Khabar Mantra
محاسبہ

دیش بدل رہا ہے……………..

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک عجب غضب بدلائو کی سمت گامزن ہے۔ ایک طرف تو ہندوتو کو فروغ دیا جا رہا ہے اور ہندو راشٹر کی بازگشت ہے ،تو دوسری طرف خواتین کو مساوات اور ان کے اختیارات کو لے کر نئی تہذیب کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ہم اس ہندوستان میں رہ رہے ہیں، جہاں کی پتی ورتا عورتوںکی مثالیں دنیا دیتی ہے یا کسی انتہائی ماڈرن ملک میں رہ رہے ہیں، جہاں عورت اپنی برہنگی اور آزادی پر شرمندہ ہونے کے بجائے فخر محسوس کرتی ہے۔ آج کل ہندوستان میں بھی عورت کی آزادی ،حقوق اختیارات اور مساوات کے بڑے دھوم دھڑاکے ہیں۔ اسی تناظر میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے عورتوںکے حقوق پر جو فیصلہ کیا ہے، اسے روایت کی ہار اور آئین کی فتح قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ فیصلہ ہندوستانی سنسکار واقداروثقافت و تہذیبی وراثت کے سامنے ایک سوال بن کر کھڑا ہو گیا ہے کہ ہم ہندوستانی سماج میں جی رہے ہیں یا یورپی معاشرے کے غلام بن گئے ہیں؟

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ شادی کے بعد کسی دوسری عورت سے تعلقات جرم نہیں، کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ کسی غیر مرد کے تعلقات کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ کورٹ نے اسے جرم سمجھنے والی دفعہ 497کو منسوخ کر دیا ہے۔ 158 سال پرانی اس دفعہ کے خاتمے کے بعدمساوات کے حامیوں کے بلے بلے ہیں۔ مرد و خواتین بھی قانونی و سماجی قدغن سے آزاد ہو گئے ہیں، جس کا جہاں جی چاہے منہ مارے، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عورتیں اپنے شوہر کے علاوہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئں، اس کی سرزنش نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میں وضاحت کر دی ہے کہ بیوی شوہر کی جاگیر نہیں ہے۔ اس کی منطق ہے کہ ایڈلٹری سے شادی خراب نہیں ہوتی، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے ایڈلٹری ہوتی ہے۔ اسے جرم مان کر سزا نہیں دی جا سکتی، یہ مظلومین کو نا حق سزا کے مترادف ہوگی۔

غور طلب ہے کہ 1860میں بنے قانون کی دفعہ 497 کے تحت شادی شدہ عورت سے تعلقات بنانے کی سزا پانچ سال کی ہے۔ اس معاملہ میں بھی شوہر کو ہی کیس کرنے کا حق حاصل تھا کہ اس کی بیوی کے فلاں شخص سے تعلقات ہیں۔ لہذا مرد کو ہی سزا ملتی تھی، لیکن جو شوہر دوسری عورت سے تعلقات بناتا تھا بیوی اس کے خلاف کیس درج نہیں کرا سکتی تھی اور نہ ہی عدالت جا سکتی تھی۔ اب اس فیصلہ سے شادی شدہ مرد و خواتین آزاد ہو گئے ہیں۔ مساوات کا پرچم بلند کرنے والا یہ فیصلہ ایک طرح سے فری سیکس کے لئے راہیں ہموار کر رہا ہے۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو ایک طرح سے شدید جھٹکا لگا ہے۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ کا دعوی ہے کہ اس نے عورت کے سمان کو تحفظ دیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کسی سے بھی جسمانی تعلقات بنائے تو اس عمل سے اس کے سمان میں تحفظ کیسے آتا ہے۔ دہلی ویمنس کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال کا یہ درد بھی درس آمیز ہے کہ اس فیصلہ کی روشنی میں اب شادی کی ضرورت ہی کیا ہے؟

زنا تو ہر حال میں ناقابل فراموش جرم ہے، خواہ یہ جرم شادی شدہ کرے یا غیر شادی شدہ ۔اسلام میں تو زانی کی جو سزا ہوتی ہے وہ بھی دنیا کے لئے عبرت ناک ہے، لیکن نئے فیصلہ سے عورتوں کے سمان اور مساوات کی آڑ میںجو سماجی خلفشار ہوگا، اس کے اثرات دور تلک جائیں گے، رشتوں کے ٹوٹنے میں اضافہ ہوگا، جنسی بے راہ روی بڑھے گی، شوہر و بیوی کے دل سے قانون وسماج کا خوف نکل جائے گا۔ سماج بھی تمام تر نا پسندیدگی کے باوجود چپ رہنے میں بھلائی سمجھے گا۔ ملک کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی تہذیب، اخلاق واقدار کے منافی ہے۔ اس سے نکاح کے رشتے کمزور ہوں گے۔ خاندانی نظام کے تانے بانے بکھر جائیں گے۔ شوہر بیوی کی بے راہ روی سے بددل ہو جائےگا اور مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوجائے گا۔

