Khabar Mantra
محاسبہ

میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہیے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

جموں وکشمیر میں 44 جوانوں کی شہادت نے پورے ملک کی آنکھیں اشک بار کر دی ہیں، ہر طرف غم و غصہ کا ماحول ہے۔ اس بزدلانہ حملہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن کیا صرف غم منانے یا مذمت کرنے سے ملک کا درد کم ہو جائے گا۔ اس سوال کی بازگشت بھی ہر سمت گونج رہی ہے کہ سرحد پر کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھ کیوں رہی ہے۔ حالانکہ اس کشیدگی کے بارے میں دو ہفتہ قبل امریکہ کی تین خفیہ ایجنسیوں سی آئی اے، ایف بی آئی اور ڈی آئی اے نے اپنی مشترکہ رپورٹ امریکی سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی کو یہ تشویشناک رپورٹ سونپی تھی کہ ہندوستان میں 2019 کے الیکشن سے قبل بڑے فسادات کا اندیشہ ہے، خاص کر ہند۔پاک سرحد پر کشیدگی میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی یہ رپورٹ درست ثابت ہوئی۔ سرحد پر خطرناک حد تک تناؤ میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس اندوہناک واقعہ کے رونما ہونے سے حکومت مخالف عوامی رجحان میں تبدیلی آئے گی۔ تیزی سے اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی مودی حکومت کیا عوامی ہمدردی حاصل کر سکتی ہے۔ کیا یہ ہمدردی الیکشن تک قائم رہ سکتی ہے؟ اگرچہ سیاسی مبصرین اس سوال پر یک رائے نہیں ہیں، اس واقعہ کو لے کر پورا ملک جہاں حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑا ہے، وہیں حکومت کی تنقید بھی ہو رہی ہے۔ سرحد پر تمام تر کشیدگی کے باوجود ملک میں 2019 کے الیکشن کی بساط بچھ چکی ہے۔

پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے اختتام کے ساتھ ہی برسراقتدار جماعت سے لے کر حزب اختلاف تک سبھی چناوی میدان میں اپنی اپنی پوزیشن کو لے کر اپنی اپنی حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ایم مودی نے پارلیمنٹ میں اپنے اختتامی خطاب میں واضح کیا ہے کہ بی جے پی ایک بار پھر مکمل اکثریت و الی مضبوط حکومت کے لئے عوام سے ووٹ مانگے گی۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا ہے کہ گٹھ بندھن میں سرکار کمزور ہوتی ہے، ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انہوں نے گٹھ بندھن کو ’مہا ملاوٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے ہندوستانی صحت کے لئے مضر قرار دیا ہے۔ حالانکہ ملک کے جو حالات ہیں، نفرت و تشدد کے جو مناظر ہیں، ترقیاتی کاموں، معیشت وروزگار کی جو خستہ حالی ہے اس سے عوام بددل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یوپی میں مایا۔اکھلیش کا گٹھ بندھن، تین ریاستوں میں کانگریس کا دوبارہ اقتدار میں آنا، جنوب میں بی جے پی کی زبوں حالی خود بی جے پی کے آگے چیلنج بن کر کھڑے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کانگریس میں پرینکا کی آمد سے جو قومی سطح پر ہلچل پیدا ہوئی ہے وہ بھی بی جے پی کے لئے تشویشناک ہے۔ اب پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 2019 کے الیکشن میں مضبوط سرکار کا تصور بی جے پی کے لئے بھی خام خیالی ہے تو اپوزیشن کے لئے بھی بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرکے ایک مضبوط سرکار کا خواب بھی محض ایک خواب ہی ہے کیونکہ ملک کے جو حکومت مخالف رجحانات ہیں وہ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ ٹی وی چینلس جو ہمیشہ مودی کا گُن گان کرتے رہے ہیں انہوں نے بھی جو سروے کرائے ہیں اس کے تحت 2019 میں مودی سرکار کا دوبارہ اقتدار میں آنا ایک کٹھن مرحلہ بتایا گیا ہے۔ اسی تشویش کے پیش نظر آر ایس ایس نے بھی اپنا الگ سے سروے کرایا ہے تو یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ 2019 کا الیکشن بی جے پی کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ اس الیکشن میں نہ تو مندر ایشو کام آئے گا، نہ ہندوتو اثر دکھائے گا۔ یہی سبب ہے کہ آر ایس ایس نے مندر ایشو پر یوٹرن لے کر ایک بار پھر مودی حکومت بنانے کی حکمت عملی شروع کر دی ہے۔

