک کی معیشت کاگلا گھونٹ رہا ہے۔ عوام بے بسی کے عالم میں ہیں، چھوٹے تاجر اچھے دنوں کا خواب لئے آج بھی بری حالت میں ہیں، کسانوں کی خستہ حالی جگ ظاہر ہے، بے روزگاری ہرسال بڑھتی جارہی ہے، گوکہ جوچیز جہاں ہے وہیں اپنی وسعت بڑھاتی جارہی ہے۔ راج بھر کاکہنا بالکل دورست ہے کہ عوام کا ذہن موڑا جارہا ہے۔ نوٹ بندی کے عذاب کے باوجود عوام کو مذہبی جنون کی جو گولی کھلائی جارہی ہے، اس کااثر کتنی دیر کا ہے یہ تو وقت بتائے گا، لیکن آج ملک میں جہاں مندر کا طوفان تیز رفتاری اختیارکر چکا ہے، وہیں اپوزیشن خاص کر کانگریس نوٹ بندی کو لے کر سڑکوں پر ہے۔ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد حکومت نے اس کے فائدوں کے بڑے لمبے چوڑے دعوے کئے تھے، لیکن حکومت کے تمام دعوے منگیری لال کے حسین سپنے ثابت ہوئے۔ سیاست کی بازی گری یہ بھی ہے کہ نوٹ بندی کے مقصدکو حکومت وقتاً فوقتاً شفٹ کرتی رہی ہے۔ اب نوٹ بندی کو ڈجیلائٹیشن کا فروغ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہائر انکم ٹیکس بیس کو مستحکم ہونے کی بات کہی جارہی ہے، حالانکہ 8نومبر 2016 کو نوٹ بندی کے اعلان کے بعدسابق وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ نے موجودہ وزیراعظم مودی کے نوٹ بندی کے قدم کو ایک منظم لوٹ قرار دیا تھا، انہوں نے یہاں تک کہاتھاکہ نوٹ بندی سے معیشت کا گراف 2.5فیصد گرجائے گا اور وہی ہوا۔ نوٹ بندی پرحکومت کے تمام تر قصائد بے بنیادثابت ہوئے۔ دو سال قبل منموہن سنگھ نے جو کہاتھا وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا۔ نوٹ بندی کے دوسال بعد ڈاکٹرمنموہن سنگھ کا یہ جملہ بھی بڑا معنی خیز ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ’ملک کی بدقسمتی کافیصلہ تھا، بیمار ذہنیت کا نتیجہ تھا‘۔ آج بھی نوٹ بندی کے زخم ہرے ہیں۔

میں دو سال قبل کے نوٹ بندی کے دنوں کو یادکرتا ہوں تو روح تک کانپ جاتی ہے کہ کس طرح پورا ہندوستان چند پیسوں کے لئے سڑکوں پرنظر آیا، کس طرح ایک عام آدمی صبح 4 بجے سے ہی اے ٹی ایم اور بینکوں کے سامنے اپنے ہی پیسوں کے لئے کاسۂ گدائی لئے ہوئے قطار میں نظر آیا، اسی قطاربندی نے 150 سے زائد زندگیاں نگل لیں۔ نوٹ بندی کے تحت بنائے گئے اصول سے نہ جانے کتنی شادیوں میں رکاوٹیں ہوئیں۔ تقریبات کے انتظامات وانصرام میں رخنہ اندازی ہوئی۔ نہ جانے کتنے چھوٹے کل کارخارنے بند ہوئے۔ چھوٹے تاجر برباد ہوئے۔ 80 فیصد مزدور بےکار ہوئے۔ کسان کھیتی سے مجبور ہوئے۔ نہ جانے کنتی غریب عورتیں جنہوں نے بچابچا کر پیسے جمع کئے تھے، وہ سب کاغذ کے ٹکڑوں میں بدل گئے اورجب پی ایم نے عوام اور کاروبار کا یہ حشر دیکھا تو انہوں نے 50 دنوں کاوقت مانگا، لیکن آج 730 دنوں سے زائد ہوچکے ہیں، نوٹ بندی کے بیکٹیریا سے آج بھی عام آدمی پریشان ہے۔ نہ تو دہشت گردی کم ہوئی، نہ امن چین اور سکون ہوا، نہ تو کالے دھن میں کمی آئی، نہ جعلی نوٹوں کا چلن بند ہوا، طرہ تو یہ ہے کہ بینکوں میں 99.3 فیصد نوٹ واپس آگئے۔ ریزروبینک کی سالانہ رپورٹ میں یہ اعتراف کیاگیا۔ نوٹ بندی سے قبل 15.41 لاکھ کروڑ کرنسی چلن میں تھی، اب 15.31 لاکھ کروڑ کرنسی واپس آچکی ہے، یعنی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا

نوٹ بندی کو دوسال ہوچکے ہیں، نوٹ بندی کی برسی کے موقع پر کانگریس سڑکوں پر ہے، کاش وہ اسی تیور کے ساتھ 2016 میں سڑکوں پرآئی ہوتی تو عوام کو حوصلہ ملتا، ماحول بدلتا، حکومت کو باربار نوٹ بندی کے اوپر اپنا موقف بدلنے کا موقع نہیں ملتا، اب الیکشن نزدیک ہے تو اپوزیشن کے ہاتھوں میں نوٹ بندی سمیت بہت سارے ایشوز ہیں، لیکن سوال تو پھر وہی ہے کہ کیا ہندوستان کے عوام مندر نرمان، پراچین سبھیتا کی واپسی اور شہروں کے نام بدلنے پر نوٹ بندی کا زخم بھول جائیں گے؟ کیا رافیل گھوٹالہ اور بینکوں کے گھوٹالے اور دیگر بدعنوانی کو نظر انداز کردیں گے؟ یہ ایک ایساسوال ہے کہ جو ہندوستانی عوام کی فطرت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ ہندوستانی عوام کی معصومیت کہئے کہ وہ خواب دکھانے والوں پر اپنی جانیں نچھاورکرتے ہیں اور خواب پورے نہیں ہوتے ہیں تو بھی وہ اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہندوستان کے سیاسی بازی گر معصومیت کی اسی بساط پر اپنا کھیل تماشہ دکھاتے رہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2019 کے الیکشن کی بساط وکاس کے ایشوز پر کامیاب ہوتی ہے یا مندرنرمان کا ایشوشہ مات کا کھیل ثابت ہوگا، بقول افتخار عارف:

کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشہ ختم ہوگا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close