سوال تو یہ ہے کہ ایڈلٹری ہوتی کیوں ہے؟ اس کی وجوہات کیاہیں؟ کیا جسمانی تعلقات میں آزادی ہی میںعورت کا سمان و تحفظ پنہاں ہے؟ مجھے احسا س ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ آچاریہ رجنیش کے فلسفہ کا پر تو ہے۔ آچاریہ رجنیش کا فلسفہ تو یہی تھاکہ ’’کہ جب آپ کے اندر سارا ملیدہ نکل جائے گا تو آپ پوتر ہو جائیں گے اور سیکس کرنے سے آدمی پوتر ہو جاتا ہے۔‘‘اس فلسفہ کا کیا حشر ہوا دنیا جانتی ہے۔ 5000 سال قبل ایبیکورین دور میں بھی فری سیکس کا فلسفہ رائج ہوا تھا اور وہ قوم تباہ وبرباد ہو گئی تھی۔ ہندوستان کوئی یورپ، امریکہ نہیں ہے، جہاںپل پل شوہر اور بیویاں بدلی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی بیویاں پیش کرنا ہائی سو سائیٹی کا فیشن ہے۔ اس فیصلہ سے عورت کو تحفظ و سمان ملے گا۔ جنسی جرائم کم ہوں گے، یہ احمقانہ فکر ہے بلکہ اب ہوٹلوں پر چھاپہ نہیں پڑیں گے۔ بڑے، بزرگ اب ڈانٹ نہیں سکیں گے۔ اس فیصلہ سے ملک کی روشن تہذیب و ثقافت، سنسکار و اقدار سب تاریک ہوجائیں گے۔ عورتوں کا تقدس شوہر کی دہلیز میں پنہاں ہے اور یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ پہلے جنس زدہ حضرات چھپ کر کوٹھوں پر جاتے تھے۔نئی تہذیب آئی تو یہ جبلت کوٹھیوں میں در آئ ۔نئے فیصلہ سے کیا طوفان بد تمیزی ہو گی، سوچ کر جی لرز جاتا ہے۔ اب کھلے عام بو س و کنار کا منظر نامہ ہوگا اور معاشرہ خاموش تماشائی ہوگا۔

ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کے پانچ ججوں کا یہ متفقہ فیصلہ’’ کہ ایک عورت کے سمان کا تحفظ کیسے کرنا ہے ‘‘،یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے البتہ ایک بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ مردوں کی طرح اس فیصلہ سے عورت بھی بے راہ روی کے میدان میں بے لگام ہو جائے گی۔ اس کا وقارمزید پامال ہوجائے گا۔ ہندوستانی تہذیب کے بجائے مغربی تہذیب کے کرشمہ کا جمال ہوگا اورنئی تہذیب کے پیرہن میں ہندوستانی عورت جنسی بے راہ روی کے ریمپ پر کیٹ واک کرے گی۔ اس کی ٹوپی اس کے سر، اس کی بیوی اس کے گھر کا منظر نامہ ابھرے گا۔ ایک طرف تو مسجد میں نماز اسلام کا بنیادی جزو ہے یا نہیں، اس کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے نکالا جا رہا ہے، لیکن تھرڈ جینڈر جیسے مظلوم قوم کے فروغ، اس کی بہبود کی راہیں نکالنے پر عدلیہ خاموش ہے۔ بہر حال، شادی کے بعد مرد عورت کا کسی سے بھی جنسی تعلق نہ تو جائز کہلا سکتا ہے، نہ اخلاقی اقدار کو توانائی دے سکتا ہے۔ نہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل کر سکتا ہے ،عدالت کے فیصلہ کو لوگ مان ہی لیں ضروری نہیں۔ سینکڑوں قانون آج بھی بس یونہی ہیں، لیکن کچھ معاملے ایسے ہیں، جن کی اہمیت قانون سے زیادہ ہے اور وہ اخلاقیات پر مبنی ہیںاور یہ بحث برسوں سے جاری ہے کہ قانو ن بڑا ہے یا اخلاقیات۔ قانون کی خلاف ورزی پر سزا تب ملتی ہے، جب آپ پکڑے جائیں، لیکن غیر اخلاقی اور مذہب مخالف برائی کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں کیونکہ اس کی سزا اوپر والا دے سکتا ہے، لیکن کیا کہا جائے، یہاںاخلاقیات اور تہذیب کو پس پشت کرکے الٹی گنگا بہانے کی سعی ہو رہی ہے، ہر سمت یہی نعرہ ہے:

دیش بدل رہا ہے
آگے نکل رہا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close