چند ہفتہ قبل بی جے پی نے بھی جو اندرونی سروے کرایا ہے، اس میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ گٹھ بندھن سے بی جے پی کو زبردست خسارہ ہوگا۔ بی جے پی کے اس اندرونی سروے میں بھی مرکز میں اس کی سرکار بننے میں بھی شک کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سرکار بنے گی بھی تو بہت کمزور بہت مجبور ہوگی کیونکہ 2019 میں گٹھ بندھن کی سیاست ایک بڑی طاقت بن کر مودی کی کرشمائی شخصیت کو ٹکر دے سکتی ہے اور امکان یہ بھی ہے کہ 2019کے الیکشن میں بی جے پی کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا اور گٹھ بندھن والی حکومت کا آفتاب طلوع ہو جائے گا لیکن یہ آفتاب زیادہ روشن نہیں ہوگا۔ گٹھ بندھن کی سرکار بھی مضبوط سرکار کے طور پر نہیں آئے گی۔

میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے اور دعا بھی یہی ہے کہ ملک کو ایک مضبوط سرکار کی نہیں ایک کمزور سرکار کی زیادہ ضرورت ہے۔ حکومت خواہ کسی کی بھی بنے لیکن یہ مجبور اور کمزور سرکار ہمیشہ ملک اور عوام کے حق میں وہ ایک ایسی سرکار ہو گی جہاں نہ تو آئینی اداروں کو غلام بنانے کی سیاست ہو گی نہ ان کا استعمال کرکے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کا موقع ملے گا بلکہ مودی کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ گٹھ بندھن سرکار میں ترقیاتی کام نہیں ہوتے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ گٹھ بندھن کٹھ پتلی ہوتی ہے جو حکومت میں شامل جماعتوں کے اشاروں پر چلتی ہے لیکن اس کمزور سرکار کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لاقانویت کا دور دورہ نہیں ہوتا۔ عدل وقانون و انتظامیہ سیاسی دباؤ سے بے نیاز اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہیں۔ کمزور حکومت میں سرعام کسی معصوم پر ظلم نہیں ڈھایا جا سکتا، ماب لنچنگ کا منظر نامہ نہیں ابھر سکتا، ہندوستان کی تاریخ و تہذیب بگاڑنے والوں کا بول بالا نہیں ہو سکتا، خاص طور سے عدل و قانون اتنا بے بس نہیں ہو سکتا جتنا آج ہے۔

کہنے کو بی جے پی کو ’پرچنڈ بہومت‘ ملا ہے لیکن زبردست اکثریت والی اس انتہائی مضبوط مودی سرکار نے آخر کیا مضبوطی دکھائی ہے کہ ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں کشمیر کی آگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے بھڑکتی ہی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مضبوط سرکار آنجہانی اندرا گاندھی کی تھی، جس نے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کے 82,000 فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور تاشقند سمجھوتے تک زیرحراست رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مضبوط حکومتوں نے ملک کی تہذیبی و رواداری کے ماحول کو نہ صرف غارت کیا ہے بلکہ آمرانہ ماحول کی سرپرستی کی ہے۔ دیکھا جائے تو سماج کی فلاح و بہبود و ترقی کے لئے ٹھوس قدم کمزور سرکاروں نے ہی اٹھائے ہیں۔ وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن لاکر سماجی انصاف کی جو راہ ہموار کی وہ ایسا تاریخ ساز کام ہے، جس کا فائدہ نسل در نسل اٹھاتی رہے گی اگرچہ بعد میں فسطائی قوتوں نے منڈل کمیشن کا تنازع کھڑا کرکے کمنڈل کی سیاست کو جنم دیا۔ رام جنم بھومی کا قضیہ زندہ ہوا، ہندوتو کی سیاست کا رقص شروع ہو گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں ہندوتو کی سیاست میں کوئی دم خم باقی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مودی کی کرشمائی شخصیت کا جادو برقرار ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ ملک کے عوام جذباتی ایشوز کے ذریعہ کیا اس بار بھی ٹھگے جائیں گے ؟ حالانکہ ان سوالوں کا جواب بی جے پی نے اپنے اندرونی سروے کے اندر پالیا ہے کہ 2019 میں معلق پارلیمنٹ ہو سکتی ہے۔ ہماری تو دعا یہی ہے کہ ملک میں ایسی ہی معلق پارلیمنٹ ہو اور کمزور سرکار آئے تاکہ ملک کا ماحول تو پرسکون رہے، اقلیت و دلت تو محفوظ رہیں، آئینی ادارے آزادی کے ساتھ اپنا کام تو کر سکیں، عدل و قانون کے محافظ تنائو محسوس نہ کر سکیں، ججوں کو اپنا درد اُجاگر کرنے کے لئے عوام کے پاس نہ جانا پڑے اور ملک کو بچانے کی دہائی تو نہ دینی پڑے۔ بقول دشینت کمار:

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہیے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close